حضرتِ سیّدتنا بی بی زینب بنت علی رضی اللہ تعالٰی عنہما نور والے آقا، میٹھےمصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نواسی، مولا علی و حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالٰی عنہما کی شہزادی اور جنّتی نوجوانوں کے سردار حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما کی سگی بہن ہیں۔آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ ظاہری میں پیدا ہوئیں، بڑی عقل مند، دانا اور فراخ دِل تھیں۔(اسد الغابہ،ج7،ص146)زینبِ کبریٰ آپ ہی کو کہا جاتا ہے۔ (تاریخِ مدینہ دمشق،ج69،ص174)
نکاح اور اولاد آپ کے والد حضرتِ سیّدناعلیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم نے اپنے بھتیجے حضرتِ سیّدنا عبدُاللہ بن جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے آپ کا نِکاح کیا، ان سے آپ کے ہاں چار بیٹوں حضرت علی، حضرت عون اکبر، حضرت عبّاس ، حضرت محمد اور ایک بیٹی حضرت اُمِّ کلثوم رضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین کی وِلادت ہوئی۔ (اسد الغابہ،ج7،ص146)
معرکۂ کربلا میں شرکت میدانِ کربلا میں آپ اپنے دو شہزادوں حضرت عون اور حضرت محمد رضی اللہ تعالٰی عنہما کے ساتھ تشریف لائیں، دونوں شہزادوں نے دورانِ جنگ بہادری کے خوب جوہر دِکھائے، بالآخر ظالم یزیدیوں کو تہِ تیغ کرتے ہوئےشہادت کاجام نوش کرگئے۔ (سوانح کربلا،ص127 ماخوذاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! صبرواستقامت سے کام لیتے ہوئے رضائے الٰہی پر راضی رہنا انتہائی اعلیٰ صفات ہیں، صبر کرنے سے اللہ پاک کی خاص مدد و نصرت حاصل ہوتی ہے، حضرت سیّدتنا بی بی زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کربلا کےقیامت نُما سانحہ میں اپنے بیٹے، بھتیجے حتّی کہ جان سے عزیز بھائی امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہم شہید ہوتے دیکھے لیکن اس کے باوجود ایک لمحےکےلئےبھی بےصبری کامظاہرہ نہیں کیا اور آپ کے پائے استقامت میں ذرّہ برابر بھی لرزش نہیں آئی، گویا آپ صبر کا پہاڑ تھیں جنہیں درد و غم کا کوئی بھی طوفان ان کی جگہ سے ہٹا نہیں پایا۔
گھر لُٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہلبیت
(ذوقِ نعت، ص 73)
مشکل وقت میں ان پاک ہستیوں کے مصائب یاد کرنے سے بھی صبر کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک یزیدی نے کربلا کی ظاہری برتری کو اپنی فتح کی دلیل بناتے ہوئے طنز کا زہریلا تیر چلایا تو حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اسے منہ توڑ جواب دیا، پھر اللہ پاک کے انعامات پر یوں حمد بجا لائیں: تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے حضرت محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے ہمیں عزّت بخشی اور ہمیں خوب ستھرا کیا۔(الکامل فی التاریخ،ج3،ص435ماخوذاً)
امامِ عالی مقام امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے دو روز بعد اسیرانِ کربلا کو کوفہ لے جایا گیا،کوفہ سے واپسی پر جب ان کا گزر میدانِ کربلا سے ہوا تو وہاں شہداء کے خون سے لَت پَت مبارک جسم دیکھ کر عزّت مآب خواتینِ اہلِ بیت کے دل بیتاب ہو گئے، دل کا درد ضبط نہ ہو سکا، حضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اس موقع پر بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ پر آسمان کے فرشتوں کا درود ہو، دیکھئے! یہ حسین میدان میں لیٹے ہوئے ہیں، خون میں لَت پَت ہیں، ان کے اعضا ٹکڑے ٹکڑے ہیں، آپ کی بیٹیاں قید میں ہیں، آپ کی اولاد شہید کر دی گئی ہے اور ہوا ان پر خاک اُڑا رہی ہے۔(الکامل فی التاریخ،ج3،ص434 ماخوذاً)
اہلِ بیتِ اَطہار کی محبت کا دم بھرنے والو! مشکل گھڑی آن پڑے تو ان پاکیزہ نفوس کی پیروی میں آپ بھی بارگاہِ رسالت میں استغاثہ پیش کیا کیجئے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں اور اللہ پاک چاہے تو اس کی برکت سے مشکلات بھی حل ہو جاتی ہیں۔
واللہ وہ سُن لیں گے فریاد کو پہنچیں گے
اتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دِل سے
(حدائقِ بخشش، ص 143)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…شعبہ فیضان صحابیات وصالحات ،المدینۃ العلمیہ ،سردارآباد (فیصل آباد)
Comments