تذکرہ مولانا مفتی نقی علی خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن/ حضرت پیرسیّد جماعت علی شاہ نقشبندی علیہ رحمۃ اللہ القَوی/ صدر الشریعہ اور کنز الایمان

ہند کے ایک شہر میں ایک مر تبہ بارش نہیں ہورہی تھی۔ لوگ بہت پریشان تھے، بالآخر یہ طے ہوا کہ اس شہر کے مشہور مولانا صاحِب سے دُعا کا عرض کیا جائے۔ مولانا نے لوگوں کو ساتھ لیا اور  عید گاہ میں پہنچے اور نمازِ اِسْتِسْقا (بارش کے لئے پڑھی جانے والی نماز) ادا کی۔ بعدِ نمازجب دُعا کے لئے  ہاتھ اٹھائے گئے تو لوگوں نے دیکھا کہ کہ یکایک بادل اُمَنڈ آئے اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔  اس روز کے بعد لگاتار بارش ہوتی رہی  یہاں تک کہ شہر کا قحط دور ہوگیا۔(مولانا نقی علی خان ا ز مولانا شہاب الدین ص53،52ملخصاً)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہندوستان کے اس شہر کا نام بریلی شریف اور ان مولانا  کا نام حضرت علّامہ مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰنہے جو کہ امامِ اہلِ سنّت،اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت کے والدِ گرامی اور ایک عظیم عِلمی  و روحانی شخصیت   ہیں۔ اہلِ عِلم آپ کو رئیسُ المتکلمین اور رئیسُ الاَتْقِیا کے القابات سے یاد کرتے ہیں۔

ولادتِ باسعادتآپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت 1246ھ  جُمادَی الاُخریٰ کی آخِری یا رَجَبُ المُرَجَّب کی پہلی تاریخ  کو بریلی شریف میں ہوئی۔

تعلیم آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ساری تعلیم اپنے والدِ ماجد مولانا رضا علی خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن سے حاصل کی جو اپنے زمانے کے زبردست عالمِ دین تھے۔ (جواہر البیان فی اسرار الارکان، ص6)انہیں کے زیرِ سایہ   فتویٰ نویسی کا آغاز فرمایا۔والدِ محترم کے انتقال کے بعد 1282ھ بمطابق1865ء سے وصال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ افسوس کہ آپ کے فتاویٰ جات  الگ سے جمع نہ ہوسکے۔(مولانا نقی علی خان از مولانا شہاب الدین، ص 30،29 مفہوماً)

اولادِ امجاد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے تین شہزادے اور تین شہزادیاں تھیں، شہزادوں کے نام یہ ہیں:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، مولانا حسن رضا خان اورمولانا محمد رضا خان۔ (ایضاً، ص38)

بیعت و خلافت5جُمادَی الاُولٰی1294ھ کو اپنے صاحبزادے (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) کے ساتھ مارہرہ مطہرہ  حاضر ہوئے اور  خاتمُ الاکابر سیّدنا شاہ آلِ رسول رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے شرفِ بیعت حاصل کیا ۔مرشِدِ گرامی  نے اُسی مجلس میں  باپ اور بیٹے دونوں کو   تمام سَلاسِل کی خلافت  بھی عطا فرما دی۔

(علامہ مولانا نقی علی خان حیات اور علمی و ادبی کارنامے، ص 51)

سفرِحرمینِ طیبین 1295ھ میں آپ علیل تھے۔خواب میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زیارت سے مشرف ہوئے تو سفرِ حج کا ارادہ فرمایا۔ بعض اَحباب نے بیماری کی وجہ سے   اگلے سال  حاضری کا مشورہ دیا تو ارشاد فرمایا : مدینہ طیبہ کے قصد سے قدم  دروازہ سے باہر رکھوں  پھر چاہے  روح  اُسی وقت پرواز کر جائے۔ اس سفر میں اعلیٰ حضرت عزت علیہ رحمۃ ربِّ العزت بھی ہمراہ تھے۔وہاں کئی علما سے ملاقاتیں رہیں اور ان سے سندِ حدیث حاصل فرمائی۔ (جواہر البیان فی اسرار الارکان، ص10)

تصانیفآپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سیرت، عقائد، اعمال اور تصوّف وغیرہ کے موضوع پر شاندار کُتُب تحریر فرمائیں۔ آپ کی تقریباً 26تصانیف کے نام ملتے ہیں۔ چند کے نام درج ذیل ہیں۔(1)جَوَاہِرُالْبَیَان فِی اَسْرَارِ الْاَرْکَان (2)اَلْکَلامُ الْاَوْضَح فِی تَفْسِیرِ سُوْرَۃ اَلَمْ نَشْرَح (3)سُرُوْرُ الْقُلُوبِ فِی ذِکْرِ المَحْبُوب (4)اُصُولُ الرَّشَاد لِقَمْعِ مَبَانی الْفَسَاد (5)ہِدَایَۃُ البَرِیَّہ اِلی الشّرِیعَۃِ الاَحمَدِیَّہ (6)اِذَاقَۃُ الاَثَامِ  لمانعی عمل المولد والقیام (7)اَحْسَنُ الوِعَا لِآدَابِ الدُّعَا (8)فَضْلُ العِلْمِ وَالعُلَمَا(مولانا نقی علی خان ا ز مولانا شہاب الدین،ص 39،جواہر البیان فی اسرار الارکان، ص7، 8)

وصال مبارک ذوالقعدۃ الحرام 1297ھ بمطابق 1880ء بروز جمعرات 51برس، 5ماہ  کی عمر  میں وصال فرمایا اور والدِ محترم کے پہلو میں دَفْن ہوئے۔(جواہر البیان فی اسرار الارکان، ص10)

آخِری کلام  وتحریراعلٰیحضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت فرماتے ہیں کہ پچھلا (یعنی آخری )کلمہ کہ زبانِ فیضِ ترجمان سے نکلا  لفظ”اللہ“ تھا   اور اَخِیر  تحریر  کہ دستِ مبارک  سے ہوئی!بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم تھی   کہ انتقال سے دو روز پہلے  ایک کاغذ پر لکھی تھی۔ (جواہر البیان فی اسرار الارکان، ص11)

اللہ پاک کی اُن پر رحمت ہو اور اُ  ن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مُدرِّس جامعۃ المدینہ ،ماریشس


Share

تذکرہ مولانا مفتی نقی علی خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن/ حضرت پیرسیّد جماعت علی شاہ نقشبندی علیہ رحمۃ اللہ القَوی/ صدر الشریعہ اور کنز الایمان

مشہور عاشقِ رسول بُزرگ، امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ نقشبندی مُحدِّث علی پوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1257ھ بمطابق1841ء کو علی پور سیّداں (ضلع  نارووال، پنجاب، پاکستان)میں  ہوئی ۔(تذکرہ اکابرِ اہلِ سنّت،ص113) 

تعلیم و تربیت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہنےحفظِ قراٰنِ کریم کی سعادت   اور ابتدائی تعلیم اپنے  محلّےہی میں حاصل کی اور مزید دینی تعلیم کے لئے برِّعظیم کے نامور علما و مشائخ سے استفادہ کر کے  علومِ عقلیہ و نقلیہ میں دسترس حاصل کی۔(اکابر  تحریک ِ پاکستان،ص 114 ملخصاً) بیعت و خلافت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ علومِ ظاہری میں  مہارتِ تامّہ حاصل کرنے کے بعد روحانی تربیت کے لئے حضرت خواجہ فقیر محمد المعرو ف باباجی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں مرید ہوئے  اور قلیل مدّت  کے بعد خلافت و اجازت سے مشرّف ہوئے۔ چند اوصاف اور کارنامے آپ باعمل عالمِ دین،شیخِ طریقت، عظیم مبلغِ اسلام اور متحرک (Active)راہنما تھے۔ آپ نے تبلیغِ اسلام کے سلسلے میں گرانقدر خدمات انجام دیں، کئی کفّار کو مشر ف بہ اسلام کیا، سینکڑوں مسجدیں اور متعدّد مدرسے قائم کئے،تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا۔ (تذکرہ اکابرِ اہلِ سنّت، ص113 تا 115 ملتقطاً) عشقِ مدینہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ زبردست عاشقِ مدینہ تھے،مدینے کی ہر شے سے محبّت رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدینۂ منورہ  میں تھے کہ اتفاقاً آپ کےکسی مُرید نے مدینۂ منورہ کے ایک کتّے کو (مٹی کا)ڈھیلا مارا جس کی وجہ سے وہ کتّا چیخے لگا،جب آپ کو پتا چلا توآپ بے چین ہوگئے اور اپنے مُریدوں کوحکم دیا کہ فوراً اُس کتّے کو آپ کے پاس لائیں ، جب وہ کتّا لایا گیا تو آپ اُٹھے اور ر وتے ہوئے اُس سے  کہنے لگے: اے دیارِ حبیب کے رہنے والے! لِلّٰہ میرے مُرید کی اِس لغزش کو مُعاف کردے۔ پھر بُھنا ہوا گوشت اور دودھ منگوایا اور اُس کتّے کو  کھلایا، پلایا۔ (سنّی علماء کی حکایات، ص 211ملخصاً) تصانیف ”ضرورتِ شیخ ،یارانِ طریقت، اطاعت ِ مرشد،مریدِ صادق “آپ کی یاد گار تصانیف  ہیں۔وصال آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال 26 ذوالقعدۃ الحرام 1370ھ بمطابق 30اگست 1951ء کو ہوا۔ آپ کا مزار علی پور سیّداں (ضلع  نارووال، پنجاب، پاکستان) میں مرجعِ خلائق ہے۔   (تذکرہ اکابرِ اہلِ سنّت، ص116۔117)

اللہپاک کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share

تذکرہ مولانا مفتی نقی علی خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن/ حضرت پیرسیّد جماعت علی شاہ نقشبندی علیہ رحمۃ اللہ القَوی/ صدر الشریعہ اور کنز الایمان

صدرُ الشریعہ، بدرُ الطریقہ،محسنِ اہلِ سنّت، خلیفہ اعلیٰ حضرت، مُصنّفِ بہارِ شریعت   حضرت علّامہ مولانا الحاج    مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی 1300ھ بمطابق 1882ء میں مشرقی  یوپی (ہند)کے قصبے مدینۃُ العلماء گھوسی میں پیدا   ہوئے۔(تذکرہ صدر الشریعہ،ص5)

صحیح اور اَغلاط سےمُنَزَّہ (مُ۔نَز۔زَہ) احادیثِ نَبوِیّہ واقوالِ ائمّہ کے مطابِق ایک ترجَمہ کی ضَرورت محسوس کرتے ہوئے آپ نے ترجمۂ قراٰن پاک کے لئے اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن کی بارگاہ ِعظمت میں درخواست پیش کی توارشاد فرمایا: یہ تو بہت ضَروری ہے مگر چھپنے کی کیا صورت ہوگی؟ اس کی طَباعت کا کون اہتِمام کرےگا؟ باوُضو کاپیوں کو لکھنا، باوُضو کاپیوں اور حُرُوفوں کی تصحیح کرنا اور تصحیح بھی ایسی ہو کہ اِعراب نُقطے یا علامتوں کی بھی غلطی نہ رہ جائے پھریہ سب چیزیں ہوجانے کے بعد سب سے بڑی مشکِل تو یہ ہے کہ پریس میں ہمہ وقت باوُضورہے،بِغیر وُضو نہ پتھّر کو چھوئے اور نہ کاٹے، پتّھر کا ٹنے میں بھی احتیاط کی جائے اور چھپنے میں جو جوڑیاں نکلی ہیں ان کو بھی بَہُت احتیاط سے رکھا جائے ۔آپ نے عرض کی: اِن شآءَ اللہ جو باتیں ضروری ہیں ان کو پوری کرنے کی کوشِش کی جا ئے گی، بِالفرض مان لیا جائے کہ ہم سے ایسا نہ ہو سکا تو جب ایک چیز موجود ہے تو ہو سکتا ہے آئندہ کوئی شخص اس کے طبع کرنے کا انتِظام کرے اور مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچانے میں کوشش کرے اور اگر اس وقت یہ کا م نہ ہوسکاتو  آئندہ اس کے نہ ہو نے کا ہم کو بڑا افسوس ہو گا۔

اعلیٰ  حضرت  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  نے فرمایا: ترجمہ کےلئے مستقل وقت نکالنا مشکل ہے اس لئے آپ رات کو سونےکے وقت یا دن میں قیلولے کے وقت آجایا کریں تو میں املا کرادوں، چنانچہ صدر الشریعہ ایک دن کاغذ ،قلم اور دوات لے کر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا: حضرت ترجمہ شروع ہوجائے چنانچہ اسی وقت ترجمہ شروع کروادیاگیا،آپ پہلے ترجمہ لکھتے پھر تفاسیر سے ملاتے، جس کی وجہ سے اکثر بارہ بجے کبھی کبھی دو بجے رات گئے اپنی رہائش گاہ پر واپس ہوتے۔ بِحَمدِاللہ عزَّوجَلّ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مَساعیٔ جمیلہ سے خاطر خواہ کا میا بی ہوئی اور آج مسلمانوں کی کثیر تعداد مُجدِّداعظم،امام اہلِ سنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے لکھے ہوئے قراٰنِ پاک کے صحیح ترجمہ ”ترجَمۂ کنزالایمان“سے مُستفید ہو کر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (یعنی صدرالشریعہ) کی ممنونِ اِحسان ہے اور اِن شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ یہ سلسلہ قِیامت تک جاری رہے گا۔

(تذکرہ صدر الشریعہ،ص17تا19ملخصاً،صدر الشریعہ نمبر، ص: 209 ملتقطاً)

گر اہلِ چمن فخر کریں اس پہ بجا ہے

امجد تھا گلابِ چمنِ دانش و حکمت

وصال شریف:2 ذوالقعدۃ الحرام 1367ھ کی دوسری شب 12 بج کر 26 منٹ پر بمطابق 6 ستمبر 1948ء کو آپ وفات  پاگئے۔ مدینۃ العلماء گھوسی(ضلع اعظم گڑھ،ہند) میں آپ کا مزار زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

(تذکرہ صدر الشریعہ،ص39تا 41ملخصاً)


Share