نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لاَ يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ، حَتَّى يُحِبَّ لِاَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهٖ یعنی تم میں سے کوئی بھی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (بخاری ، 1 / 16 ، حدیث : 13)
علمائے کرام و مُحَدِّثِین عُظّام نے اس حدیثِ پاک کے تحت کئی ایسے اُمور کو بیان کیا ہے جن کو اپنے اور دوسرے مسلمان بھائی کیلئے یَکساں خیال کرنا چاہئے۔ چنانچہ حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : خیال رہے کہ یہاں خَیْر مراد ہے ہر مسلمان کے لئے دنیا و آخرت کی خیر چاہو جو اپنے لئے چاہتے ہو۔ اس خیر کا ظہور مختلف طریقوں سے ہوتا ہے کسی کے لئے دولت مندی خیر ہےتو کسی کے لئے فقیری خیر ، کسی کے لئے خَلْوَت خیر ہے تو کسی کے لئے جَلْوَت خیر ، لہٰذا اگر خَلْوَت نشین مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے جَلْوَت چاہے جسے جَلْوَت بہتر ہو تو اس فرمان کے خلاف نہیں۔ (مراٰۃ المناجیح ، 6 / 555)
امام محمد بن عبد الدائم شافعیرحمۃ اللہ علیہلکھتے ہیں : ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مؤمن اپنے بھائی کو بُرائی سے محفوظ رکھے۔ اگر خود کی مصیبت اور پریشانی کو زیادہ محسوس کرے اور دوسرے مسلمان بھائی کی تکلیف کو ہَلکا جانے یا اپنے لئے بھلائی کے حصول کو دوسرے کے مقابلے میں تَرجیح دے تو اس کا ایمان کامِل نہیں۔
(اللامع الصبیح ، 1 / 143)
شارِحِ بخاری مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کامِل مومن وہی ہے جو اپنے مسلمان بھائی کے لیے و ہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ اس کو لازِم ہے کہ جو بات اپنے لئے ناگوار جانے وہ دوسروں کے لئے بھی ناپسند کرے یعنی آدمی یہ چاہتا ہے کہ ہم آرام ، اِعزاز کے ساتھ خوش و خُرّم رہیں ، کوئی ہماری توہین و تذلیل نہ کرے کوئی ہمیں تکلیف نہ پہنچائے ، کوئی ہمارا حق نہ چھینے غصب نہ کرے ، اسی طرح یہ (یعنی ایک مسلمان دوسرے کے لئے) بھی چاہے کہ میرا بھائی اعزاز و اکرام کے ساتھ خوش و خُرَّم رہے ، نہ اس کی توہین و تذلیل ہو نہ اس کا حق غَصْب کیا جائے ، اس سے بطورِ لزوم (لازمی طورپر) یہ بھی سمجھ میں آیا کہ ہر شخص اگر اس کا عادی ہوجائے تو معاشرہ صاف ستھرا رہے گا اور زندگی چَین و اطمینان سے گزرے گی۔ ظاہر ہے کہ لڑائی جھگڑے کی بنیاد یہی ہوتی ہےکہ انسان تنگدِلی سے یہ چاہنے لگتا ہے کہ سب کچھ ہمیں مُیَسَّر ہو اور دوسرے محروم رہیں۔ اس حدیث میں تواضع مُرَوَّت ، امدادِ باہمی ، ایک دوسرے کے کام آنے اور دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بَلِیغ ترین ترغیب ہے۔ حسد ، کِینہ ، عَداوَت ، بُغْض ، ایذاء رسانی حق تَلفی ، دوسرے پر بَرتَری چاہنا اور دوسرے کی تحقیر و تذلیل سے دور رہنے کی انتہائی دل نشین پیرائے میں تلقین ہے۔ اسی لیے عُلماء نے اس حدیث کو بھی “ جَوَامِعُ الْکَلِمْ “ اور “ اُمُّ الْاَحَادِیْث “ میں شمار فرمایا۔ (نزہۃ القاری ، 1 / 315 ملخصاً)
خیال رہے اکثر احادیث میں کچھ کاموں کواسلام کی عَلامَت یا اسلام قَرار دیا گیا ہے مثلاً فرمایا گیا : کھانا کھلانا اسلام ہے ، مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہے وغیرہ تو ان احادیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس مسلمان میں صرف کھاناکھلانے کی صفت پائی گئی وہ مؤمن کامل ہے اگرچہ بقیہ اعمال و ارکان ِاسلام کی پابندی نہ کرتاہو ، اسی طرح ان احادیث کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بس یہ ایک کام ہی اسلامی ہے اور باقی اعمال و اَرکانِ اسلامیہ غیر ضروری ہیں بلکہ کسی ایک کام کو خصوصیت کے ساتھ بیان کر دینے سے شارِع علیہ السَّلام کا مقصد اس عمل کی اہمیت(Importance) کا اظہار ہوتا ہے۔ (فیض الباری ، 1 / 187)
اللہ کریم ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے لئےاور اپنےمسلمان بھائی کے لئے اچھا سوچیں اوراچھا کریں۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صَلَّی اللہُ علَیہِ وَاٰلِہِ سلّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…استاذ دورۃ الحدیث جامعۃالمدینہ اوکاڑہ
Comments