دربارِ صدیقِ اکبر میں ایک باوقار عورت داخل ہوئی تو امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا صدیقِ اکبر رضیَ اللہ عنہ نے اس عورت کے بیٹھنے کے لئے اپنی چادر بچھا دی۔ حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ نے جب حضرت صدیقِ اکبر رضیَ اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ رضیَ اللہ عنہ نے فرمایا: یہ اس عظیم شخص کی بیٹی ہے جس نے زمانہ ٔ رسالت میں اپنی جان راہِ خدا میں قربان کرکے اپنا ٹھکانہ جنّت میں بنالیا۔([1])انبیاء و مُرسَلین علیہِمُ السَّلام کے بعد سب سے افضل شخصیت حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہ عنہ نے جس ذات کے بارے میں یہ اِعزازی کلمات ادا کئے وہ مُعزَّز و محترم اورعظیم شخصیت حضرت سیّدنا سعد بن ربیع انصاری رضیَ اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ عظیم صحابی ہیں، اسلام لانے کے بعد آپ نے اپنی زندگی عشقِ رسول میں بسر کی اور اس دنیا سے کُوچ کرتے ہوئے محبتِ رسول کے وہ انمول ہیرے عطا کردئیے جن کی چمک سے تاریخ کے اوراق روشن اور عاشقانِ رسول کےسینے منوَّر ہوگئے ۔ آئیے! اس عظیم صحابی رضیَ اللہ عنہ کے مختصر حالات پڑھتے ہیں۔ قوم کا سردار:حضرت سعد بن ربیع انصاری رضیَ اللہ عنہ کا شمارانصار کے ان 70 یا 72خوش نصیب مرد حضرات میں ہوتا ہے جنہوں نے اعلانِ ہجرت سے قبل عُقبہ (مکہ کے قریب گھاٹی) میں سرکارِ دو عالَمصلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے دستِ اَقدس پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔([2])اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے رب کے حکم سے نبیِّ کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّمنے جن بارہ معتبر اور قابلِ اعتماد افراد کو نقیب (قوم کا سردار ) بنایا ان معزز افراد میں آپ بھی شامل تھے۔([3]) آپ زمانہ ٔجاہلیت سے ہی لکھنا جانتے تھے، حالانکہ اس دور میں اہلِ عرب میں بہت کم لوگوں کو لکھنا آتا تھا۔([4])ایثار کی اعلیٰ مثال:حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے حضرت سعد بن ربیع اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا، حضرت سعد کے پاس دو باغ تھے اورآپ کی دو بیویاں تھیں، آپ رضیَ اللہ عنہ حضرت عبد الرحمٰن رضیَ اللہ عنہ کو اپنے ساتھ گھر لے آئے پھر کھانا منگوایا اور ان کے ساتھ کھانا کھایا پھر کہا: تم میرے دینی بھائی ہو تمہارے پاس کوئی زوجہ بھی نہیں ہے، میری دو عورتوں میں سے جو آپ پسند کریں میں اس کو طلاق دے دوں اور آپ اس سے نکاح کر لیں۔ میرے دو باغ ہیں جو آپ کو پسند آئے رکھ لیجئے، لیکن حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضیَ اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے نہ تمہاری عورت کی ضرورت ہے نہ تمہارا باغ چاہئے، میں نے اس لئے اسلام قبول نہیں کیا، تم مجھے (کاروبار کرنے کے لئے) بازار کا راستہ بتادو۔([5])غزوات میں شرکت: آپ رضیَ اللہ عنہ جنگ ِ بَدْر اور اُحد میں شریک ہوئے اور غزوۂ اُحد سِن 3 ہجری ماہِ شوّال میں ہی شہادت کا درجہ پایا۔([6])اپنے اس پیارے صحابی سے پیارے آقا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی محبت اور شفقت ملاحظہ کیجئے۔ خیریت دریافت فرمائی: غزوۂ اُحد میں مشرکین 70 کے قریب مسلمانوں کو شہید کرکے مکہ کی طرف لوٹ چکے تھے، مسلمان اپنے شُہَدَا کو ڈھونڈ رہے تھے اس موقع پر نبیِّ رحمت صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے کلمات اور جذبات آپ کے لئے یہ تھے:کیا کوئی ایسا شخص ہے جو جاکر دیکھے کہ سعد بن ربیع کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں۔ حضرت زید بن ثابت رضیَ اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے مجھے حضرت سعد بن ربیع کی خبر معلوم کرنے کےلئے بھیجا اور فرمایا: اگر تم سعد کو دیکھو تو اسے میری طرف سے سلام کہنا اور اسے بتانا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم پوچھ رہے ہیں کہ تم کیسے ہو؟ حضرت زید بن ثابت رضیَ اللہ عنہ نے شُہَدَا کے درمیان چکر لگاتے ہوئے حضرت سعد بن ربیع کو کئی مرتبہ پکارا مگر کوئی جواب نہ ملا، اچانک ایک جگہ سے کمزور سی آواز آئی: کیا ہے؟ حضرت زید رضیَ اللہ عنہ اس جانب بڑھے تو دیکھا کہ حضرت سعد بن ربیع رضیَ اللہ عنہ میں کچھ زندگی باقی ہے، حضرت زید رضیَ اللہ عنہ نے کہا: مجھے رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے بھیجا ہے کہ دیکھوں کہ تم زندہ ہو یا نہیں؟ زندگی کے آخری لمحات میں اس سچے عاشقِ رسول کے جذبات کیا تھے، ملاحظہ کیجئے۔ خوشی کی خبر :حضرت زید رضیَ اللہ عنہ کے کلمات سُن کر حضرت سعد بن ربیع رضیَ اللہ عنہ نے اپنی آنکھیں کھولیں اور پوچھا: رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم حیات ہیں، حضرت زید نے جواب دیا: ہاں وہ صحیح سلامت ہیں، رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے تمہیں سلام بھیجا ہے، آپ نے جواب دیا: رسولُ اللہ پر سلام ہو اور تم پر بھی! تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے ہیں کہ پیارے آقا محفوظ ہیں اب میرا دل مرجانے پر خوش ہورہاہے، تم بارگاہِ رسالت میں میرا سلام پہنچادینا اور عرض کرنا کہ یارسولَ اللہ! میں جنّت کی خوشبو محسوس کررہاہوں، عرض کرناکہ سعد کہہ رہا ہے:اللہ پاک ہماری طرف سے آپ کو اس سے بھی بہتر بدلہ عطا کرے جو کسی نبی علیہِ السَّلام کو ان کی اُمّت کی طرف سے عطا فرماتا ہے۔ قوم کو پیغام: میری قوم انصار کو سلام پہنچا دینا اور کہنا کہ بیعتِ عُقبہ میں تم نے رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے عہد کیا تھا، اگر تم میں کوئی پلک جھپکنے والا بھی ہوا اور رسولُ اللہ شہید ہوگئے تو بارگاہِ الٰہی میں تمہارا کوئی عذر قابلِ قبول نہ ہوگا۔ یہ کہہ کر حضرت سعد رضیَ اللہ عنہ اس دنیائے فانی سےکُوچ کرگئے۔ آپ کے جسم پر تیروں، نیزوں اور تلواروں کے 70 نشانات موجود تھے۔([7]) دُعائے خیر: جنابِِ رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کو جب یہ خبر پہنچی تو زبانِ رسالت پر یہ دُعائیہ کلمات تھے:اس پر رَحمت ہو کہ زندگی وموت ہر حال میں اللہ و رسول کے لئے مخلص رہا۔([8])جسم سلامت رہا:شُہَدَائے اُحد میں حضرت خارِجَہ بن زید رضیَ اللہ عنہ بھی شامل تھے، حضرت سعد بن ربیع اور حضرت خارِجَہ رضیَ اللہ عنہُما کو ایک ہی قبر میں دفنایا گیا، 46 سال کےطویل عرصے بعد حضرت سیّدنا امیرمعاویہ رضیَ اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں کنوؤں کے درمیان نہر کی کھدائی کا کام شروع ہوا تو اعلان کیا گیا: شُہَدَائے اُحد کے وُرَثاء حاضر ہوجائیں، لوگ وہاں آئے (قبروں میں نمی آچکی تھی چنانچہ کھدائی کی گئی)تو شُہَدَا کے جسم ترو تازہ تھے، شہدا کو قبروں سے نکالا گیاتویوں لگتا تھا کہ نیند کی حالت میں ہیں اور کل ہی دفن ہوئے ہیں، قبریں مُشک جیسی خوشبو سے مہک رہی تھیں، حضرت خارِجَہ بن زید اور سعد بن ربیع رضیَ اللہ عنہما کی قبر (نمی والی قبروں سے) علیحدہ تھی (یعنی اس میں پانی نہیں آیا تھا) لہٰذا ان کے اجسام کو نہیں نکالاگیا اورقبر کو دوبارہ بندکردیا ۔([9])بچیوں کو وِراثت دلوائی: آپ رضیَ اللہ عنہ کی زوجۂ محترمہ آپ کی دو بیٹیوں کو بارگاہِ رسالت میں لائیں اور عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم! یہ دونوں سعد کی بیٹیاں ہیں جو غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے اب ان کے چچا نے کُل مال لے لیا ہے ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا اور جب تک ان کے پاس مال نہ ہو ان کی شادی نہیں کی جاسکتی، حُضورِ اکرم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا :اس بارے میں اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما دے گا، پھر آیتِ مِیراث نازِل ہوئی اور رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے ان لڑکیوں کے چچا کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو دو ثُلُث (دو تہائی) دے دو اور لڑکیوں کی ماں کو آٹھواں حصّہ دے دو اور جو باقی بچے وہ تمہارا ہے۔([10])
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفِرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…مُدَرِّس مرکزی جامعۃالمدینہ ، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments