اسلام میں قِصاص کا حکم موجود ہے اور قِصاص کی ایک صورت جان کے بدلے جان بھی ہے۔ دوسری طرف دنیا کے بہت سے ممالک میں سزائے موت (Death Sentence) پر پابندی ہے اور بہت سی تنظیمیں سزائے موت کے خلاف احتجاج اور اس پر اعتراض کرتی ہیں۔ اس اعتبار سے سزائے موت پر ہونے والے اعتراضات اسلام کے اِس حکم پر بھی وارِد ہوتے ہیں۔ اس لئے اس پر ہم کچھ تفصیلی کلام کرتے ہیں :
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قصاص کا حکم سابقہ آسمانی دینوں اور کتابوں میں بھی موجود ہے چنانچہ بائبل عہد نامہ قدیم میں قصاص کا ذکر ان الفاظ سے کیا گیا ہے : تم ایک زندگی کے بدلے دوسری زندگی لو۔ تم آنکھ کے بدلے آنکھ ، دانت کے بدلے دانت ، ہاتھ کے بدلے ہاتھ ، پیر کے بدلے پیر۔ جلے کے بدلے جلاؤ ، کُھرَچ کے بدلے کھرچ کرو اور زخم کے بدلے زخم۔ (عہد نامہ قدیم ، باب خروج21 ، آیت23 تا25) دوسری جگہ بائبل عہد نامہ قدیم میں اس سزا کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہا گیا : ایسا کرکے اپنے میں سے ایک بُرائی کو ختم کرو گے ، اسرائیل کے تمام لوگ سنیں گے اور ڈریں گے۔ (عہد نامہ قدیم ، باب استثناء21 ، آیت21) ایک جگہ بائبل عہد نامہ قدیم میں اغوا کاروں کی حد(سزا) کا ذکر یوں کیا گیا : اگر کوئی آدمی اپنے لوگوں (اسرائیلیوں) میں سے کسی کا اغوا کرتا ہوا پایا جائے اور وہ اس کا استعمال غلام کے طور پر کرتا ہو یا اسے بیچتا ہو تو وہ اغوا کرنے والا ضرور مارا جانا چاہئے۔ اس طرح تم اپنے درمیان سے اس برائی کو دور کرو گے۔ (عہد نامہ قدیم ، باب استثناء24 ، آیت7)
اب آئیے عقلی دلائل کی طرف ، کسی بھی رِیاست (State) کی سب سے بنیادی ذمہ داری لوگوں کی جان کی حفاظت ہوتی ہے۔ اگر کسی کی جان محفوظ نہیں تو ریاست کے نظام کی مرکزی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔ جان کی حفاظت کے لئے بہت سے اقدامات کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک اِقدام سزاؤں کا نظام و نفاذ بھی ہے جو ایک طرف مجرم کے لئے عبرت و اصلاح کا سبب بنتا ہے اور دوسری طرف لوگوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ریاست کی نظر میں لوگوں کی زندگیوں کی بہت اہمیت ہے کہ ایک قاتل جب ایک قتل کرسکتا ہے تو سو قتل بھی کرسکتا ہے ، لہٰذا ایک قاتل کو سزائے موت دی جاتی ہے تاکہ ہزاروں ، لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی جان کی عظمت و اہمیت پورے رُعب و دبدبے کے ساتھ دِلوں میں بیٹھ جائے اور آئندہ کوئی قاتل بننے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے اور انجام یاد کرکے انسانیت کے قتل سے بچے۔
سزا کے مخالفین کا کہنا یہ ہے کہ موت کی سزا مجرم کے خاندان کو سب سے زیادہ متأثر کرتی ہے حالانکہ یہ دلیل نہایت کمزور ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر قاتل کا خاندان ہو تو اسے چھوڑ دیا جائے اور اگر اس کا کوئی خاندان نہ ہو تو اب اسے یہ سزا دینے میں کوئی حَرَج و رُکاوٹ نہیں جیسے غیر مسلم ممالک میں ایسی اولاد کی کثرت ہے جن کے باپ کا علم ہی نہیں ہوتا اور ماں کے چھوڑ جانے یا مرجانے کے بعد عموماً ایسوں کا کوئی خاندان باقی نہیں رہتا لہٰذا ایسے ممالک میں تو سزائے موت ہونی ہی چاہیے جبکہ یہی لوگ زیادہ مخالفت کرتے ہیں۔ اسی طرح جن ممالک میں ریاست لوگوں کی معاشی و تعلیمی ضروریات پوری کرتی ہے وہاں یہ سزا ہونی چاہیے کہ وہاں خاندان صرف جذباتی متأثر ہوگا لیکن بے کسی و بے بسی و محتاجی کا شکار نہ ہوگا تو اس اعتبار سے اکثر غیر مسلم ممالک میں تو سزائے موت ہونی ہی چاہیے۔ یہ ایک معارضہ ہے ورنہ ہمارے نزدیک اسلامی احکام اپنی شرائط کے ساتھ ہر جگہ کے لئے برابر ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر خاندان کے متأثر ہونے ہی کا مسئلہ ہے تو پھر دہشت گردوں اور باغیوں کو سزائے موت بھی نہ دی جائے اور نہ ہی ان کے خلاف مسلح ایکشن لیا جائے کیونکہ ایسے ایکشن میں بہت سی موتیں لازمی ہیں اور ہر مرنے والے دہشتگرد کا خاندان بھی متأثر ہوتا ہے۔
سزائے موت کے مخالفین دوسری دلیل یہ دیتے ہیں کہ انسانی زندگی بہت قیمتی ہے۔ اس کی قدر و قیمت کے پیشِ نظر سنگین سے سنگین جرم کے مرتکب افراد سے بھی اُن کی زندگی کا حق نہیں چھیننا چاہیے۔ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ زمین میں بیج پھینک کر اگر پوری فصل ملتی ہو تو بیج کو نہیں دیکھا جاتا ، یونہی دہشت گردوں کے خلاف فوجی ایکشن کرکے سینکڑوں زندگیوں کا خاتمہ کرکے اگر لاکھوں کروڑوں جانوں کو تحفظ ملتا ہو تو سینکڑوں موتوں کو نہیں دیکھا جاتا ، یونہی اگر ایک قاتل کو سزائے موت دے کر ہزاروں کو قاتل بننے سے روک کر لاکھوں کروڑوں جانوں کی حفاظت ہوسکتی ہے تو قاتل کو سزا دینے میں کوئی حرج نہیں۔
بعض لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ اگر کسی کو سزائے موت دے دی اور وہ بے گناہ نکلا تو کوئی تلافی نہیں ہوسکتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فوجی کاروائیوں میں بکثرت بےگناہ مرتے ہیں اور ان کی بھی کوئی تلافی نہیں ہوتی تو کیا ایسی کاروائیاں ختم کردی جائیں؟ نیز جنہیں عمر قید ہوتی ہے اور اسی قید میں مرجاتے ہیں یا بڑھاپے میں جاکر باہر نکلتے ہیں تو ان کی عذاب والی زندگی کی کیا قیمت ہوئی اور اگر بعد میں پتہ چلے کہ بےگناہ تھے تو اب تلافی کیا ہوگی؟ ان تمام چیزوں کا حل یہ ہے کہ جرائم کی تحقیق اور عدالتی نظام بہتر سے بہترین کیا جائے ، نہ کہ اصل قانون ہی کو ختم کردیا جائے۔
ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سزائے موت جرائم کی کمی کا باعث نہیں بنتی ، اس لئے اس کا فائدہ نہیں۔ اس وجہ سے اسے ختم کردینا چاہیے۔ یہ دلیل بھی غلط اور غور و فکر کی کمی کا نتیجہ ہے کیونکہ سزائے موت جرائم میں کمی کا سبب تو یقیناً ہے ورنہ اگر اس سے کوئی کمی نہیں ہوتی تو ساری سزائیں ہی ختم کردیں کہ جب سزائے موت جیسی بڑی اور سنگین سزا سے جرائم میں فرق نہیں پڑ رہا تو بقیہ چھوٹی موٹی سزاؤں سے کیا فرق پڑے گا لہٰذا سزاؤں کا پورا نظام ہی ختم کردیا جائے۔ بات یہ ہے کہ جرائم بڑھنے کے اسباب بہت سے ہوتے ہیں مثلاً غربت ، تربیت کی کمی ، جان و مال کی اہمیت لوگوں کو نہ سکھانا ، قانون سے انصاف نہ ملنا ، مجرموں کو چھوٹ ملنا ، پیسے کی طاقت سے وکیل و جج خرید لینا اور ریاست کا اس پر ایکشن نہ لینا وغیرہ۔ دہشت گردوں اور باغیوں کے خلاف کاروائیوں کے باوجود دوبارہ دہشت گردی بھی ہوتی ہے اور بغاوت بھی۔ تو کیا اب یہ کہہ کر کاروائیاں چھوڑ دی جائیں کہ اس سے دہشت گردی و بغاوت کا مستقل خاتمہ نہیں ہورہا یا کمی نہیں ہورہی۔ ایسا نہیں کیا جائے گا بلکہ دیگر اقدامات مثلاً تعلیم و تربیت ، افہام و تفہیم ، حقوق کی ادائیگی ، ظلم کا تدارک وغیرہا بھی ساتھ میں کئے جائیں تو دہشت گردی اور بغاوت ختم ہوگی ، بِعَیْنِہٖ یہی چیز سزائے موت میں ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…دارالافتاء اہلِ سنّت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments