مسجد ، مَدرسہ ، اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ، دفتر ، فیکٹری الغرض کسی بھی دینی یا دنیوی ادارے کے منتظمین ، مالِکان ، سُپر وائزرز و دیگر اہم پوسٹوں والے اَفراد اگر اپنے ادارے کے معاملات کو بہتر سے بہترین کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ ان باتوں کو پیشِ نظر رکھیں۔
کام کی تقسیم کاری کے حوالے سے چند اہم باتیں: خوب چھان پَھٹک کرنے کے بعد اہل کو ہی کام سِپُرد کیجئے ، کیونکہ جو جس کام کی اہلیّت (Ability) رکھتا ہے اسے ہی وہ کام سِپُرد کرنا آپ کو کئی آزمائشوں سے بچا سکتا ہے * خوش اَخلاق ہی کو منصب دیجئے ، جو بات بات پر فوراً غصّے میں آجاتا ہو ، اسے عوامی معاملات (Public dealing) کی ذِمّہ داری نہیں دینی چاہئے * اپنے ماتحتوں پر دباؤ ڈال کر )یعنی Under Pressure کرکے) کام نہ لیجئے ، اعتماد کرتے ہوئے بااعتماد بنا کر کام لیجئے * جسے کوئی منصب دیں تو اسے بااختیار بھی بنائیے ، اس سے کام کرنے والے کی صلاحیّتیں مزید نکھر کر سامنے آئیں گی * طے شدہ وقت کے بعد تاخیر سے کام کرکے دینے والے ماتحت کی ہو سکے تو حکمتِ عملی کے ساتھ حوصلہ افزائی کیجئے ، ورنہ کم اَز کم وقت پر نہ کرکے دینے کا طعنہ مت دیجئے * ماتحت کو جتنی سہولیات فراہم کی ہیں اُن کے مطابق ہی کام دیجئے ، اسے اسباب و طاقت سے زیادہ کام مت دیجئے ، ورنہ مجبوری میں وہ کام لے تو لے گا مگر ذہنی اعتبار سے پریشانی کا شکار ہونے کے سبب ان میں سے کوئی ایک کام بھی ہوسکتا ہے ٹھیک سے نہ کر پائے ، ایسی صورتِ حال میں وہ کام دینے والے سے بَدظن رہنے کے ساتھ ساتھ کسی اور ذریعۂ معاش کا بھی سوچتا رہے گا ، جیسے ہی اسے کوئی راستہ مِلا وہ آپ اور آپ کے کام کو “ بائے بائے “ کہہ دے گا * بار بار ٹھوکر مارنے سے دُھول اُڑتی ہے ، جس سے ماحول میں گھٹن پیدا ہوتی اور کام میں دُشواری ہوتی ہے۔ اسی طرح باربار زیادہ پوچھ گچھ کرنے سے کام کی رفتار اور ماتحت کی خود اعتمادی میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ لہٰذا پوچھ گچھ میں اِفراط و تَفریط (کمی بیشی) سے بچئے۔
ماتحت جن باتوں سے بَدظَن و بَدگُمان ہوتے ہیں:یاد رکھئے! جب کوئی کام آپ کو خود بھی کرنا اور دوسروں سے بھی کروانا ہو (جسے ٹیم ورک کہتے ہیں) تو اس کام کی اہمیت (Importance) مزید بڑھ جاتی ہے ، آپ کے ساتھ کام کرنے والے جن باتوں اور عادتوں سے بَدظَن و بَدگُمان ہوتے ہیں ، ان میں سے چند باتیں ذِکْر کی جاتی ہیں تاکہ احتیاط کی عادت اپناکر نقصان سے بچیں اور فائدے کی طرف بڑھیں۔ بَداَخلاقی ، بدتمیزی ، بِلاوجہ سختی کرنا ، بےرُخی اپنانا ، جھاڑنا ، شرمندہ کرنا ، نیز آپ کا وقت پر نہ آنا ، زیادہ انتظارکروانا ، بات توجہ سے نہ سننا ، مناسب (Proper)وقت نہ دینا (جس کے سبب وقت لے کر آنے والا بھی مطمئن نہ ہوتا ہو) سامنے والے کی گفتگو کو بِلاوجہ و بِلاضَرورت دلائل و بحث کے ذریعے دبانے یا ٹالنے کی کوشش کرنا وغیرہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی عادت آپ کی ذات میں ہو تو خدارا اپنی دنیا وآخرت کی بہتری کے لئے خوب غور فرمائیے اور جَلدتَر اِن قبیح (بُرے) اَفعال سے جان چُھڑائیے۔ یوں ہی ماتحتوں کے سامنے ان جملوں کی رَٹ لگانے سے بھی پرہیز کیجئے “ آپ ہم سے ہیں ہم آپ سے نہیں “ ، “ آپ اِدارے سے ہیں اِدارہ آپ سے نہیں “ وغیرہ ، اگرچہ یہ دُرست ہے کہ فِی الْوَقت بظاہر آپ کے ملازمین و ماتحتوں کے گھر آپ کے پاس کام کرنے کی وجہ سے چلتے ہیں مگر حقیقت میں انہیں بھی روزی وہی ربِّ کریم دیتا ہے جس نے آپ کو مالا مال کیا ہے ، وہ اگر اپنی قُدرت سے اسے ملازم اورآپ کو سیٹھ بنا سکتا ہے تو اس کا اُلٹ کرنے سے بھی اسے کوئی نہیں روک سکتا۔
کئی مسائل کا حل: ان چند باتوں پر عمل کرنے سے کئی مسائل کا حل ہوسکتا ہے ، مثلاً(1)اپنی نیند پوری کیجئے ، تھکاوٹ یا اُکتاہٹ ہو تو حتّی الامکان عوامی رابطہ (Public dealing ، لین دین گفتگو وغیرہ) نہ کیجئے (2)جو کام آپ کے ذمّے ہیں وہ وقت پر کیجئے (3)حتّی الْاِمکان ہر وقت چہرہ ہشّاش بشّاش اور مسکراتا رکھئے (4)خود کو گھٹن سے بچائیے ، یہ نہیں ہوا؟ یہ نہیں کیا؟وغیرہ باتوں سے پہلے تو گھٹن ہوگی ، پھر غصّہ آئے گا اور پھر نہ ہونے والا کام (یعنی غصے کا اظہار و نفاذ) ہوسکتا ہے (5)ہمّت و صبر اور حکمتِ عملی سے معاملات سلجھائیے (6)یہ ذہن بنائیے کہ میرا کام صرف پہنچانا ہے اور کام کروانے کی کوشش کرنا ہے ، کسی کو مجبور کرنا نہیں ہے (7)اپنے دل میں درست معنیٰ میں خوفِ خدا پیدا کیجئے تاکہ مسلمانوں کی دِل آزاری سے بچنے کا سامان ہوسکے (8)مُعافی مانگنے کی عادت بنائیے ، خفیہ غلطی کی خفیہ اور اعلانیہ غلطی کی اعلانیہ مُعافی مانگئے (9)خَندہ پیشانی کے ساتھ سَلام کو خوب عام کیجئے (10)دوسروں کی عزّت کیجئے اور اچّھے نام سے پکاریئے (11)خود کو مُکافاتِ عمل سےڈرائیے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی (12)اللہ کریم کے کرم کو یاد کیجئے کہ ہم سے بھی تو گناہ ہوتے رہتے ہیں ، مگر وہ عظمتوں کا مالک ، ربِّ ِکریم ہم سے دَرْگُزر فرماتا ہے (13)مصطفےٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اندازِ مبارک و حسنِ اَخلاق نیز آپ کا صبر فرمانا ، مُعاف کرنا وغیرہ تصوّر میں لاتے رہا کیجئے (14)ماتحت سے گفتگو کے وقت خود کو اس کی جگہ رکھ کرسوچئے کہ اس وقت آپ اپنے لئے کیسا رویّہ پسند کریں گے؟
چند متفرق مدنی پھول: جو بڑا ہو اُسے بڑا سمجھئے ، کسی کو سمجھانے کا انداز نرم ہونا چاہئے ، سمجھانے والا نگران ہو یا ماتحت ، نرمی بھی اللہ پاک کی رضا کے لئے کیجئے تاکہ ثواب بھی مِلے ، نرمی کرنے کا مقصد اپنے منصب و عہدے پر برقرار رہنا نہ ہو ، اللہ پاک کی رضا کے لئے کام کرنے اور منصب کی سلامتی کے لئے کام کرنے میں فرق ہے ، اللہپاک کی رضا کے لئے حسنِ اخلاق کے پیکر بن جائیے ، حوصلہ افزائی کرنا ، کام میں ترقی کا سبب بنتا ہے۔ بےرُخی سے دل آزاری بھی ہوسکتی ہے۔ کسی کے سخت رپلائی پر بھی نرمی کیجئے۔ یاد رہے پتھر پتھر سے ٹکرائے تو چنگاری نکلتی ہے۔ اللہ پاک نے ہر مسلمان کو کسی نہ کسی سطح پر دین کا کام کرنے کا موقع عطا فرمایا ہے ، اس سے جتنا ہوسکے فائدہ اٹھائیں ، یہ ہم پر ہے کہ ہم “ وقت “ سے فائدہ اٹھا کر اپنی صلاحیت بڑھا رہے ہیں یا محض وقت گزار رہے ہیں؟ ہر کامیابی اللہ پاک کی مدد اور اس کے فضل و کرم سے ہی حاصل ہوتی ہے ، جو کوشش کرتے ہیں ، اللہ پاک ان کی مدد فرماتا ہے ، جب بلندی ملتی ہے تو اپنی کوششیں بڑھانی ہوتی ہیں تاکہ کامیابی برقرار رہے۔ اگر آپ کی سوچ اُصول و ضابطے کے ساتھ ہوگی تو بکھرنے سےمحفوظ رہے گی۔ اس لئے غور و فکر کرکے پورا پلان بنائیے۔ بکھری ہوئی سوچیں کامیابی کی راہ میں رُکاوٹ بن سکتی ہیں۔ بےہنگم (بِلاوجہ کی) سوچیں آپ کا وقت ضائع کریں گی۔ بڑا اپنے بڑے پَن سے ہوتا ہے۔ جیسا جس کا جذبہ (Passion) ہو ، ویسا ہی اس کو کام (Task) دیا جائے۔
میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ ان باتوں پر عمل کرکے اپنی ذات میں مزید نِکھار پیدا کیجئے۔ اللہ پاک اپنی رضا کے لئے ہمیں اچھائیوں کو اپنانے اور بُرائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ : یہ مضمون نگرانِ شوریٰ کے بیانات اور گفتگو وغیرہ کی مدد سے تیار کرکے انہیں چیک کروانے کےبعد پیش کیا گیا ہے۔
Comments