اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ ترجمہ : بےشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ (پ2 ، البقرۃ : 222) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
توبہ بہت عظیم عمل ہے اور اس کے بے شمار فضائل ہیں :
توبہ کرنے والے کو فلاح نصیب ہوتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱) ترجمۂ کنزُالعرفان : اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (پ18 ، النور : 31 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
توبہ کرنے والے کی بُرائیاں نیکیوں میں بدل دی جاتی ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۷۰) ترجمۂ کنزُالعرفان : مگرجو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ19 ، الفرقان : 70) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
توبہ کرنے والے سے خدا بہت خوش ہوتا ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : بے شک اللہ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی ہلاکت خیز پتھریلی زمین پر پڑاؤ کرے اس کے ساتھ اس کی سُواری بھی ہو جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان لَدا ہوا ہو پھر وہ سر رکھ کر سو جائے ، جب بیدار ہو تو اس کی سُواری جا چکی ہو تو وہ اسے تلاش کرے یہاں تک کہ گرمی اور شدتِ پیاس یا جس وجہ سے اللہ چاہے پریشا ن ہو کرکہے کہ میں اسی جگہ لوٹ جاتا ہوں جہاں سو رہا تھا پھر سو جاتا ہوں یہاں تک کہ مر جاؤں پھر وہ اپنی کلائی پر سر رکھ کر مرنے کے لئے سو جائے پھر جب بیدار ہو تو اس کے پاس اس کی سُواری موجود ہو اور اس پر اس کا توشہ بھی موجود ہو تو اللہ مومن بندے کی توبہ پر اس شخص کے اپنی سواری کے لوٹنے پر خوش ہونے سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح ، جز2 ، ص728 ، حدیث : 2358 بحوالہ مسلم ، ص1126 ، حدیث : 6955)
چونکہ توبہ نہایت عظیم عبادت اور قربِ خداوندی کا اعلیٰ ذریعہ ہے اس لئے نفس و شیطان انسان سے اپنی دشمنی ثابت کرتے ہوئے اسے توبہ سے دور رکھتے ہیں اور بہت سے حیلے بہانوں اور وسوسوں سے اسے توبہ سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں لوگ توبہ میں تاخیر کرتے رہتے ہیں۔ آئیے! توبہ میں تاخیر کی کچھ وُجوہات جاننے اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں :
پہلی وجہ گناہوں کے انجام سے غافل رہنا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں مذکور گناہوں کی سزائیں پڑھے ، ان پر بار بار غور کرے اور یہ تصور کرے کہ وہ خود ان سزاؤں سے گزر رہا ہے۔
دوسری وجہ دل پر گناہوں کی لذت کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ بندہ سوچے کہ جب میں چند سالہ زندگی کے مختصر ایام میں ان لذتوں کو نہیں چھوڑ سکتا تو مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لذتوں (یعنی جنت کی نعمتوں) سے محرومی کیسے برداشت کروں گا؟
نیز جنت کی لذتوں اور نعمتوں کے متعلق پڑھے اور بار بار سوچے اور مقابلہ کر کے دیکھے کہ دنیا کی لذتیں عظیم ہیں یا آخِرت کی؟
نیز اس بات پر غور کرے کہ دنیا کی لذتیں ایک انسان کے لئے عُموماً پچاس سے ساٹھ سال تک کی ہوتی ہیں جبکہ جنت کی لذتیں کروڑوں اربوں کھربوں سالوں سے بھی زیادہ عرصے یعنی ہمیشہ کے لئے ہیں تو مجھے ہمیشہ کی لذتیں چھوڑ کر پچاس ساٹھ سال کی لذتوں میں پڑنا چاہیے یا پچاس ساٹھ سال کی لذتوں کو چھوڑ کر کھربوں سال یعنی ہمیشہ کی لذتوں کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ دوسرے انداز میں یوں سمجھ لیں کہ کسی کو کہا جائے کہ اگر تم ساٹھ ہزار روپے لو گے تو اگلے سال تمہیں کچھ نہیں ملے گا لیکن اگر اِس سال ساٹھ ہزار روپے چھوڑ دو تو اگلے سال ساٹھ کھرب روپے تمہیں دئیے جائیں گے۔ غور کریں کہ ہم کیا سودا کریں گے؟ یقیناً کھربوں روپے لینے کی کوشش کریں گے تو اپنے نفس سے کہیں کہ یہی حال دنیا و آخِرت کی لذتوں کا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تکلف کر کے نیک اعمال اختیار کرے اور رضائے الٰہی کے حُصول اور اس کی عظمت کا بار بار سوچے تو نیکیوں کی رغبت اور گناہوں سے نفرت پیدا ہو جائے گی۔
تیسری وجہ موت کو بھول جانا ہے اور طویل عرصہ زندہ رہنے کی امید ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ آدمی غور کرے کہ دیر ہی سے سہی لیکن موت کا آنا یقینی ہے تو اس یقینی موت کی تیاری کرنی ہی چاہیے نیز ہم دن رات دیکھتے ، سنتے ہیں کہ بچپن ، جوانی میں ہی ہزاروں انسان مر جاتے ہیں اور یونہی راہ چلتے یا بیٹھے بیٹھے بھی اچانک موت کا شکار ہونے والے کم نہیں ہیں۔ تو کیا معلوم کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوجائے اور اگلے چند لمحوں یا دنوں ہی میں مر جائیں۔ جتنا موت کو قریب سمجھیں گے اتنا ہی لمبی امیدیں کم ہوں گی۔
چوتھی وجہ رحمتِ الٰہی کے بارے میں دھوکے کا شکار ہونا کہ “ اللہ تعالیٰ بڑا غفور و رحیم ہے ، ہمیں اس کی رحمت پر بھروسا ہے ، وہ ہمیں ہرگز عذاب نہیں دے گا۔ “ یہ سوچ کر لوگ توبہ پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اس دھوکے کا خاتمہ یوں کیا جائے کہ اپنے اِس ایمان کو یاد کریں کہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم بھی ہے اور قَہَّار و جَبَّار بھی ، اس نے جنت بنائی ہے تو جہنم بھی بنائی ہے ، وہ اگر رحمت فرماتا ہے تو دوسری طرف لوگ اس کے غضب کا بھی شکار ہوتے ہیں تو میرے پاس کیا ضمانت ہے کہ مجھ پر رحمت ہی ہوگی ، غضب نہیں ہوگا؟ نیز اس دھوکے کا یہ بھی حل ہے کہ اپنے نفس کو سمجھائے کہ خدا کے رحیم و کریم ہونے کو ہم سے زیادہ جاننے والے بلکہ جن کے بتانے سے ہمیں یہ معلوم ہوا وہ ہستیاں یعنی انبیاء و صحابہ و اولیاء تو گناہوں سے بہت زیادہ دور رہتے ، توبہ کرتے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے تو ہماری کیا اوقات ہے؟کیا ہم اُن سے زیادہ رحمتِ الٰہی کو جانتے ہیں؟
پانچویں وجہ بُری صحبت میں مبتلا ہونا۔ حقیقت میں یہ توبہ سے محروم رہنے کی بہت بڑی وجہ ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہمت کر کے پہلی فُرصت میں بُری صحبت سے اِجتناب کریں ، اگر فوراً چھوڑنا ممکن نہ ہو تو آہستہ آہستہ کم کر دیں اور بالآخر ختم کر دیں مثلاً پہلے دو گھنٹے غفلت والی صحبت میں بیٹھتے تھے تو آدھا آدھا گھنٹا کم کرتے جائیں ، پہلے زیادہ لوگوں کے پاس بیٹھتے تھے تو اب کم کے پاس بیٹھنا شروع کر دیں اور مزید اپنی دیگر جائز یا نیک مصروفیات میں اضافہ کر لیں تاکہ بُری صحبت کا وقت ہی نہ ملے۔
چھٹی وجہ گھر ، کاروبار ، نوکری اور معاشرے کی وجہ سے توبہ سے دوری۔ مثلاً گھر والے بہت سی نیکیوں میں رکاوٹ ہیں یا نوکری میں نماز ، داڑھی کی اجازت نہیں ملتی ، کاروبار میں اتنے مذہبی لوگوں کو زیادہ لِفٹ نہیں ملتی یا معاشرے میں مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ان سب کا حل یہ ہے : اولاً تو اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ کے حکم اور عظمت پر غور کرے کہ خدا کے حکم پر عمل کرنا چاہیے یا گھر والوں کے؟ نوکری کاروبار کے معاملے میں غور کرے کہ رازِق تو خدا ہے ، وہ جس کے لئے چاہے رِزق وسیع کر دے اور جس کے لئے چاہے تنگ کر دے تو مخلوق سے کیا ڈرنا۔ معاشرے کا مسئلہ ہو تو سوچے کہ اس معاشرے نے نہ تو قبر میں کام آنا ہے اور نہ قِیامت میں تو اس کا کیا لحاظ کرنا نیز معاشرے تو نبیوں ، ولیوں کا بھی مذاق اڑاتے رہے لہٰذا اس کی ملامت کو ہرگز نہیں دیکھنا۔
توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ (1)اللہ تعالیٰ کے ڈر ، خوف ، حیا یا خوشنودی کی وجہ سے ماضی کے گناہ پر شرمندہ ہو۔ (2)حال میں اس گناہ کو فوری چھوڑ دے (3)اور مستقبل میں وہ گناہ دوبارہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔ یہ توبہ کی بنیادی شرائط ہیں جو ہر قسم کے گناہوں کی توبہ میں ضروری ہیں البتہ آگے پھر مزید اَحکام ہیں مثلاً توبہ کے لئے صرف یہی تین چیزیں وہاں کافی ہیں جہاں صرف اللہ تعالیٰ کا حق ضائع کیا ہو اور اس کی کوئی تلافی نہ بنتی ہو جیسے شراب پینا۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق ضائع کرنے کی وہ صورت ہے جس میں تلافی بھی ہوتی ہے جیسے نماز ، روزے اور زکوٰۃ ، تو پھر سابقہ تین چیزوں کے ساتھ تلافی بصورتِ قضا یا ادا کا جو بھی حکم ہو اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ، مثلاً چھوٹی ہوئی نمازوں ، روزوں کی قضا کرے اور چھوڑی ہوئی زکوٰۃ ادا کرے۔
اور اگر توبہ ان گناہوں پر تھی کہ جن کا تعلق بندوں سے بھی ہے ، تو اگر وہ توبہ مال میں ظلم کے متعلق ہے تو جس کا جو مال لیا ہے اسے واپس کرے اور جن صورتوں میں مال کسی فقیر کو دینے کا حکم ہے وہاں اس مال کو کسی فقیر کو دیدے اور اگر گناہ کا تعلق لوگوں کی دل آزاری اورآبروریزی کے ساتھ ہے تو صاحبِ حق سے معافی مانگے۔ بہرحال اس میں کافی تفصیل ہے۔ اس کے لئے تفصیلی کتابوں مثلاً مکتبۃُ المدینہ کی کتاب “ توبہ کی رِوایات و حکایات “ کا مطالعہ کریں۔ اس مضمون کی تیاری میں بھی اس کتاب سے کافی مدد لی ہے۔
توبہ کی قبولیت کیسے معلوم ہو؟ مُکاشفۃُ القُلُوب میں ہے : ایک عالم سے پوچھا گیا کہ کوئی شخص توبہ کرے ، تو کیا اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کی توبہ قبول ہوئی ہے یا نہیں؟ فرمایا : اس میں یقینی حکم تو نہیں دیا جا سکتا ، البتہ قبولیت کی کچھ علامات ہیں جیسے وہ یہ حالت و کیفیت دیکھے کہ اس کا نفس گناہوں سے بچا ہوا ہے ، اس کے دل سے فخریہ قسم کی خوشی غائب ہے اور دل میں خدا کی یاد موجود ہے۔ نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہو اور فاسقوں سے دوری اختیار کر لے ، پھر تھوڑی دنیا کو بھی بہت سمجھے جبکہ آخرت کے بہت عمل کو بھی تھوڑا جانے۔ اپنے دل کو دیکھے کہ خدا کے لازم و مقرر کردہ احکام کی بجاآوری میں مشغول ہے اور وہ اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا ، فکرِ آخِرت میں مشغول رہنے والا ، اپنے ماضی کے گناہوں پر ہمیشہ غمگین و شرمندہ رہنے والا بن جائے(یہ سب توبہ کے مقبول ہونے کی علامات ہیں)۔ (مکاشفۃ القلوب ، ص29)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…دارالافتاء اہلِ سنّت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments