نبیِّ غیب دان، رسولِ ذیشان، رحمتِ عالمیان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے:لَا تَسُبُّوا اَصْحَابِي فَلَوْ اَنَّ اَحَدَكُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ یعنی میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی اُحُد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مُد کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی مُد کے آدھے کو۔ (بخاری،ج2،ص522، حدیث:3673)
شرح شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ایمان کی حالت میں نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا۔(اشعۃ اللمعات،ج 4،ص641)قراٰن و حدیث اور تمام شرعی احکام ہم تک پہنچنے کا واحد ذریعہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی درس گاہ کے صادق و امین اور متقی و پرہیز گار صحابَۂ کرام ہیں، اگر مَعَاذَاللہ ان ہی سے امانت و دیانت اور شرافت و بزرگی کی نفی کر دی جائے تو سارے کا سارا دین بے اعتبار ہو کر رہ جائے گا، اس لئے اس حدیثِ پاک میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابہ کی عظمت کو یوں بیان فرمایا کہ ان کی برائی کرنے سے منع فرمایا اور ان کے صدقہ و خیرا ت کی اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبولیت کو بھی ذکر فرمایا چنانچہ
(لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي)حدیثِ پاک کے اس حصّے کے تحت فقیہ و محدّث علّامہ ابن الملک رومی حنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (وفات:854ھ)فرماتے ہیں: اس میں صحابہ کو بُرا کہنے سے منع کیا گیا ہے،جمہور(یعنی اکثر علما)فرماتے ہیں:جو کسی ایک صحابی کو بھی بُرا کہے اسے تعزیراً سزا دی جائے گی۔ (شرح مصابیح السنۃ ،ج6،ص395 ،تحت الحدیث:4699)
(فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ۔۔۔)شارحین نے اگرچہ اس کی مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں لیکن شارحِ بخاری امام احمد بن اسماعیل کورانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی(وفات:893ھ) فرماتے ہیں: سیاقِ کلام سے پتا چلتا ہے کہ صحابَۂ کرام کو یہ مقام نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت کے شرف کی وجہ سے ملا ہے۔(الکوثر الجاری ،ج6،ص442، ،تحت الحدیث:3673)
شارحِ حديث حضر ت علامہ مُظہرالدین حسین زیدانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی (وفات:727ھ)اسی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: صحابہ کی فضیلت محض”رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت“اور”وحی کا زمانہ پانے“کی وجہ سے تھی، اگر ہم میں سے کوئی ہزار سال عُمر پائے اور تمام عُمر اللّٰہ پاک کے عطا کردہ احکام کی بَجا آوری کرے اور منع کردہ چیزوں سے بچے بلکہ اپنے وقت کاسب سے بڑا عابد بن جائے تب بھی اس کی عبادت رسول ِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت کے ایک لمحہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتی ۔(المفاتیح فی شرح المصابیح ،ج6،ص286 ،تحت الحدیث:4699)
حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: یعنی میرا صحابی قریبًا سوا سیر جَو خیرات کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو اس کا سونا قربِِ الٰہی اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا،یہ ہی حال روزہ ،نماز اور ساری عبادات کا ہے۔ جب مسجد ِنبوی کی نماز دوسری جگہ کی نمازوں سے پچاس ہزار گُناہے تو جنہوں نے حضورِ اکرم(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا قُرب اور دیدار پایا ان کا کیا پوچھنا اور ان کی عبادات کا کیا کہنا!یہاں قربِِ الٰہی کا ذکر ہے۔مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضراتِ صحابہ کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہئے کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کے لئے چُنا،مہربان باپ اپنے بیٹے کو بُروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رَبّ نے اپنے نبی کو بُروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا؟ (مراٰۃ المناجیح،ج8،ص335)
سب صحابہ سے محبت کا انعام حضرت عبدالرحمٰن بن زید رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والد فرماتے ہیں: میں چالیس ایسے تابعینِ عظام کو ملا جوسب ہمیں صحابَۂ کرام سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو میرے تمام صحابہ سے محبت کرے، ان کی مدد کرے اور ان کے لئے اِسْتغفار کرے تو اللہ پاک اُسے قیامت کے دن جنّت میں میرے صحابہ کی مَعِیَّت(یعنی ہمراہی) نصیب فرمائے گا۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ،ج2،ص1063، حدیث:2337)
شرفِ صحابیت کا لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھئے!صحابیت کا عظیم اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں کیونکہ کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے۔ صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: یادرہے! حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابَۂ کرامعلیہمُ الرِّضوان کى تعداد سابقہ انبىائے کرام کى تعداد کے موافق( کم و بىش)اىک لاکھ چوبىس ہزار ہے مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوانکى فضىلت مىں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ہی کافی ہےکیونکہ پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے۔ (الناھیۃ،ص38 مفہوماً)
سارے صحابہ عادل ہیںصحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی فضیلت کیلئے یہ ایک ہی آیت کافی ہے:(وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)) ترجمۂ کنزالایمان:اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (پ11،التوبۃ :100) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
علّامہ ابوحَیّان محمد بن یوسف اندلسی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (وفات:745ہجری) فرماتےہیں: وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍسے مراد تمام صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان ہیں۔(تفسیرالبحر المحیط،ج 5،ص96، تحت الآیۃ المذکورۃ)
یاد رہے!سارے صحابَۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم عادل ہیں، جنتی ہیں ان میں کوئی گناہ گار اور فاسق نہیں۔ جو بدبخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابَۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے، وہ مَردُود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے۔ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیثِ پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے، چنانچہ حضرت عبدُ اللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:میرے صحابہ(رضی اللہ تعالٰی عنہم) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو اس نے میرے بُغض کی وجہ سے ان سے بُغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے۔(ترمذی،ج5،ص463،حدیث:3888،صراط الجنان،ج4ص219)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ذمہ دار شعبہ فیضانِ صحابہ و اہلبیت المدینۃ العلمیہ باب المدینہ کراچی
Comments