اسلام کا نظریۂ حیات نہایت خوبصورت، وسیع، جامع اور اعلیٰ ہے کہ ہم بندے ہیں اور ہمیں خدا کی بندگی کے تقاضے پورے کرکے دنیا کی زندگی بامقصد گزارنی ہے اور آخرت کی نجات، دائمی مسرتیں اور معبودِ حقیقی کا قرب پانا ہے۔ دوسری طرف خدا کے منکروں اور دہریوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے سامنے زندگی کا کوئی حقیقی مقصد نہیں، اس لئے وہ صرف مال کمانے، شہوت پورا کرنے اور لذاتِ دنیا میں اضافہ کرنے کے سوا کسی اور چیز کے بارے میں سوچتے ہی نہیں اور اگر دوسروں کی بھلائی کے لئے کچھ کریں تو اس میں عموماً شہرت کمانے اور نام بنانے کا جذبہ پوشیدہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں ان کی مرضی ہے کہ دوسروں کےلئے کوشش کریں یا نہ کریں جبکہ ان کے مقابلے میں ایک مسلمان کو صرف دوسروں کی بھلائی کا مشورہ نہیں بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اسے بہر صورت دوسروں کی بھلائی کے لئے کوشش کرنی ہے کیونکہ اس کے سامنے مقصدِ حیات، آخرت کی دائمی زندگی کی کامیابی ہے جس کے حصول کےلئے اسے اِس دنیا میں ہر کام حکمِ خداوندی کے مطابق کرنا ہے، اسے صرف اپنی ذات نہیں بلکہ خاندان، رشتے داروں، پڑوسیوں بلکہ تمام انسانوں کے حقوق ادا کرنے ہیں اور ان کی صلاح و فلاح کےلئے کوشش کرنی ہے، خواہ دوسرے اس کا حق ادا نہ کریں۔ لہٰذا جب مسلمان کے دل کی گہرائیوں میں یہ مقصدِ زندگی موجود ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح اس مقصد پر لانے کی کوشش کرتا ہے اور اگر کبھی وہ اس مقصد کو بھول کر اپنی نفسانی خواہشات میں ڈوب بھی جائے تو چونکہ اس کے دل میں اسلام کی صورت میں مقصدیت کی بنیاد موجود ہے اس لئے جب بھی وہ تھوڑا سا ان چیزوں کی فنائیت، دنیاوی لذات کی بے ثباتی اور خدا کی بارگاہ میں پیشی(حاضرہونے) پر غور کرے گا تو وہ ندامت و شرمندگی محسوس کرتے ہوئے فوراً مقصد کی طرف پلٹ آتا ہے۔ یہاں فرق پر غور کرنے کی حاجت ہے کہ ایک طرف غیرمسلم فریق ہے جس کے لئے انسانیت کی فلاح اور محتاجوں کی مدد اختیاری ہے، چاہے کرے اور چاہے نہ کرے اور دوسری طرف مسلمان ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ محتاجوں کی مدد کرے، لوگوں کو نقصان پہنچانے سے بچے، دوسروں کی خیرخواہی کرے اور انہیں برائی کے راستے سے روکے۔
یہاں ایک اور چیز بھی قابلِ توجہ ہے، وہ یہ کہ مقصدِ حیات کی تعیین میں انسان کی اپنی حیثیت سمجھنے کا بھی عمل دخل ہے کہ وہ خود کو ایک برتر مخلوق سمجھتا ہے یا کم تر، مثلاً کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے سورج کو دیکھا کہ بڑا روشن ہے، ساری دنیا کو روشنی دے رہا ہے، دنیا کے ہزاروں لاکھوں فوائد اس سے وابستہ ہیں تو سورج کو پوجنا شرو ع کردیا۔ اب افضل کون ہوا؟ یقیناً ”سورج“ کیونکہ لوگ تو اس کے سامنے یہ سمجھ کر جھک گئے کہ سورج خدا ہے، یہاں انسان نے اپنی حیثیت فراموش کردی۔ اسی طرح بہت سے لوگوں نے درختوں، جانوروں اور دیگر کئی چیزوں کے فوائد دیکھے، تو جسے دیکھتے رہے اور اپنے سے بہتر سمجھتے رہے اسی کے سامنے جھک گئے۔اس نظریۂ حیات کی بنیادانسان کے پست اور کم تَر ہونے پر ہے۔ انسانوں کے لئے کوئی نظریۂ حیات اس وقت تک حقیقتاً مفید نہیں ہوسکتا جب تک اُس نظریہ میں انسان کو بغیر کمی بیشی کے اُس کا اصل عظیم مقام نہ دیا جائے۔
دیگر نظریات میں یا تو وہ کمی ہے جس کا اوپر بیان ہوا یا حد سے زیادتی ہے کہ جس میں دیگر تمام حقائق جھٹلا کرفنا ہونے والے اور خدا کی بارگاہ میں جوابدہ انسان کو بالکل ہی بے لگام کردیا جاتا ہے۔ ان سب کے مقابلے میں اسلام اور قرآن نے انسان کو یہی بتایا کہ تم جن چیزوں کے سامنے جھک رہے ہو، یہ چیزیں تو تمہارے تابع اور تمہارے فائدے کے لئے ہیں۔ کائنات تمہارے لئے ہے جبکہ تم کسی اور کے لئے ہو اور وہ تمہارا خدا ہے۔
نہ تُو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تُو نہیں جہاں کے لئے
انسان کی عظمت اور باقی کائنات کے اس کے لئے تخلیق ہونے کا بیان قرآن مجید میں جگہ جگہ موجود ہے۔ آسمان و زمین کی تخلیق، سورج چاند کی گردش، دن رات کی تبدیلی سب انسان کے فائدے کے لئے بنائی گئی ہے چنانچہ فرمایا:(وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُؕ-) ترجمہ:اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اپنی طرف سے تمہارے کام میں لگا دیا۔(پ25، جاثیہ:13)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اور فرمایا:( وَ سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ دَآىٕبَیْنِۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ ) ترجمہ: اور تمہارے لئے سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا جو برابر چل رہے ہیں اور تمہارے لئے رات اور دن کو مسخر کردیا۔ (پ13، ابراہیم: 33)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
قرآن فرماتا ہے کہ زمین میں موجود سب کچھ انسان کے فائدے کےلئے بنایا: ( هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ-)ترجمہ: وہی ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہےسب تمہارے لئے بنایا۔(پ1، البقرہ:29)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
انسان کی عظمت اس سے بھی ظاہر ہے کہ انسان کی اصل، ابو البشر سیّدنا آدم علیہ الصلوۃوالسَّلام کو مسجودِ ملائکہ بنایا:( وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-)ترجمہ: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل:61)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
بنی آدم کو شرف اور بزرگی والا بنایا اور کثیر مخلوقات پر فضیلت عطا کی چنانچہ فرمایا:( وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠(۷۰))ترجمہ:اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی۔۔۔اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل: 70)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
قرآن فرماتا ہے کہ انسان بہترین صورت پر پیدا کیا گیا چنانچہ فرمایا:( لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ٘(۴))ترجمہ: بیشک ہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا۔ (پ30، والتین:4)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
عظمتِ انسانی کی جو تصویر اسلام اور قرآن کی تعلیمات کی نظر میں سامنے آتی ہے وہ بآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی عظمتِ انسانی پر اسلام کے نظریۂ حیات کی بنیاد ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دار الافتاء اہل سنت،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی
Comments