حضرت سیّدنا عَمْرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ

حضرتِ سیّدُنا عمر  فاروق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت میں ایک سال سَخْت  قَحط پڑا تو امیر المؤمنین نے مصر کے گورنر کو فرمان بھیجا : جب تم اور تمہارے ملک والے سیر ہوں تو تمہیں کچھ پروا نہیں کہ میں اور میرے ملک والے ہلاک ہوجائیں، فریاد رسی کرو، حاجت روائی کرو،مدد کو پہنچو۔ مصر کے گورنر نے جواباًعرض کی: فریاد پوری کرنے والا آپ کے پاس آرہا ہے انتِظار کیجئے،میں نے آپ کی بارگاہ میں  ایک ایسا  کارواں روانہ کیا ہے جس کاپہلا حصّہ آپ کے پاس پہنچے گا تو آخر حصہ میرے پاس سے روانہ ہورہا ہوگا، چنانچہ مصر کے گورنر نے جو قافلہ روانہ کیا اس کا پہلااونٹ مدینہ طیبہ میں جبکہ آخری  مصر میں تھااور تمام اونٹوں  پر اناج لدا ہوا تھا، امیر المؤمنین نے وہ تمام اونٹ تقسیم فرما دئیے۔

(طبقات ابن سعد،ج3،ص236ملخصاً) 

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عزّت و شرافت، سخاوت و شجاعت، ذِہانت و فطانت اور ہمدردی  جیسے اوصاف اور صلاحیتوں سے مالامال یہ عظیم ہستی صحابیِ رسول فاتحِ مصر حضرتِ سیّدُنا عَمرو([1]) بن عاص قرشی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی تھی۔ قبولِ  اسلام کا واقعہ قبولِ اسلام سے پہلے آپ کے دل میں مسلمانوں سے سخت عداوت(دشمنی)تھی، معرکۂ بدر، اُحد اور خندق میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصّہ لیا ،صلحِ حُدَیبیہ  کےبعد تو آپ کےیہ جذبات تھے کہ اگر پورا قبیلۂ قریش اسلام  لے آئے تو میں پھر بھی اسلام نہیں لاؤں گا، پھر آپ نے اپنے ہم خیال لوگوں کو جمع کرکے ان کے  سامنے اپنی رائے رکھی کہ  ہم حبشہ چلے جاتے ہیں اور وہیں رہتے ہیں ،اس رائے کو پسند کیا گیا چنانچہ انہوں نے حبشہ کے بادشاہ کے لئے تحفے تحائف جمع کرکے آپ کے حوالے کردئیے یوں آپ حبشہ چلے آئے۔ (مغازی للواقدی،ج 2،ص741 ) ایک روایت کے مطابق قریش نے حبشہ سے مسلمانوں  کو واپس لانے کیلئے جن سفیروں کو روانہ کیا ان میں  آپ بھی شامل تھے،  مگر اللہ تعالٰی نے آپ  پر خُصوصی کرم فرمایا اور آپ نے تابعی حضرت نجاشی بادشاہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا پھر مدینے حاضر ہوکر مکی مَدَنی سرکار صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی زیارت سے مشرف ہوکردرجۂ صحابیت پر فائز ہوئے۔ یہ تاریخ ِاسلام کا منفرد واقعہ ہے کہ کوئی  شخص تابعی کے ہاتھ پر ایمان لائے  اور بعد میں مرتبۂ صحابیت سے مشرف بھی ہوا ہو۔ (زرقانی علی المواھب،ج 1،ص506 ملخصاً) محبتِ رسول قبولِ اسلا م کے بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے سینے میں محبت اور عظمتِ رسول کا ایسا دریا موجزن ہوا کہ فرماتے ہیں: کوئی شخص میرے نزدیک رسولُ اللہ  صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے زیادہ محبوب نہ تھااور میری آنکھوں میں آپ سے زیادہ عظمت و جلالت والا کوئی نہ تھا۔ میں جانِ رحمت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی ہیبت کی وجہ سے ان کی طرف نظر بھر کر دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اگر مجھ سے رسولِ اکرم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کا حلیہ دریافت کیا جائے تو میں اچّھی طرح بیان نہیں کرسکتا۔ (مسلم، ص70، حدیث: 321 مختصراً) عبادت و  ریاضت آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ مسلسل روزے رکھتے تھے جبکہ رات کو روتے ہوئے نماز پڑھا کرتے اور بارگاہِ الٰہی میں دُعا کرتے جاتے کہ اے اللہ! تو نے مجھے مال دیا، اولاد کی نعمت دی، حکومت عطا کی، اگر مجھے تجھ سے زیادہ ان چیزوں سے  محبت ہے تومیرا مال، اولاد  اور حکومت مجھ سے لے لے اور مجھے آگ کا عذاب  نہ دینا۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 46،ص164- 180ملخصاً) مُروّت کیا ہے؟ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہکو حاکمِ مصر ہونے کے باوجود بوڑھے خچر پر سواری کرتے ہوئے دیکھ کر کسی نے پوچھا: آپ حاکم ہوکر اس خچر پر سوار ہیں؟ ارشاد فرمایا: جب تک  جانور مجھے سوار ہونے دیتا ہے میں  اس سے بے زار نہیں  ہوتا، جب تک  زوجہ میری اولاد کی اچّھی پرورش کرتی ہے اس سے دل برداشتہ نہیں ہوتا، جب تک ہمنشین اپنا چہرہ مجھ سے نہ پھیر لے اس سے اُکتاتا نہیں  کیونکہ بےزاری مروّت کے خلاف ہے۔ (ایضاً،ص182) فضائل و مناقب آپ کےفضائل و کمالات  بھی بے مثال ہیں: فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم ہے: اے اللہ!عَمرو بن عاص پر رحمت نازل فرما بےشک یہ تجھ سے اور تیرے رسول سے مَحبت کرتا ہے۔ (ایضاً،ص137) ایک مقام پر فرمایا:عَمرو بن عاص بے شک قریش کے نیکو کاروں میں سے ہیں۔ (ترمذی،ج 5،ص456، حدیث:3871) خیرِ کثیر والے ایک جنگ کے موقع پر  نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم تین بارنیند سے بیدار ہوئے اور ہر مرتبہ یہ جملہ ارشاد فرمایا: اللہ تعالٰی عَمرو پر رحم فرمائے،پھر فرمایا: جب بھی میں نے صدقہ کے لئے لوگوں کو بُلایا ہےتو عَمرو بن عاص بہت زیادہ لے کر آتے ہیں، میں پوچھتا ہوں:اے عَمرو! یہ کہاں سے آیا تو جواب دیتے ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس سے اور عَمرو نے سچ کہا کہ بے شک اللہ تعالٰیکی بارگاہ میں عَمرو کیلئے خیرِ کثیر ہے۔ (معجم کبیر،ج18،ص5،حدیث:1 ملخصاً) مال و دولت کیلئے اسلام قبول نہیں کیا ایک بار سروَرِ عالَم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا:اے عَمرو! میں تمہیں ایک جنگ پر روانہ کرنا چاہتا ہوں،  خدا تعالیٰ تمہیں سلامت رکھے  گا اور مالِ غنیمت بھی دے گا اور ہم تم کو کچھ مال بھی عطا فرمائیں گے۔ آپ نے عرض کی: میں مال و دولت کے لئے اسلام نہیں لایا، مجھے جہاد اور صحبتِ نبوی پانےمیں رغبت ہے، فرمایا: نیک آدمی کیلئے اچّھا مال بہت ہی اچّھا ہے۔(مسند  احمد ،ج 6،ص240، حدیث: 17818) جنگی حکمتِ عملی(بلیک آؤٹ) آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نہایت ذہین اور جنگی تدبیروں سے مالامال بہترین سپہ سالار تھے ایک مرتبہ کسی  معرکہ میں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے یہ اعلان کیا کہ رات کے وقت لشکر میں کوئی آگ روشن نہیں کرے گا،جوکہ بعض لوگوں پر ناگوار گزرا،بعد میں یہ معاملہ بارگاہِ  رسالت میں پیش ہواتو آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے عرض کی:میرے ساتھیوں کی تعداد کم تھی اورمجھے خوف تھا کہ پہاڑ کے پیچھے کوئی لشکر ہے جو مسلمانوں پر حملہ کردے گا۔اس پر نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے آپ کے اس فعل کو خوب سراہا۔ اسی معرکہ میں حضرتِ سیّدُنا ابو بکر صدیق کے یہ کلمات بھی  آپ کی جنگی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے عَمْرو بن عاص کو جنگی اُمورمیں مہارت کی وجہ سے ہم پر امیر مقرّر فرمایا ہے۔(تاریخ ابن عساکر،ج 46،ص145ملخصاً) خدمات و کارنامے پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے آپ کو عمان پر عامل بناکر بھیجا آپ رسولُ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی ظاہری وفات تک وہیں عامل رہے۔ خلیفۂ اوّل حضرتِ سیّدُنا ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے آپ کو شام کی جانب لشکرِ اسلام کا امیر بناکر روانہ کیا،جہاں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے فُتوحات کے جھنڈے گاڑے،20 ہجری میں  فاتحِ مصر کا اعزازپایا ، 22 ہجری میں اسکندریہ فتح کیا پھر23 ہجری میں طرابلس کے علاقے  فتح کئے ،25  ہجری میں اسکندریہ والوں نے بغاوت کی تو آپ نے ان کی سرکوبی کرکے اسے  دوبارہ فتح کرلیا۔ دورِ فاروقی میں فلسطین کے والی مقرّر ہوئے جبکہ فتحِ مصر کے  بعد سے28 ہجری تک مصر کے گورنر رہے۔ (تہذیب الاسماء ،ج2،ص346۔تاریخ ابن عساکر،ج 46،ص159) حضرتِ سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے آپ کو 38 ہجری میں دوبارہ اس عہدے پر فائز فرمادیا۔ (الاصابہ،ج 4،ص540) آخری لمحات اور موئے مبارک سے تبرّک بَوقتِ وصال آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ میرے کفن میں تاجدارِ رسالت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کےموئے مبارک( بال شریف) رکھ دئیے جائیں تاکہ قبر کی مشکل آسان ہو۔ (صراط الجنان،ج 2،ص367) ایک قول کے مطابق آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے سن 43 ہجری عید الفطر کی رات (یکم شوالُ المکرّم) تقریباً 100 سال کی عُمْر پاکر اس دارِ فانی سے دارِ آخرت کی جانب کوچ فرمایا۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 46،ص202) آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا مزار مبارک مُقَطَّم نامی پہاڑ کے دامن  میں(مسجدسیّدی عقبہ بن عامرجہنی کے اندر) ہے۔ (طبقات ابن سعد،ج7،ص342) مالِ وراثت اور مرویّات آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بڑے مالدار صَحابی تھے آپ نے اپنے پیچھے  کافی مال و دولت، غلام اور جائیداد چھوڑی (سیر اعلام النبلاء،ج 4،ص256) جبکہ روایت کردہ احادیث کی تعداد37 ہے۔ (تہذیب الاسماء،ج 2،ص347)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مُدرّس مرکزی جامعۃالمدینہ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ، باب المدینہ کراچی



[1] ۔۔۔ عمر وکا اردوتلفظ عَمْر ْہے،عَمْرُ وْ  پڑھناغلط ہے۔


Share