عرب شریف کے مشہور شہر ’’مَدْیَن‘‘ کے قریب ایک جنگل تھا جس میں درخت اور جھاڑیاں کثرت سے تھیں، اُس جنگل میں رہنے والوں کو ’’اَصْحَابِِ اَیْکَہْ‘‘ یعنی ’’جنگل والے“ کہا جاتا تھا۔ اَصْحَابِِ اَیْکَہْ کی بُرائیاں٭ناپ تول میں کمی کرتے ٭لوگوں کو اُن کی چیزیں پوری پوری واپس کرنے کی بجائےکم کر کے دیتے ٭ڈاکے ڈالتے اور لُوٹ مار کرتے ٭کھیتیاں تباہ کردیتے وغیرہ۔([1]) ایمان کی دعوتاللہ پاک نے اُن لوگوں کی ہِدایت کے لئے حضرتِ سیّدنا شُعیب علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا۔([2]) چونکہ اُن میں سے اکثر لوگ مسلمان نہیں تھے([3]) اس لئے آپ علیہ السلام نے ان کو ایمان لانے کی دعوت دی، اللہ پاک کے عذاب سے ڈرایا، اپنے نبی ہونے کا یقین دلایا اور اپنی اِطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیتے ہوئے اُوپر بیان کردہ بُرائیوں سے بچنے کی نصیحت کی۔([4]) ماننے سے انکار جنگل والوں نے آپ علیہ السلام کی نصیحت سن کر کہا: اے شعیب! تم پر جادو ہوا ہے، تم کوئی فرشتے نہیں بلکہ ہمارے جیسے ہی آدمی ہو اور تم نے جو نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ہم اُس میں تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں، اگر تم اپنے نبی ہونے کے دعوے میں سچےّ ہو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ عذاب کی صورت میں ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادے۔([5]) حضرتِ سیّدناشُعیب علیہ السلام کا جواب جنگل والوں کا یہ جواب سن کر آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ پاک تمہارے اعمال بھی جانتا ہے اور جس عذاب کے تم مستحق ہو اُسے بھی جانتا ہے، اگر وہ چاہے گا تو تم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادے گا اور اگر چاہے گا تو کوئی اور عذاب نازل فرمادے گا۔([6]) جل کر راکھ ہوگئےاللہ پاک کا کرنا یہ ہوا کہ جنگل والوں پر جہنّم کا ایک دروازہ کھول دیا گیا جس کی وجہ سے شدید گرمی ہوگئی اور لُو چلنے لگی جس کی وجہ سے جنگل والوں کا دَم گھٹنے لگا۔ وہ اپنے گھروں میں قید رہتے اور پانی کا چھڑکاؤ کرتے مگر اُنہیں سکون نہ ملتا۔ اِس حالت میں سات دن گزر گئے، اس کے بعد اللہ پاک نے ایک بادل بھیجا جوجنگل والوں پر چھاگیا، اُس بادل کی وجہ سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں، وہ گھروں سے نکل آئے اور بادل کے نیچے جمع ہونے لگے، جیسے ہی سب جمع ہوئے زلزلہ آگیااوربادل سے آگ بَرَسنے لگی، جنگل والے ٹِڈّیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جلنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے راکھ کا ڈھیر بن گئے۔([7])
حکایت سے حاصل ہونے والے مدنی پھول
پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو! ٭ ناپ تول میں کمی کرنا، چیز کم کرکے دینا، ڈاکے ڈالنا، لوٹ مار کرنا اور دوسروں کو نقصان پہنچانا بُرے لوگوں کے کام ہیں۔ ٭انبیائے کِرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اپنے جیسا عام سا انسان سمجھنا بُرے لوگوں کا طریقہ ہے ٭اللہ کے پیاروں کا خوب ادب و احترام کرنا چاہئے ٭جو بزرگوں کی بے ادبی کرتا ہے دنیا و آخرت دونوں میں نقصان اٹھاتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ذمّہ دار شعبہ امیر اہل سنت،المدینۃ العلمیہ باب المدینہ کراچی
[1]۔۔۔ صراط الجنان،ج7،ص153ملخصاً
[2]۔۔۔ ایضاً،ج7،ص151ملخصاً
[3]۔۔۔ پ19، الشعراء:190
[4]۔۔۔ صراط الجنان،ج7،ص152ملخصاً
[5]۔۔۔ ایضاً،ج7،ص153،154ملخصاً
[6]۔۔۔ نسفی، ص830
[7]۔۔۔ عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص353، صاوی،ج 4،ص1474 ماخوذاً
Comments