کیسے ہو حُذیفہ؟ حَنْظلہ نے حال پوچھتے ہوئے کہا۔ حذیفہ : اللہ پاک کا شکر ہے ، ٹھیک ہوں ، آپ سنائیے؟ دوتین دن سے نظر نہیں آرہے ، کہیں گئے ہوئے تھے کیا؟ تراویح میں بھی دِکھائی نہیں دئیے؟ جواب دینے کے بجائے حنظلہ نے سوالات کرتے ہوئے کہا۔ ہاں یار! وہ خالہ کے ہاں گیا ہوا تھا ، آپ کو بتایاتو تھا کہ میں اپنے انکل اورکزن کے ساتھ شاپنگ کے لئے جاؤں گا حذیفہ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا۔ حنظلہ : ہاں! یاد آیا ، بتایا تھا ، مگر میں بھول گیا۔ حذیفہ : خیر ہے ، آؤ! میں آپ کو شاپنگ کا سامان دکھاتا ہوں۔ ہاں ہاں! کیوں نہیں ، میں خود آپ سے یہی کہنے والا تھا ، حنظلہ نے اٹھتے ہوئے مسکراکر کہا۔ عید کے لئے سوٹ کتنے بنوائے ہیں؟ شاپنگ کا سامان دیکھتے ہوئے حنظلہ نے پوچھا۔ حذیفہ : ظاہر ہے کم از کم تین سوٹ تو ہونے چاہئیں ، تائید میں حنظلہ نے بھی سر ہلالیا۔
گھر واپس آتے ہوئے راستے میں حنظلہ عید کی شاپنگ کے بارے میں سوچتا رہا۔ امی! اس بار میں نے تین سوٹ لینے ہیں ، ابھی میں حذیفہ کی شاپنگ دیکھ کر آیا ہوں ، اس کے بھی تین سوٹ ہیں ، گھر میں داخل ہوتے ہی حنظلہ نے شاپنگ کی بات شروع کرتے ہوئے کہا۔ اچھا! وہ آپ کچھ دن پہلے اپنے ایک دوست جنید کا بتارہے تھے ، کیا اس نے شاپنگ کرلی؟ بات کا رُخ موڑتے ہوئے امی کہنے لگیں۔ حنظلہ : نہیں امی! آپ کو تو معلوم ہے وہ بہت غریب ہیں ، ان کے تو ابو بھی وفات پاچکے ہیں ، مشکل سے تو ان کا گھر چلتا ہے ، شاپنگ بھلا کیسے کریں گے؟ امی : بیٹا! رمضان کا مہینا ہمیں دوسروں کے دُکھ ، درد کا احساس دلاتا ہے۔ یہ اچھی بات تو نہیں کہ عید والے دن آپ تو نئے کپڑے پہنیں جبکہ آپ کا دوست وہی پرانے کپڑے پہنے۔
امی جان! پھر آپ ہی بتائیے مجھے کیا کرنا چاہئے؟ حنظلہ نے سنجیدہ انداز میں پوچھا۔ امی : اگر آپ چاہیں تو عید کی خوشیوں میں اسے بھی شامل کرسکتے ہیں ، بس تھوڑی قربانی دینی ہوگی کہ اپنی خریداری میں سے ایک حصہ جنید کے لئے کر دیں ، یوں کہ تین کے بجائے دو سوٹ خود خریدیں اور ایک جنید کے لئے کر دیں ، یوں کہ تین کے بجائے دو سوٹ خودخریدیں اور ایک جنید کے لیے ، اسی طرح بقیہ چیزوں میں بھی جو آپ نے دو لینی تھیں وہ ایک اپنے لئے اور ایک جنید کے لئے لے لیں۔
اگلے دن حنظلہ نے اپنی امی کے ساتھ ویسے ہی شاپنگ کی جیسے انہوں نے سمجھایا تھا اورشام میں وہ بہانے سے جنید کو اپنے گھر لے آیا۔ اسے شاپنگ دکھائی تو جنید نےایک ایک سوٹ اٹھا کر کہا : واہ !حنظلہ عید تو آپ کی ہے ، یہ کپڑے پہن کر آپ بہت اچھے لگیں گے ، میں بھی ایسے ہی کپڑے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہتے کہتے وہ رُک گیااوراُس کے چہرے پر اُداسی چھا گئی۔ حنظلہ سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا اور کیوں نہیں کہہ پارہا ہے۔ جنید ! مجھے اندازہ تھا کہ آپ کو بھی یہ کپڑے پسند آئیں گے اِس لئے یہ کپڑےمیں نے اور میری امی نے آپ کو عید کا تحفہ دینے کے لئے خریدے ہیں ۔
یہ سُنتے ہی جنید کےاداس چہرے پر حیرانی اور خوشی چھاگئی اور وہ کہنے لگا : حنظلہ!واقعی یہ سب۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب۔ ۔ ۔ میرا ہے؟ میں اِسے پہنوں گا؟ یہ سب میرے لئے خریداہےآپ نے؟ حنظلہ نے اُس کے کندھےپر ہاتھ رکھااور جیب سے ایک اورپیکٹ نکال کر کہا : ہاں بھئی!یہ سب تحفے آپ کے ہیں اور یہ گھڑی بھی آپ کی ہے۔ جنید نے شکریہ ادا کرتے ہوئے خوشی خوشی وہ گھڑی بھی لے لی۔ دوسری طرف حنظلہ نہایت پُرسکون تھا ، کیونکہ اُس کی زندگی میں یہ پہلاموقع تھا جس میں اُس نےدوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا ہُنر سیکھا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…شعبہ فیضانِ قراٰن ، المدینۃالعلمیہ ، کراچی
Comments