روشن مستقبل

وہ میرے دشمن تو نہیں ہیں

*  مولانا ارشد اسلم عطاری مدنی

ماہنامہ مارچ 2021ء

 (پہلا منظر)

عُزیر!عُزیر!!

اس نے پیچھے مڑ کردیکھا تو اس کا کلاس فیلو فراز بھاگتاہوا آوازیں لگاتااس کی طرف آرہا تھا۔ قریب آتے ہی اس نے بے چین لہجے میں کہا : یار!آج کل تم نظر نہیں آتے۔ ملنا ملانا بھی کم کردیا ہے۔ کیا کوئی بات ہوگئی؟عُزیر نےپُرسکون لہجے میں کہا : نہیں نہیں!بس یار! پیپرز ہونے والے ہیں توابو نے کہا ہے کہ دل لگاکر محنت کرو تاکہ امتحان میں اچھے نمبر آئیں اور آپ کو تو پتا ہے کہ میٹرک کا امتحان کتنا اہم ہوتاہے۔

(دوسرا منظر)

اچھا امّی جان!میں ریّان کے گھر جارہاہوں ، عُزیر نے جاتے ہوئے کہا۔ بیٹا سنو!یہ تو بتاتے جاؤ کہ کس کے ساتھ جارہے ہو؟ امی جان! فراز کے ساتھ جاؤں گا اس کے ابو نے نئی بائیک لی ہے بائیک کی ٹرائی بھی ہوجائے گی اورہم اپنے دوست سے مل بھی آئیں گے۔

بیٹا!مجھے ڈر لگتاہے کہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہوجائے اورفراز اتنا ٹرینڈ بھی نہیں ہے۔ میری بات مانوتو تم دونوں پیدل ہی چلے جاؤ ، امّی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

ادھر دروازے پر بائیک کے ہارن کے ساتھ ہی آواز آئی!

عُزیر!!!!!! عُزیر!!!!!!!

بس آیا ، عُزیر اندر سے آواز لگاتاہوا باہر آگیا۔ ہاں چلیں! فراز نے ریس دیتے ہوئے کہا۔ اب بیٹھ بھی جاؤ کیا ہوا؟فراز نے سَرسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ عُزیر نے سر کو جھکا کر آہستہ آواز میں کہا : نہیں یار!ہم بائیک پر نہیں پیدل جائیں گے۔ فراز نے حیرت سے کہا : “ پر کیوں؟ “ میری امی بائیک پر جانےسے منع کررہی ہیں۔

(تیسرا منظر)

فراز نے عُزیر کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا : یار!تم نے بتایانہیں کہ تم پکنک پر جارہے ہو ؟عُزیر نے کہا : میں نے ابو سے پوچھا تھا مگر انہوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ تم سب لڑکے لڑکے ہی جارہے ہو ، اگر بڑے افراد ہوتے تو شاید اجازت مل جاتی۔ فراز نے منہ پھلاتے ہوئے کہا : یار! تم بھی چلتے تو ہم اکٹھے انجوائے کرتے۔

(چوتھا منظر)

ریسٹورنٹ پر پہنچتے ہی عُزیر نے چائے کا آرڈر دیا اور فراز کے ساتھ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔ فراز نے بیٹھتے ہی اپنا نیا موبائل دکھاتے ہوئے کہا : یہ دیکھو میرا نیا موبائل ، دھیان سے پکڑنا تھوڑا سا مہنگا ہے۔ یہ کیا تم نے اس کی اسکرین پر کیا لگا رکھا اور یوں کور میں کیوں لپیٹا ہوا ہے؟ عزیر نے موبائل دیکھتے ہوئے کہا ، ارے بھائی! آپ کو اتنا بھی نہیں پتا ، اسکرین پر اچھا والا پروٹیکٹر لگوایا ہے اور یہ اس کا بیک کور ہے تاکہ اگرکہیں گرے بھی تو موبائل کونقصان نہ ہو۔

اتنے میں چائے ٹیبل پر آچکی تھی۔ یار عُزیر! مجھے ابھی تک ایک بات سمجھ نہیں آئی ، فراز نے چائے کا گھونٹ بھرتےکہا۔ تمہارے امی ابو ہر بات پر روک ٹوک کیوں کرتے ہیں؟ مثلاً : بائیک پر نہیں بیٹھو ، پکنک پر نہیں جاؤ ، کھیلنا بند کر دو اب صرف پڑھائی کرو۔ تمہیں نہیں لگتا وہ تم سے زیادتی کر رہے ہیں ، تمہیں قیدی بنارہے ہیں ، عُزیر سکون سے فراز کی باتیں سنتا رہا۔

عُزیر فراز کی ساری باتیں سُن کر مسکرایا اور کہا : کیا تم میرے ایک سوال کا جواب دے سکتے ہو؟ فراز فوراً بولا : ہاں! ہاں! کیوں نہیں ، عُزیر نے پوچھا : پھر یہ بتاؤ؟ تم نے اپنے فون پر پروٹیکٹر اور بیک کور کیوں لگایا؟ فراز جَھٹ سے بولا : یہ قیمتی ہے۔

بس فراز! اب تم یہی سمجھ لو “ میں اپنے والدین کے لئے بہت قیمتی ہوں۔ “ وہ یہ کبھی نہیں چاہتے مجھے کسی قسم کا نقصان ہو۔ وہ لوگ مجھ سے بہتر میری خوشیوں کو جانتے ہیں ، وہ لوگ اس وقت بھی میری خواہشوں کو پورا کرتے تھے جب مجھے خواہش کا بھی نہیں معلوم تھا۔

میرے والدین میری بہت کئیر کرتے ہیں وہ مجھے بُری اور نقصان دہ چیزوں سے دور رکھتے ہیں ، مجھ سے بہتر وہ جانتے ہیں کہ میرا فائدہ اور نقصان کس میں ہے۔

اب تم خود ہی بتاؤ؟ جب ہم ہوٹل پرکھانا کھارہے تھے مجھے کسی اور نے کیوں نہیں کہا : رات ہورہی ہے گھر جاؤ؟ مجھے بائیک پر بیٹھنے سے کسی اور نے منع کیوں نہیں کیا؟ مجھے دل لگا کر محنت کرنے کے بارے میں یہ چائے والا کیوں نہیں بولتا؟ فراز یہ سب باتیں خاموشی سے سُن رہا تھا۔

میرے والدین جب بھی مجھے سمجھائیں گے وہ میری بھلائی کے لئے ہی ہوگا کیونکہ “ وہ میرے دشمن تو نہیں ہیں۔ “

چائے ختم کرکے عُزیر پیسے دینے کے لئے آگے بڑھ گیا مگر فراز وہیں بیٹھا یہ سوچتا رہ گیا کہ عُزیر نے آج جس طرح مجھے سمجھایا ہے کاش! دوسرے لڑکے بھی یہ سمجھ جائیں کہ ہمارے والدین جب ہمیں کسی کام سے منع کرتے ہیں اس میں ان کا نہیں بلکہ ہمارا فائدہ ہوتا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* شعبہ فیضانِ قراٰن ، اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ کراچی

 

 


Share

Articles

Comments


Security Code