حضرت نُعَیم بن مسعود رضی اللہُ عنہ

روشن ستارے

حضرت نُعَیم بن مسعود رضی اللہ عنہ

*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری2023ء

 صحابیِ رسول حضرت سیدنا نُعَیم بن مسعود رضی اللہ عنہ کا تعلق قبیلۂ غَطَفان سے ہے ، آپ سن 5 ہجری میں ہونے والے غزوۂ خندق میں ایمان کی دولت سے مالامال ہوئے لیکن اپنی قوم سے اپنا اسلام چھپائے رکھا۔[1]

آپ رضی اللہ عنہ بہت ذہین ، فطین اور بہترین گفتگو کرنےکی صلاحیت سے مالا مال تھے ، ایک مرتبہ قبولِ اسلام سے پہلے آپ نے مسلمانوں کو ورغلا کر کفار قریش کے خلاف جنگ پر نکلنے سے روکنا چاہا لیکن کامیابی نہ ہوئی جبکہ قبولِ اسلام کے بعد اپنی حکمتِ عملی سے کفار کے اتحاد کو پارا پارا کیا۔[2]

قبولِ اسلام سے پہلے سن 4 ہجری میں حضرت نُعیم ابھی مسلمان نہ تھے کہ کسی کام سے مکہ آئے تو  کفّارِ مکہ نے پوچھا : اے نعیم !  تم کہاں سے آئے ہو ، آپ نے بتایا ، مدینے سے ، انہوں نے پوچھا : کیا وہاں مسلمانوں میں کوئی ہلچل نظر آئی تھی؟ آپ نے کہا : ہاں !  وہ کسی جنگ کی تیاری کررہے تھے ،  [3]سردارِ قریش نے کہا : ہم  نے محمد عربی سے  ( 3 ہجری جنگ احد کے اختتام پر  ) وعدہ کیا تھا کہ اگلے سال دوبارہ  ( جنگ کیلئے ) ملیں گے لیکن یہ سال خشک سالی اور وباؤں کا سال ہے لہٰذا تم مدینے جاؤ اور مسلمانوں کو ڈراؤ کہ میں نے بہت بڑا لشکر تیار کررکھا ہے ، تمہیں اس کام کے بدلے 10 اونٹ ملیں گے ، آپ نے اس معاوضہ کو قبول کرلیا۔  

مسلمانوں کو ورغلانا جب آپ مدینے پہنچے تو صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم نے پوچھا : نُعیم ! کہاں سے آرہے ہو؟ جواب دیا : مکہ سے آرہا ہوں ، صحابہ نے پوچھا : سردارِ قریش  کے بارے میں کچھ پتا  ہے؟ آپ نے کہا : ہاں !  اس نے بڑا لشکر جمع کرلیا ہے اور  عرب قبائل کو بھی ملالیا ہے ، تم لوگ یہیں ٹھہر جاؤ اور جنگ کے لئے نہ نکلو ورنہ وہ تمہارے سرداروں کو کاٹ کر رکھ دیں گے اور تمہارے نبی کو پہلے جیسی تکالیف پہنچائیں گے ، اب تم چاہو تو ان سے مقابلے کےلئے نکل جاؤ ، لیکن تمہارا یہ فیصلہ بہت بُرا ہوگا کیونکہ اس وقت وہاں بہت لوگ جمع ہیں تم میں سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا۔ ان حوصلہ شکن باتوں نے بعض مسلمانوں کو جنگ سے بَددِل کردیا ، یہ دیکھ کر نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم !  میں ضرور نکلوں گا اگرچہ اکیلا جاؤں  ( پھر اسلامی لشکر جنگ کے لئے میدانِ بدر پہنچ گیا مگر کفارِ مکہ جنگ کرنے نہ آئے ) ۔  [4]

قبولِ اسلام حضرت نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ دامنِ اسلام میں اپنے پناہ لینے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ( 5 ھ غزوۂ خندق میں )  مغرب اور عشاءکا درمیانی وقت تھا رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس وقت نماز پڑھ رہے تھے میں حاضرِ خدمت ہوا تو حضورِ اکرم مجھے دیکھ کر بیٹھ گئے ، پھر فرمایا : اے نُعیم !  کیوں آئے ہو؟ میں نے عرض کی : میں آپ کی تصدیق کرنے اور اس بات کی گواہی دینے آیا ہوں کہ آپ نبیِّ برحق ہیں۔ یارسولَ اللہ !  آپ جو چاہیں حکم فرمادیں ، اللہ کی قسم !  میں آ پ کے ہر حکم کی تعمیل کروں گا ، کسی کو نہیں معلوم کہ میں اسلام لاچکا ہوں ، ارشادِ نبوی ہوا : اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق کفار کو مسلمانوں کے خلاف جنگ بندی پرآمادہ کرسکتے ہو توآمادہ کرلو ، میں نے عرض کی : میں یہ کام کر گزروں گا لیکن !  کچھ باتیں  ( آپ کی جانب سے )  کہوں گا ، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے اجازت عطا کی اور فرمایا : جو مناسب لگے وہ کہہ دینا ، تمہاری پکڑ نہ ہوگی۔[5]ایک روایت میں آیا ہے : تم ایسے مرد ہو جو ان کفار کو جنگ نہ کرنے پر آمادہ کر سکتے ہوکیونکہ اَلْحَرْبُ خَدْعَۃ جنگ دھوکا  ہے۔[6]

نوٹ : یہاں خدعہ بمعنی فریب وجھوٹ نہیں بلکہ بمعنی جنگی چال جنگی تدبیر ہے جس سے دشمن جلد ہتھیار ڈال دے ، جنگ میں شمشیر سے زیادہ تدبیر کام آتی ہے ، تدبیر سے خونریزی کم ہوتی ہے فتح جلد۔  [7]

آپ فرماتے ہیں : ( یہودیوں کے قبیلے بنو قُرَیظہ کے پاس پہلے سے میرا آنا جانا رہتا تھا اس لئے )  میں بنو قریظہ کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا پھر کھانا اور شراب میرے سامنے رکھی گئی ، میں نے کہا : میں تمہارے پاس کھانے پینے نہیں آیامیں تمہارے لئے دُکھ اور خطرے کی خبر لایا ہوں تاکہ تمہیں کوئی مشورہ دے سکوں اور میری تم سے محبت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے ، انہوں نے کہا : ہمیں تمہاری محبت کا علم ہے ، میں نے کہا : کسی کو میرا پتا نہ لگے ، محمد عربی کا معاملہ عجیب ہے تم دیکھ چکےہو کہ بنو نضِیر اور قَیْنُقاع قبیلے کو انہوں نے جِلا وطن کردیا تھا ، تم ، غَطَفان اور قریش اس جنگ میں شریک ہویہ دونوں دوسری جگہ سے آئے ہیں ، اگر جنگ میں شکست ہونے لگی تو یہ اپنے شہر کی جانب بھاگ جائیں گے تم یہیں رَہ جاؤگے ، اس شہر میں ہی تمہارے بیوی بچّے مال اسباب ہیں ، میرا مشورہ ہے کہ تم قریش اور غطفان کا ساتھ اس وقت تک نہ دو جب تک تم ان کے کچھ معززین ضمانت کے طور پر نہ لے لو۔ یہ سن کرانہوں نے کہا : تم نے ہمیں اچھا مشورہ دیا ہے۔ پھر میں سردارِ قریش کے پا س آیا اور کہا : تم میرے راز کو چھپائے رکھنا ،  [8]مجھے خبر ملی ہے کہ قریظہ کے یہودیوں نے دھوکا دیا ہے اور انہوں نے محمد عربی  ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  سے صلح کرلی ہے کہ بنو نضیر کو ان کے گھراور مال واپس لوٹا دیں گے لیکن اس شرط پرکہ وہ ان کا ساتھ دیتے ہوئے  ( قریش کے خلاف )  جنگ میں حصہ لیں۔[9]  پھر میں اپنے کافر قبیلےمیں آیا اور جیسا سردار قریش سے کہا تھا ویسا ہی اپنے قبیلے سے کہا انہوں نے بھی میرا یقین کرلیا۔ اتنے میں قبیلۂ قریظہ نے قریش اور غطفان والوں کی جانب کہلا بھیجا کہ ہم اس جنگ میں تمہارا ساتھ اس وقت دیں گے جب تم اپنے کچھ افراد ہمارے پاس بطورِ ضمانت رکھواؤگے ، یہ سن کر سردارِ قریش اور قبیلہ غطفان نے کہا : یہ تو وہی بات ہے جو نُعیم نے بتلائی ہے۔ اس طرح آپ کی حکمت عملی سے دشمنوں کے حوصلے پست ہوگئے اور ان میں پھوٹ پڑگئی  ( آخر کار ایک رات سخت آندھی چلی تو کفار کی ہمت جواب دے گئی اور میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے ) ۔ آپ فرماتے تھے : میں نے ہی جنگِ خندق میں دشمنوں کو مقابلے پر آنے سے روکا یہاں تک کہ ان کے درمیان نااتفاقی ہوئی ، اور میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے راز کا امین تھا۔ اس کے بعدآپ نے مدینے میں مستقل رہائش اختیار کرلی اور بعد کے تمام غزوات میں شرکت کی سعادت پائی۔ سن 9 ھ غزوۂ تبوک کے موقع پر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو آپ کی قوم کی جانب بھیجا تاکہ آپ اپنی قوم کو دشمن کے خلاف جنگ کرنے پرجوش دلائیں۔[10]   ایک قول کے مطابق آپ نے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ  کے دورِ خلافت میں سفرِ آخرت اختیار کیا ، جبکہ دوسرے قول کے مطابق آپ نے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ہمراہی میں 36 ھ جمادی الاخریٰ جنگِ جمل میں حصہ لیا اور مرتبۂ شہادت  پایا۔[11]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] مغازی للواقد ی ، ص480-الاصابہ فی تمییز الصحابہ ، 6 / 363

[2] تفسیر بغوی ، 1 / 294 ، پ4 ، اٰل عمرٰن ، تحت الآیۃ : 172 ملخصاً-مغازی للواقدی ، ص 386

[3] سیرت نبویہ لابن حبان ، ص237ملخصاً

[4] تفسیر بغوی ، 1 / 294 ، پ4 ، اٰل عمرٰن ، تحت الآیۃ : 172 ملخصاً-مغازی للواقدی ، ص 386

[5] مغازی للواقدی ، ص480

[6] بخاری ، 2 / 318 ، حدیث : 3030-سیرت نبویہ ، ابن حبان ص 259

[7] مراٰۃ المناجیح ، 7 / 231

[8] مغازی للواقدی ، ص481 ملخصاً

[9] دلائل النبوۃ للبیہقی ، 3 / 405

[10] طبقات ابن سعد ، 4 / 210ملخصاً

[11] الاصابہ فی تمییز الصحابہ ، 6 / 363


Share