وصالِ صدیقی پر مولیٰ علی رضی اللہُ عنہ کا خطبہ

روشن ستارے

وصالِ صدیقی پر مولیٰ علی کا خطبہ

*مولانا حافظ حفیظ الرحمٰن عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2023ء

کائنات کی سب سے سچی کتاب قراٰنِ پاک میں اللہ کریم نے اپنے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ کے متعلق ارشاد فرمایا : ( رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ )  ترجمۂ کنزُ العرفان : آپس میں نرم دل ہیں۔  ( پ26 ، الفتح : 29 )    (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)     صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم آپس میں ایسے نرم دل اور ایک دوسرے کے ساتھ ایسے محبت و مہربانی کرنے والے تھے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ کرتا ہے۔ ( صراط الجنان ، 9 / 387 )  صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کی حیاتِ مبارکہ کے بےشمار ایسے واقعات کتبِ حدیث اور کتبِ تاریخ میں بھرے پڑے ہیں جن سے صحابہ کی آپسی محبت ، ہمدردی ، خلوص ، غم خواری ، شفقت و رحمت اور ایک دوسرے کا لحاظ رکھنے والی خوبیوں کا پتا چلتا ہے۔

اسی طرح صحابۂ کرام کی اہلِ بیت سے اور اہلِ بیت کی صحابہ سے محبت پر بھی ڈھیروں روایات و واقعات کتبِ حدیث اور کتبِ سیرت میں موجود ہیں جس کی ایک چھوٹی سی جھلک ہمیں مسلمانوں کے پہلے خلیفہ جنابِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے وصال کے موقع پر بھی نظر آتی ہے کہ جب آپ کا وصال ہوا تو جہاں دیگر صحابہ نے آپ سے محبت کی وجہ سے گہرے دُکھ کا اظہار کیا وہیں مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے ایک تاریخی خطبہ دیا جس میں جنابِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے اپنی محبت و الفت کا اظہار کیا۔ آئیے! اس خطبے کے چند اہم نکات ملاحظہ کیجئے :

حضرت سیدنا اُسیدبن صفوان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب حضرت سیدناصدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کاوصال ہوا تو پورا مدینہ سوگوار ہوگیا  صحابۂ کرام حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصالِ ظاہری کے دن کی طرح پریشان تھے۔ حضرت سیدنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن پڑھتے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا کہ آج کے دن نبیِّ آخرُ الزّماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خلیفہ ہم سے رخصت ہو گئے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ اُس مکان کے دروازے پر   جس کے اندر صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا جسمِ پاک رکھا گیا تھا کھڑے ہوگئے اور آپ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمانے لگے :

سیّدنا علیُّ المرتضیٰ کاتاریخی خطبہ

 * اے صدیقِ اکبر  رضی اللہ عنہ ! اللہ پاک آپ پر رحم فرمائے ، آپ رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہترین رفیق ، اچھے محب ، وجہِ راحت ، بھروسا مند اور محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رازداں تھے ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔

 * آپ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ، ایمان میں سب سے زیادہ اخلاص والے ، اللہ کی ذات پر پختہ یقین رکھنے والے ، سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے ، لوگوں میں سب سے زیادہ سخی اور  رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سب سے بڑے محافظ تھے۔

 * آپ کی صحبت سب سے اچھی اور مرتبہ سب سے بلند تھا ، آپ کا اندازِخیر خواہی ، دعوتِ دین کاطریقہ ، شفقتیں اور عطائیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جیسی تھیں ، آپ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہت زیادہ خدمت گزار تھے۔ اللہ پاک آپ کواپنے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اسلام کی خدمت کی بہترین جزا عطا فرمائے۔

 * جس وقت لوگوں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جھٹلایا توآپ نے رسول اللہ کی تصدیق کی ، رسولِ پاک کے ہر فرمان کو حق و سچ جانااور ہر معاملے میں رسولِ پاک  کی تصدیق کی  ( جس کی وجہ سے )  اللہ پاک نے قراٰ نِ کریم میں آپ کو صدیق کے لقب سے نوازا  ( اورفرمایا : )   ( وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖۤ ) ترجمۂ کنز الایمان : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی۔ ( پ24 ، الزمر : 33 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 *  آپ کو ثَانِیَ اثْنَین کالقب ملا ، آپ یارِغار ہیں ، اللہ پاک نے آپ پر سکینہ نازل فرمایا ، آپ نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ہجرت کی ، آپ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خلیفہ فی الدین تھے ، آپ نے خلافت کا حق ادا کیا ، آپ نے  مرتدوں سے جہادکیا ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصالِ ظاہری کے بعد لوگوں کے لئے سہارا بنے ، جب لوگو ں میں اُداسی اور مایوسی پھیلنے لگی تو اس وقت بھی آپ کے حوصلے بلند رہے۔

 *   ( کافروں کے ظلم و ستم کے سبب )  جب لوگو ں نے اپنے اسلام کو چھپایا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایمان کااظہار کیا۔

 *  آپ رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طریقے کی اتباع کی ، منافقین وکفار آپ رضی اللہ عنہ کے حوصلوں کو پست نہ کر سکے ، آپ نے کفارکو ذلیل کیا ، باغیوں پر خوب شدت کی ، آپ کفار ومنافقین کے لئے غیظ وغضب کا پہاڑ تھے ۔

 * لوگوں  سے دینی اُمور میں سستی ہوئی لیکن آپ نے بخوشی دین پرعمل کیا۔لوگوں نے حق بات سے خاموشی اختیار کی مگر آپ نے علی الاعلان کلمۂ حق کہا ، جب لوگ اندھیروں میں بھٹکنے لگے توآپ کی ذات ان کے لئے منارۂ نور ثابت ہوئی۔

 * آپ سچے ، خاموش طبیعت ، دور اَندیش ، اچھی رائے کے مالک ، بہادر اور سب سے زیادہ پاکیزہ خصلت تھے ۔

 *  آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں پر مشفق باپ کی طرح شفقتیں فرمائیں ، جس بوجھ سے لوگ تھک کر نڈھال ہوگئے تھے آپ نے انہیں سہارادیتے ہوئے وہ بوجھ اپنے کندھوں پر لاد لیا۔ جب لوگوں نے بے پروائی کامظاہرہ کیا تو آپ نے قوم کی باگ ڈور سنبھالی ، جب لوگوں نے بےصبری کا مظاہرہ کیا تو آپ نے صبر سے کام لیا ، جو چیز لوگ طلب کرتے آپ عطا فرما دیتے ، لوگ آپ کی پیروی کرتے رہے اور کامیابی کی طرف بڑھتے رہے اور آپ ہی کی وجہ سے انہوں نے وہ کامیابی اور ہدایت پائی جس کا ان کو گمان بھی نہ تھا۔

 * آپ اہلِ ایمان کے لئے رحمت ، شفقت اور محفوظ قلعہ تھے ، آپ بہت نڈر اور نہ گھبرانے والے تھے ، آپ جذبوں اور ہمتوں کا ایسا پہاڑ تھے  جسے نہ تو آندھیاں ڈگمگاسکیں نہ ہی سخت گرج والی بجلیاں متزلزل کر سکیں۔

  * آپ نے کبھی کسی کو عیب نہ لگایا ، نہ کسی کی غیبت کی اور نہ ہی کبھی لالچ کی۔ کمزور وناتواں لوگ آپ کے نزدیک محبوب اور عزّت وا لے ہو تے ، اگر کسی مالدار اورطاقتور شخص پر ان  ( کمزوروں )  کا حق ہوتا تو انہیں ضرور ان کاحق دلواتے۔ طاقت اورشان و شوکت والوں سے جب تک لوگوں کا حق نہ لے لیتے وہ آپ کے نزدیک کمزور ہوتے۔

 *  اللہ کی قسم! آ پ رضی اللہ عنہ ہم سب سے سبقت لے گئے ، آپ کے بعد والے آپ کامقابلہ نہیں کر سکتے۔ آپ اپنی منزلِ مقصود کوپہنچ گئے۔ آپ کوبہت عظیم کامیابی حاصل ہوئی ، آپ نے اس شان سے اپنے اصلی وطن کی طرف کوچ کیا کہ آپ کی عظمت کے ڈنکے آسمانو ں میں بج رہے ہیں اور آپ کی جدائی کاغم ساری دنیا کو رُلا رہاہے۔

  * رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال کے بعدآپ کی جدائی جیسی مصیبت مسلمانوں کو کبھی نہیں پہنچی۔ آپ دین کی  عزّت کا باعث اور اس کی جائے پناہ تھے ، آپ مسلمانوں کے لئے بہت بڑا سہارا اور منافقوں پر سراپا شدت اور غیظ و غضب تھے۔

 * اللہ پاک نے آپ  کو اپنے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ملایا۔اللہ پاک ہمیں آپ کے اجر و ثواب سے محروم نہ کرے اورنہ ہی آپ کے بعد ہمیں گمراہ کرے۔

لوگ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا خطبہ خاموشی سے سنتے رہے۔جب آپ رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار کی تو لوگوں نے زار و قطار رونا شروع کر دیا اور سب نے کہا : ” آپ نے سچ فرمایا۔“

 ( ریاض النضرۃ ، 1 / 262 ، تاریخ ابن عساکر ، 30 / 440 ، فیضانِ صدیقِ اکبر ، ص457 )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی


Share