آخر درست کیا؟
کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہے؟ ( قسط : 01 )
*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ جنوری 2023
آج کل کچھ طبقوں میں یہ جملہ دہرانے کا فیشن عام ہے کہ اسلام زوال پذیرہے اوراس کی بڑی وجہ اجتہاد کا دروازہ بند ہونا ہے اور اس بندش کا سبب علمائے دین ہیں کیونکہ ان پر جمود طاری ہے ، وہ زمانے کی رفتارکے مطابق چل نہیں پارہے۔ آئیے ذرا عقلِ سلیم کی روشنی میں اس الزام کا تجزیہ کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سوال جعلی حکیموں اورجعلی ڈاکٹروں کے اُس احتجاج کی طرح ہے جنہیں حکومت کے محکمۂ صحت سے یہ شکایت ہے کہ انہیں پریکٹس کیوں نہیں کرنے دی جارہی؟ لوگوں کاعلاج کیوں نہیں کرنے دیا جارہا؟ اس کا جواب ہر معقول شخص یہی دے گا کہ آپ نااہل ہیں اور نااہلوں کو لوگوں کی جان سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، لہٰذا آپ کے لئے طبی اجتہاد کا یہ دروازہ بند ہے۔ یہی معاملہ دینی احکام کا ہے کہ نااہلوں سے کہا جاتا ہے کہ آپ نااہل ہیں اور نااہلوں کو لوگوں کے دین و ایمان سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہٰذا آپ کے لئے شرعی اجتہاد کا یہ دروازہ بند ہے۔ اس بندش پر نااہلوں کا احتجاج جاری ہے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ جس اجتہاد سے منع کیاجاتاہے وہ نااہلوں کااجتہاد ہے۔
اِن نااہلوں اور قابلِ بندش لوگوں میں کئی طرح کے افراد داخل ہیں ، وہ بھی کہ جنہوں نے قرآن وحدیث پڑھا ہی نہیں لیکن اجتہاد فروشوں کے بقول انہیں اِس دلیل سے اجتہاد کی اجازت دیدی جائے کہ چونکہ ملک کے لوگوں نے انہیں منتخب کرکے کسی دارالحکومت کی کسی بڑی سی بلڈنگ میں بٹھایا ہوا ہے ، لہٰذا وہ اجتہاد کریں گے۔ اب علماء کہتے ہیں کہ بھئی یہ بلڈنگ میں بیٹھے لوگ کیسے اجتہاد کریں گے؟ انہیں تو نماز پڑھنی بھی نہیں آتی ، سورۂ اخلاص پڑھتے ہوئے ان کی زبان اٹکتی ہے ، قرآن کی سورتوں کے نام انہیں یاد نہیں ، وغیرہا۔ اب ہر صاحبِ عقل شخص خود غور کرلے کہ ایسے لوگوں کو جعلی ڈاکٹروں کی طرح اجتہادی پریکٹس سے منع کیا جائے یا لوگوں کے دین و ایمان سے کھیلنے کےلئے دینی اجتہاد کی اجازت دی جائے؟ ہرمعقول آدمی یہی جواب دے گا کہ ایسوں کو اجتہاد کی ہر گز اجازت نہیں ہونی چاہیے اور یہ بالکل درست ہے کیونکہ اجتہاد ، امت مسلمہ کی بہت بڑی ذمہ داری ، منصب اور امانت ہے اور خداوند کریم نے فرمایا : ( اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ- ) ترجمہ : بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو۔ ( پ 5 ، النسآء : 58 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : فاذا ضيعت الامانة فانتظر الساعة ، قال : كيف اضاعتها؟ قال : اذا وسد الامر الى غير اهله فانتظر الساعة ترجمہ : جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ سائل نے پوچھا ، امانت کیسے ضائع ہوگی؟تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب کوئی اہم کام ( عہدہ ، ذمہ داری ، منصب ) کسی نااہل کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ ( بخاری ، 1 / 36 ، حدیث : 59 )
اَن پڑھ خود ساختہ مجتہدین کی طرح ، اجتہادکا دروازہ ان لوگوں کےلئے بھی بند قرار دیا جاتا ہے جنہوں نے قرآن وحدیث پڑھاتوہے مگر وہ نفس کے بندے اور خواہشات کے غلام ہیں ، اُن کااجتہاد اسلام سے دور اور خواہشات کے قریب کردیتاہے ، اُن کا ہر اجتہاد حلال و جائز کہنے کی طرف ہی جاتا ہے ، اُن کے ہراجتہاد کامطلب یہی نکلتا ہے کہ سابقہ چودہ سو سال کے لوگوں نے دین غلط سمجھا اور آج ہم دین کو صحیح سمجھ رہے ہیں۔ یہ لوگ بھی اجتہاد کے حوالے سے نا اہل ہیں۔ ایسے لوگوں کی نااہلیت سمجھنے کے لئے قرآن کا ذرا گہرائی سے مطالعہ کرنا پڑے گا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ ( ۵۹ ) ) ” تو ان کے بعد وہ نالائق لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں گے۔“ ( پ 16 ، مریم : 59 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیت کا سیاق و سباق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ مریم میں کثیر انبیاءِ کرام علیہم الصّلوٰۃُوالسّلام کاذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کا منصب عطا کر کے ان پر اپنا خصوصی احسان کیا ، انہیں ہدایت پر فائز کیا اور انہیں شریعت کی تشریح کے لئے منتخب کرلیا۔ ان ہستیوں کی عملی حالت و کیفیت یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کریم کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو یہ سجدہ کرتے اور روتے ہوئے گر پڑتے ہیں لیکن ان کے بعدایسے لوگ آئے جو ناخلف اور نااہل تھے اور ان کی نااہلی کی علامت یہ تھی کہ ” اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ“ ” انہوں نے نمازوں کوضائع کیا“ اور ” اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ“ ’’نفس کی خواہشات کی پیروی کو اپنی زندگی بنالیا‘‘ توفرمایا ، ” فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ ( ۵۹ ) “ ” تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں گے۔“ ’’غَیّ‘‘ جہنم کی ایک وادی بھی ہے اورسرکشی کو بھی عربی میں ” غَیّ“ کہا جاتا ہے۔
اب یہاں پرآیات کا مربوط بیان دیکھیں کہ پہلے کاملین کا تذکرہ فرمایا ، جو کتابِ الٰہی سن کر روتے اور سجدے کرتے ہیں یعنی نہایت باعمل ہیں لیکن پھر بتایا کہ ان کے بعدایسے لوگ آئے جنہوں نے بے عملی کو شِعار بنایا کہ نمازیں برباد کیں ، خواہشات کے غلام بنے اور اسی بے عملی و بدعملی کی زندگی میں پڑے رہے تو یہ لوگ سیدھے راستے سے بہکنے ، بھٹکنے والے اور جہنم کا ایندھن ہیں۔
اب قرآن کی روشنی میں ہم اپنے زمانے کے لوگوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ہمارے یہاں جو پرچون کی طرح گلی گلی اجتہاد کی دکان کھولنے کی بات کرکے پھر خود ہی شوقِ اجتہاد پورا کرنے لگتے ہیں یا کسی حکومتی بلڈنگ میں بھاری الاؤنس لے کر بیٹھنے والوں کو اجتہاد کی اجازت دینے کی باتیں کرتے ہیں ، ان سب کی ایک ہفتے کی زندگی دیکھ لیں ، وہ پروفیسرزہوں یا مفکر کہلانے والے ، عالمی اسکالر کا لقب رکھنے والے یا دنیاوی پڑھے لکھے افراد ، اخبار میں کالم کے ایک دو صفحے لکھ دینے والے یا دو چار کتابوں کے مصنفین ، زیادہ تر اجتہاد کی بات یہی کرتے ہیں ان سب کے ایک ہفتے کی عملی حالت چیک کرلیں کہ نمازپڑھتے ہیں یانہیں ؟ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ” اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ“ یعنی’’انہوں نے نمازیں ضائع کیں‘‘ کے پکے عامل ہوں گے اور ” اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ“ ترجمہ : ” انہوں نے خواہشات کی پیروی کی۔‘‘ کا کامل نمونہ نظر آئیں گے۔
سال 2002ء کے بعد کی بات ہے کہ ایک صاحب اجتہاد کی بہت زیادہ باتیں کرتے تھے حتی کہ ان کے انٹرویو وغیرہ بھی اس موضوع پر میگزینوں میں کبھی کبھار چھپتے تھے ۔ان صاحب کا اجتہاد یہاں تک پہنچاہوا تھا کہ تھوڑی بہت شراب پی لینابھی ان کے نزدیک کوئی اتنامسئلہ نہیں تھا ، ان کے نزدیک شراب پینا بھی اجتہادی مسئلہ ہی تھا۔ بعدمیں پتہ لگاکہ وہ موصوف خود بھی دو چار چسکیاں لگالیتے تھے۔
توجناب ، یہ ہیں وہ حضرات جن کے متعلق علما فرماتے ہیں کہ ایسوں کے لئے اجتہاد کا دروازہ بند ہے اور جہاں تک حقیقی اور اہل علماء کا تعلق ہے تو وہ آج بھی اَلحمدُ لِلّٰہ اجتہاد کرتے ہیں ، جونئے مسائل پیش آتے ہیں ان پر غوروفکر کرکے ان کے حل تلاش کرتے ہیں ۔
اس وقت پوری دنیا میں جو اسلامک بینکنگ چل رہی ہے ، کیا یہ پورا نظام امام اعظم سیدنا امام ابوحنیفہ یاسیدنا امام شافعی رضی اللہ عنہما یا ہدایہ و فتح القدیر کے مصنفین جعل اللّٰہ مقامھما فی اعلی علیین نے بیان فرمایا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ اسلامک بینکنگ اوراس کے مربوط و منظم طریقۂ کار کے اجتہادی استخراج و استنباط کا سہرا آج کے زمانے کے اہلِ اجتہاد علماء ہی کے سر پر سجا ہوا ہے۔ ملائیشیا ، انڈونیشیا ، قطر ، بحرین ، عمان ، دبئی کے علماء ہی نے اسلامی بینکنگ کی بنیاد رکھی اور اسے عملی طور پر کامیاب کرکے دکھایا ، پھر پاکستان کے متعلقہ لوگوں نے ان ہی ممالک کے علماء کی اتباع میں مزید کام کیا۔
( جاری ہے )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments