تفسیر قراٰنِ کریم
مردِ مؤمن ( قسط : 01 )
*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ جنوری 2023
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ( وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ﳓ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَكْتُمُ اِیْمَانَهٗۤ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰهُ وَقَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْؕ-وَاِنْ یَّكُ كَاذِبًا فَعَلَیْهِ كَذِبُهٗۚ-وَاِنْ یَّكُ صَادِقًا یُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ( ۲۸ ) ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
ترجمۂ کنزُ العرفان : اور فرعون والوں میں سے ایک مسلمان مرد نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپاتا تھا : کیاتم ایک مرد کو اس بنا پر قتل کرنا چاہ رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور بیشک وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن نشانیاں لے کر آیا ہے اور اگر بالفرض وہ غلط کہتے ہیں تو ان کی غلط گوئی کا وبال ان ہی پر ہے اور اگر وہ سچے ہیں تو جس عذاب کی وہ تمہیں وعید سنارہے ہیں اس کا کچھ حصہ تمہیں پہنچ جائے گا۔بیشک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا ، بڑا جھوٹا ہو ۔ ( پ24 ، المؤمن : 28 )
تفسیر :
اس آیت میں اٰلِ فرعون کے مؤمن کا ذکر ہوا ، اس کے متعلق مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہ مؤمن فرعون کا چچازاد بھائی تھااور حضرت موسیٰ علیہ السلام پرایمان لاچکا تھا لیکن اپنا ایمان فرعون اور اس کی قوم سے چھپاتا تھا کیونکہ اسے اپنی جان کا خطرہ تھا اور یہی وہ شخص تھا جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نجات حاصل کی تھی اور ایک قول یہ ہے کہ وہ شخص اسرائیلی تھا جو اپنا ایمان فرعون اور اس کی قوم سے مَخفی رکھتا تھا۔ امام ابنِ جریر طبری رحمۃُ اللہ علیہ نے پہلے قول کو راجح قرار دیا ہے۔ ( طبری ، پ24 ، المؤمن ، تحت الآیۃ : 28 ، 11 / 54 )
آیت میں بیان کردہ واقعے کا پس منظر :
آیت میں مذکور مردِ مؤمن کے ایمان افروز اور جرأت مندانہ کلام کا سیاق و سباق یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام خداوندِ قدوس کی طرف سے معجزات کے ساتھ فرعون کے پاس آئے اور اسے دعوتِ اسلام دی تو فرعون اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ موسیٰ ( علیہ السلام ) تو جادوگر ہے اور بہت بڑا جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے غضب ناک ہوکر یہ فرعونی حکم جاری کیا کہ موسیٰ پر ایمان لانے والوں کے بیٹوں کو قتل کردو اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑدو اورخود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرعون نے مجنونانہ جوش میں کہا کہ مجھے چھوڑدو تاکہ میں موسیٰ کو قتل کردوں اور وہ اپنے رب کو بلالے۔ معاذاللہ۔ فرعون نے اپنی اس ساری کاروائی پر لوگوں کے سامنے یہ سیاسی انداز اختیار کیا کہ اے لوگو! مجھے ڈر ہے کہ موسیٰ یا تو تمہارا دین بدل دے گا یا پھر ملک میں فسادبرپا کرے گا۔ یہ باتیں سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کی بارگاہ میں عرض کی کہ میں ایسے ہر متکبر و منکرِ قیامت کے مقابلے میں رب کی پناہ لیتا ہوں ۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کی اور ا س کے فضل و رحمت پر بھروسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس فتنے کو سرد کرنے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حمایت میں ایک اجنبی شخص کو کھڑا کر دیا ، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان تو رکھتا تھا لیکن لوگوں سے اپنا ایمان چھپاتا تھا۔ اس مردِ مومن نے لوگوں سے کہا کہ کیاتم ایک شخص کو بلادلیل صرف اس وجہ سے قتل کرنا چاہ رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ( یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام ) اس دعوے پر تمہارے پاس تمہارے حقیقی رب کی طرف سے ایسے روشن معجزات لائے ہیں جن کا تم مشاہدہ بھی کر چکے ہو اور اِن سے اُن کی صداقت ظاہر اور ان کی نبوت ثابت ہوگئی ہے اورحقانیت کے ثابت ہوجانے کے باوجود اُن کی مخالفت کرنا اور وہ بھی اِتنی کہ اُنہیں قتل کردیا جائے کسی صورت بھی درست نہیں۔ پھر سمجھانے کےلئے اس مردِ مؤمن نے لوگوں کو ان کی سمجھ کے مطابق کلام کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر بالفرض وہ جھوٹے ہوں تو انہیں قتل کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ایسے بڑے معاملے میں جھوٹ بول کر وہ اس کے وبال سے بچ نہیں سکتے بلکہ ( خود ہی ) ہلاک ہوجائیں گے اور اگر وہ سچے ہیں ( جو حقیقت میں یقیناً ہیں ) تو جس عذاب سے وہ تمہیں ڈرا رہے ہیں اس کا انکار کرنے کی وجہ سے وقوعی طور پر تمہیں کچھ عذاب پہنچ ہی جائے گا ، تو ایسی صورت میں اگر تم انہیں قتل کر دو گے تواس سے بڑی بلا و سزا اور عذاب اپنے سر لو گے ، الغرض ، ان کے جھوٹا ہونے کی صورت میں انہیں قتل کرنا فضول ہے اور سچا ہونے کی صورت میں تمہارا اپنا نقصان ہی نقصان ہے اور ویسے بھی جو حد سے بڑھنے والا ہو اور اتنا بڑا جھوٹا ہو کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا ( تو اس اعتبار سے بھی اگر بالفرض وہ جھوٹے ہوئے تو رسوا ہو جائیں گے ، لہٰذا بہر صورت تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ انہیں قتل نہ کرو۔ )
( مدارک ، المؤمن ، تحت الآیۃ : 28 ، ص1057-ابن کثیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ : 28 ، 7 / 126تا 128 ، ملتقطاً )
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اٰ ل ِ فرعون کے مؤمن سے بہتر ہیں :
یہاں اٰلِ فرعون کے مؤمن کا ذکر ہوا ، اسی ضمن میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت ملاحظہ ہو کہ ایک مرتبہ حضرت علیُّ المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : اے لوگو! مجھے اس شخص کے بارے میں بتاؤ جو لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر ہے۔ لوگوں نے عرض کی : اے امیر المؤمنین! آپ ( سب سے زیادہ بہادر ہیں ) ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نہیں ( میں ایسا نہیں ہوں ) ۔لوگوں نے پوچھا : پھر وہ کون ہے ؟آپ نے فرمایا : حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ۔ کیونکہ میں نے دیکھاکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو قریش نے پکڑ رکھا تھا۔ ان میں سے ایک دوسرے کو ( نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذا دینے پر ) ابھار رہا تھا اور دوسرا آگے کسی اور کو بھڑکا رہا تھا۔ قریش نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کہہ رہے تھے کہ تم وہی ہوجس نے تمام معبودوں کوایک بنا دیاہے۔ ( حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ) اللہ عزّوجلّ کی قسم! ( خوف و دہشت کے ) اُس وقت ہم میں سے کوئی بھی مدد کے لئےآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف نہ بڑھا مگر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کرمحبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ کسی کو مارتے ، دوسرے سے مقابلہ کرتے اور کہتے : تم برباد ہو جاؤ ، کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتے ہیں ’’میرا رب اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔
یہ فرمانے کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم نے وہ چادراٹھائی جوآپ نے زیب ِتن کررکھی تھی اور اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی ترہوگئی۔ پھرفرمایا : میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر کہتاہوں ، کیاآلِ فرعون کامؤمن بہترہے یا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قومِ فرعون کے مؤمن سے بہترہیں؟ ( مراد یہ ہے کہ یقیناً ابوبکر ہی بہتر ہیں کیونکہ ) اٰلِ فرعون کا مؤمن اپنے ایمان کو چھپاتا تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کااعلان کرتے تھے۔ ( مسند البزار ، 3 / 14 ، حدیث : 761ملتقطاً )
آئینِ جوانمرداں ، حق گوئی و بےباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی
اسباق :
( 1 ) اہلِ حق مردانِ خداپر ہمیشہ ایسے حالات آتے رہے کہ انہیں بادشاہوں اور طاقتوروں کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔
( 2 ) مرد ِ مومن کچھ وقت کے لئے تو اپنا ایمان چھپا سکتا ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ بڑے سے بڑے موقع پر بھی وہ ایمان اور حق بات چھپا کر بیٹھا رہے۔
( 3 ) اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں ، منکروں اور کاذبوں سب تک حق کی بات ضرور پہنچاتا ہے لیکن قبولِ حق پر مجبور نہیں کرتا کہ ایمان جبر و قہر سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے لانا مطلوب ہے۔
( 4 ) نبی علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام اور ان کے متبعین کی تائید و حمایت کےلئے کھڑے ہونا اور اِس میں اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرنا خدا کے پسندیدہ بندوں کا وصف ہے۔
( 5 ) اپنے اقتدار کی بقا کے لئے جھوٹے نعرے بنانا اور لوگوں کو باطل چیز بھی ملمع کاری سے حق کے رنگ میں دکھانا ہمیشہ سے وقت کے فرعونوں کا وطیرہ رہا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کی بارگاہ میں عرض کی کہ میں ایسے ہر متکبر و منکرِ قیامت کے مقابلے میں رب کی پناہ لیتا ہوں۔
( 6 ) زور آور ظالم و غاصب کے مقابلے میں حقیقی مدد اور پناہ ، جبار و قہار خداوندِ عالم ہی کی بارگاہ سے طلب کی جائے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کیا۔
( 7 ) حق کی تائید میں زورِ بازو سے پہلے دلیل کی طاقت سے مخاطب کو قائل کرنے کی کوشش کی جائے۔
( 8 ) دلائل دینے میں لوگوں کے عقل و شعور اور مراتب کا خیال رکھ کر کلام کیا جائے تاکہ حکمت و موعظۂ حسنہ پر پوری طرح عمل ہوسکے۔
( 9 ) عبادت و اخلاق ، صداقت و سخاوت ، شفقت و رِقَّت کی طرح بلند ہمتی اور جرأت و شجاعت میں بھی کوئی شخص سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے برابر نہیں ہے۔
( 10 ) معیار و مقداراور سفر و حضر میں ہر طرح نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سب سے زیادہ تائید و خدمت اور حمایت و نصرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے کی۔
( 11 ) شیرِ خدا ، سیدنا علیُّ المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی شان منبر پر بیٹھ کر بیان فرمائی اور آپ کا ذکر کرکے محبت میں گریہ و زاری فرمائی۔
( جاری ہے )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments