خود احتسابی کا عمل اپنائیے

فریاد

خود احتسابی ( Self-Accountability )  کا عمل اپنائیے

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2023ء

میں ماضی میں ایک دکاندار کے ساتھ ہوتا تھا ، ان کے پاس ایک ڈائری ہوتی تھی ، ہر روز کی جو سیل ہوتی وہ اس میں لکھتے رہتے ، ساتھ ہی چائے ، روٹی ، لنچ اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے جو اَخراجات ہوتے وہ بھی لکھتے اور پھر آخرمیں حساب لگاتے کہ آج کتنا کمایا اور کتنا خرچ ہوا؟نفع ہوا یا نقصان؟نفع ہواتواس کا تَناسُب گزشتہ دن کے اعتبار سے کتنا رہا؟کم ، زیادہ یا پھر برابر؟

 یہ کام عموماً اپنی دنیا بہتربنانےکی خاطر کاروباری لوگ کرتے ہیں جو پہلے رجسٹر وغیرہ بنا کر رکھتے تھے ، اب کمپیوٹر میں فیڈ کر لیتے ہیں ، جودکاندار ادھار پر سامان بیچتے ہیں عموماً اسے بھی وہ لکھتے رہتے ہیں اور پھر مہینا ختم ہونے پر حساب کرکے گاہک سے پیسے لےکراگلے مہینے کیلئےاس کا نیا کھاتہ کھول لیتے ہیں ، روزانہ اور ماہانہ کی بنیاد پر حساب کتاب کے علاوہ کاروباری لوگوں کے حِساب کرنے کے دو مواقع اوربھی ہوتے ہیں 31 جون اور 31 دسمبر۔ کاروباری لوگ سال کو دو حصوں میں تقسیم کر تے اور اسے کلوزنگ کا نام دیتےہیں ، اپنے پچھلے حِساب کتاب کو کلوز کر کے اگلا حِساب کتاب شروع کرتے ہیں۔ یوں ہی دُنیا میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کیریئر پلاننگ وغیرہ کے نام پرکئی لوگ ماضی کو سامنے رکھ کر حال کو اور حال کو سامنے رکھ کر مستقبل کو دیکھتے اور اسے پہلے سے مزید بہتر کرنے کا سوچتے ہیں۔

الغرض!دنیامیں کئی چیزوں کے حِساب کتاب ہوتے ، ان کے حساب کتاب رکھے جاتے اور ان میں بہت غور کیا جاتا ہے۔ یوں کہہ لیجئےکہ آج حالت یہ ہوچکی ہے کہ ” جہاں ہمیشہ جینا نہیں ہے وہاں کے حِساب کتاب سے فُرصت نہیں ہے اور جہاں کبھیمَرنا نہیں ہے وہاں کے حِساب کتاب کیلئے وقت ہی نہیں ہے۔ “  ہوسکتا ہے کہ آپ نے بھی 31 دسمبر 2022ء کو اپنے کئی معاملات کا سابقہ حساب کتاب کلوز کر کے نیا حساب کتاب شروع کردیاہو ، ماضی میں کاروبار وغیرہ کے اندر جو نقصانات اور کوتاہیاں آپ سے ہوئیں وہ دوبارہ نہ ہوں اس کی بھی آپ نے کوئی پلاننگ وغیرہ کرلی ہو اور یوں دنیاوی مستقبل کو بہتر سے بہترین بنانے کے اہداف طے کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل بھی شروع کردیا ہو۔

مگر میرا سوال یہ ہےکہ گزشتہ سال کے کاروبار وغیرہ کے نقصان کوپورا کرنے اوراپنے نئےسال کو مزید بہترکرنےکے لئے اہداف طے کر کے ان پرعمل شروع کردینے کےساتھ ساتھ گزشتہ سال بلکہ پچھلی پوری زندگی میں اگرنیکیاں ہم سے کم اور گناہ زیادہ ہوئے ، اس اُخْرَوی خسارے کو سوچ کر کیا ہم نے نئےسال میں نیکیاں زیادہ کرنے بلکہ نیکیاں ہی کرنے کا کوئی پلان تیار کرکے اس پر عمل شروع کردیا؟ گزشتہ سال ہم سے جو نمازیں قضا ہوئیں ، جو روزے قضا ہوئے بلکہ جو بھی حقوقُ اللہ اور حقوقُ العباد پچھلے سال ہم سے ضائع ہوئے یا ہم نے ضائع کئے ان سے ہم نے سچی توبہ کرلی؟ اور جن حقوق کی تلافی ممکن تھی ان کی تلافی کرلی ؟ یا پھر ان کی تلافی کا کوئی پلان تیار کرکے اس پر عمل شروع کردیا ہے؟

حال ہی میں دنیاوی مستقبل کے لئے جس طرح ہم سوچ رہے ہیں تو کیا مستقبل میں ہمارے ساتھ پیش آنے والے سب سےاہم معاملات یعنی موت اور قبرکے بارے میں بھی ہم نے کوئی غور وفکرکیا؟ان کے لئے بھی جیسی تیاری ہونی چاہئےویسی تیاری کاہم نےکوئی منصوبہ بناکراس پر عمل شروع کردیا؟ دن بھر میں کتنا کمایا اور کتنا خرچ کیا اس کا حساب کتاب رکھنے کے ساتھ ساتھ کیاہم اس بات کا بھی حساب کتاب کرتےہیں کہ آج میں نےکتنی نیکیاں اور کتنے گناہ کئے؟ کم آمدنی اور زیادہ خرچ پر جس طرح ہم غم زدہ اور پریشان ہوتے ہیں اس طرح کیا روزانہ زیادہ گناہوں اورکم نیکوں پربھی ہم اَفْسُردَہ ہوتے ہیں؟ کاروبار میں جس دن ہمیں نفع نہ ہوا ہو اور ہم نےنقصان ہی اٹھایاہو ، اس دن تو ہمارا مُوڈ آف ہوجاتا ، افسوس ہونے لگتا اور کسی سےبات کرنے کا دل نہیں کرتا تو جس دن ہم سے نیکیاں کم اورگناہ زیادہ ہوئے یا پھر صرف گناہ ہی ہوئے تو کیااس دن اپنے اُخْرَوِی خسارے اور نقصان کے بارے میں سوچ کر خود کو مَلامَت کی اور ہمیں اپنی حالت پر روناآیا؟

مسلمانوں کے دوسرےخلیفہ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ روزانہ رات کو اپنے پاؤں پر دُرّہ  ( یعنی چمڑے کا چابک )  مار كر اپنے آپ سےپوچھتے کہ تونے آج کیا کیا ہے ؟  ( احیاء العلوم ، 5 / 141 )   نیز آپ رضی اللہ عنہ کا اِرشاد ِ مبارک ہے: ” اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اپنا حساب کر لو۔ “  ( ترمذی ، 4 / 208 )  سیدنافاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ تو یقینی جنّتی ہیں ، آپ نے اپنے لئے اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جنَّت کی بشارت بھی سُنی ہے لیکن پھر بھی اپنے اَعمال کا اس طرح مُحاسبہ کرتے تھے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی روزانہ اپنا مُحاسبہ کریں کہ آج ہم نے کیا کیا ہے ؟ کتنی نیکیاں کی ہیں؟ نَعُوْذُ باللہ گناہ تو نہیں کئے ؟ گناہ ہونے کی صورت میں توبہ کریں اور اس کی تلافی کریں مثلاً کسی بندے کو تکلیف دی ہے تَو توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بندے سے مُعافی مانگ کر اسے راضی بھی کریں۔ مَعاذَ اللہ کوئی نماز قضا کر دی ہے تَو توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس قضا نماز کو ادا بھی کریں۔اوریہ توبہ اور تلافی کا سِلسلہ ہر روزہی ہونا چاہئے۔ حضرت سیِّدُنا حسن بصری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مومن اپنے نفس پر حاکم ہے ، وہ رضا ئے الٰہی کی خا طر اس کا محاسبہ کرتا رہتا ہے اوردنیا میں نفس کامحا سبہ کرنے والوں کا حساب آخرت میں آسان ہوگا جبکہ محاسبہ نہ کر نے والوں کا حساب بروزِ قیامت سخت ہوگا۔ حضرت سیِّدُنا مالک بن دینار رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ پاک اس بندے پر رحمت فرمائے جو اپنے نفس کا محاسَبہ کرتا اور اس پر سختی کرتے ہوئے اسے اس کی خرابیاں گنواتا ، ان خرابیوں پر اس کی مذمت کرتااور اسے لگام ڈال کر قراٰنِ کریم کا پابند کردیتا ہے۔  ( احیاء العلوم ، 5 / 138ملخصاً )

میرے شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے ہم پر جواحسانات ہیں ان میں سےایک یہ بھی ہےکہ آپ ہمیں خود احتسابی کاذہن دیتے ہیں ، اور اس اہم کام کو ہمارے لئے آسان بنانے کی خاطر آپ نے ہمیں ” نیک اعمال “  نامی رسالہ بھی عطافرمایاہے ، لہٰذا میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے! قیامت کے دن حساب میں آسانی کیلئے آپ بھی اس رسالے کو حاصل کرکےآج ہی سےاللہ کی رضا کیلئے اپنا احتساب شروع کردیجئے ، اللہ کریم ہمیں اِس نئے عیسوی سال کوگناہوں سے بچتے ہوئے نیکیوں میں گزارنےکی توفیق عطا فرمائے۔  اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ:یاد رہے کہ میرے پیر صاحب کی طرف سے اسلامی بھائیوں کے لئے72 ، اسلامی بہنوں کیلئے63 ، جامعۃُ المدینہ کے طلبہ کیلئے 92 ، طالبات کے لئے  83 ، بچوں کے لئے 40 ، خصوصی اسلامی بھائیوں یعنی گونگے ، بہرے اور نابیناؤں کے لئے 27 ، جیل کے قیدیوں کے لئے52 اور حج و عمرہ کرنے والوں کے لئے 19 ” نیک اعمال “  ہیں۔


Share