دار الافتا اہل سنت
*مفتی محمد ہاشم خان عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2023
( 1 ) پوسٹرز پر قرآنی آیات مختلف ڈیزائن میں لکھنا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کمپیوٹر پر محافل وغیرہ کے لئے مختلف پوسٹر بنائے جاتے ہیں ، کیا ان میں قرآنی آیات کو مختلف ڈیزائن میں لکھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر ان قیودات کا لحاظ رکھا جائے تو قرآنی آیات کو ڈیزائن میں لکھنے کی اجازت ہے :
( 1 ) قرآنی آیات رسمِ عثمانی کے مطابق ہوں اور کوئی حرف کم یا زیادہ نہ کیا جائے کہ رسمِ عثمانی توقیفی ہے جو نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تعلیم فرمودہ ہے اور اس کے باقی رکھنے پر اُمّت کا اجماع ہے۔
( 2 ) ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے کہ جاندار کی تصویر بَن جائے کہ اس میں آیاتِ قرآنی کا استخفاف ہے نیز اگر اس پوسٹر کو پرنٹ کیا گیا تو یہ تصویر کے حکم میں آنے کی وجہ سے بھی ناجائز ہو گا کہ جب کوئی ثبت ہو کر چَھپ جائے تو اس پر تصویر کا اطلاق ہوتا ہے اور بلا اجازتِ شرعی جاندار کی تصویر بنانا ، ناجائز و حرام ہے اور احادیث میں اس کی شدید وعیدات بیان ہوئی ہیں۔
( 3 ) اگر ان آیات کو لکھنے سے مقصود تلاوت ہو تو فونٹ اتنا چھوٹا ، مدہم ، باریک یا ملا ہوا نہ ہو کہ تلاوت کرنا مشکل ہو جائے کہ یہ مکروہ اور مقصد کے خلاف ہے البتہ اگر مقصود تبرک ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ اس کی نظیر آیات پر مشتمل تعویذ ہیں کہ ان کو باریک تحریر میں لکھنے کی بھی اجازت ہے کہ یہاں مقصود تبرک ہے اور وہ حاصل ہو رہا ہے ۔
( 4 ) لکھنے کا انداز یا جگہ ایسی نہ ہو جسے عرف میں بے ادبی سمجھا جاتا ہو مثلاً کسی حقیر چیز کی حکایت ہو یا بیک گراؤنڈ قرآنی آیت کے مناسب نہ ہو۔
یاد رہے! اگر ان قیودات کا لحاظ نہ رکھا جائے تو ڈیزائن بنانا ممنوع و ناجائز ہو گا۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 2 ) ”اللہ نبی پر درود پڑھتا ہے“ کہنا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ”اللہ نبی پر درود پڑھتا ہے“ کہنا کیسا؟اور اگر کسی نے ایساکہہ دیا تو ا س پر کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اللہ تعالیٰ نبی پر درود پڑھتا ہے ، اردو محاورے کے لحاظ سے کہنا درست نہیں۔ تفصیل یہ ہے کہ
درود کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس سے مراد رحمت نازل فرمانا ہوتا ہے اور جب اس کی نسبت فرشتوں کی طرف کی جائے تو اس سے مراد استغفار کرنا ہوتا ہے اور جب ا س کی نسبت عام مومنین کی طرف کی جائے تو اس سے مراد دعا کرنا ہوتا ہے اور بمعنی نزولِ رحمت درود کے لئے پڑھنے کا لفظ اردو محاورے میں استعمال نہیں ہوتا ، اس لئے درود پڑھنے کی نسبت خالقِ کائنات جل جلالہُ کی طرف درست نہیں بلکہ اس کے بجائے یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ درود بھیجتا ہے۔
لیکن اگر کسی شخص نے خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کی طرف پڑھنے کی نسبت کردی تو اس پر وہ حکمِ کفر یا گمراہی کا مستحق ہرگز نہیں ، بلکہ وہ گنہگار بھی نہیں ، فقط اردو محاورے کے لحاظ سے الفاظ درست نہیں ادا کرسکا۔ کفر و گمراہی اور گنہگار نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کلام کرنے کی نسبت ذات وحدہٗ لا شریک لہٗ کی طرف خود قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ اور اہلِ سنت کی تمام کتبِ عقائد میں متکلم ہونا اس کی صفت بیان کیا گیا ہے۔ مگر اس کا کلام انسانوں کی طرح زبان ولَب اور الفاظ و آواز کا محتاج نہیں ، اس کا کلام انسانوں کی عقل سے وراء ہے ، وہ اپنی شان کے مطابق کلام فرماتا ہے۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 3 ) وضو کرتے وقت ٹپکتے ہوئے قطروں سے کپڑوں کو بچانا
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ وضو کرتے وقت ٹپکتے ہوئے قطروں سے کپڑوں کو بچانے کا حکم کیوں دیا گیا ہے ؟اس کے متعلق رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
وضو کرنے میں اعضائے وضو سے ٹپکنے والے قطرے چونکہ مائے مستعمل ہوتے ہیں اور مائے مستعمل کے نجس ہونے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے ، اس لئے ان قطروں کو کپڑوں پر گرانے سے منع کیا گیا ہے ، اور اس بات کو آدابِ وضو میں سے شمار کیا گیا ہے کہ وضو کرنے والا اپنے کپڑوں کو وضو کے قطروں سے بچائے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ صحیح و معتمد و مفتیٰ بہ مذہب میں مائے مستعمل ناپاک نہیں ، لہٰذا اعضائے وضو سے ٹپکنے والے قطرے کپڑوں پر گرنے سے کپڑے ناپاک نہ ہوں گے۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 4 ) ظہر کی سنّتِ قبلیہ پڑھنے کے لئے وقت تنگ ہوتو؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ہم مسجد میں ظہر کی نماز پڑھنے کےلئے گئے اور جماعت کھڑی ہونے میں دو تین منٹ باقی ہیں کہ سنتِ قبلیہ پڑھنے کی صورت میں ایک دو رکعت نکل جانے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں میرے لئے کیا حکمِ شرعی ہے کہ مجھے سنتیں پڑھ کر جماعت میں شامل ہونا چاہئے یا بغیر سنتیں پڑھے ہی جماعت میں شامل ہو جاؤں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دریافت کی گئی صورت میں ظہر کی سنتوںمیں مشغولیت کے سبب جبکہ آپ کو ایک دو رکعت فوت ہونے کااندیشہ ہے تو پھر آپ کو سنتیں پڑھنے کی اجازت نہیں بلکہ سنتیں پڑھے بغیر فوراً ہی جماعت میں شامل ہو جانا آپ کے لئے ضروری ہے۔
مسئلے کی تفصیل :
فجر کی سنتوں کے علاوہ دیگر سنتوں کے حوالے سے حکم یہ ہے کہ سنتیں پڑ ھ کر اگر امام کے پہلی رکعت کے رکوع میں جانے سے قبل جماعت میں شرکت ممکن ہو تو پہلے سنتیں ادا کرے پھر جماعت میں شریک ہو۔ لیکن اس صورت میں سنتوں کی ادائیگی کے لئے جماعت کی صف میں کھڑا ہونا جائز نہیں بلکہ اپنے گھر پڑھے یا بیرونِ مسجد کسی پاک جگہ پڑھے اور یہ ممکن نہ ہو تواگر اند ر جماعت ہوتی ہو تو صحن میں پڑھے اور اگر اس مسجد میں اندر باہر دو درجے نہ ہوں تو ستون وغیرہ کی آڑ میں پڑھے کہ اس میں اور صف میں حائل ہو جائے۔اور اگر سنتوں کی مشغولیت کے سبب رکعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر سنتیں پڑھنے کی اجازت نہیں بلکہ سنتیں پڑھے بغیر فوراً ہی جماعت میں شامل ہو جانا ضروری ہے اور ان سنتوں کو فرض کے بعد دو رکعت سنتوں کی ادائیگی کے بعد پڑھ لیں۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شیخ الحدیث و مفتی دارُالافتاء اہلِ سنّت ، لاہور
Comments