اپنےبزرگوں کو یادرکھئے

* مولاناابوماجد محمد شاہد عطاری مدنی

ماہنامہ فروری2022

رجبُ المرجب اسلامی سال کا ساتواں مہینا ہے۔ اس میں جن صحابۂ کرام ، اَولیائے عُظَّام اور عُلَمائے اسلام کا یومِ وصال یا عرس ہے ، ان میں سے69کا مختصر ذکر ماہنامہ فیضانِ مدینہ رجبُ المرجب 1438ھ تا 1442ھ کے شماروں میں کیاجاچکا ہے ، مزید 11 کا تعارُف ملاحَظہ فرمائیے :

صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان :

(1)حضرت علی بن ابوالعاص  رضی اللہُ عنہما  حضورنبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پیارے نواسے ، حضرت زینب بنتِ رسول اللہ کے صاحبزادے تھے ، بنی غاضِرہ کے قبیلے میں آپ نے دودھ پیا تھا ، ان کی ایک بہن تھیں جن کا نام حضرت اُمامہ تھا ، ان دونوں نے بارگاہِ نبوی میں پرورش پائی ، حضرت علی فتحِ مکّہ کے دن نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے ، ایک قول کے مطابق آپ نے جنگِ یرموک (15ھ) میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ [1]

* شہدائے جنگِ یرموک : یرموک کے مقام پر حضرت ابوعبیدہ بن جَرّاح  رضی اللہُ عنہ  کی کمانڈ میں مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان رجب 15ھ کو جنگِ یرموک ہوئی جس میں رومیوں کی تعداد 6 سے 7 لاکھ جبکہ مسلمان صرف 41ہزار تھے ، اس میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ، دشمن کے ایک لاکھ 5 ہزار فوجی مارے گئے اور 4ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ [2]

اولیائے کرام رحمہمُ اللہ السَّلام :

(2)نبیرۂ غوثُ الاعظم حضرت شیخ رکنُ الدّین عبدُالسّلام جیلانی بن شیخ عبدُالوہاب جیلانی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 548ھ کو ہوئی اور وصال 3رجب 611ھ کو بغداد میں فرمایا ، مقبرہ حلبہ میں دفن کئے گئے ، فقہِ حنابلہ کے مفتی ، مدرسۂ غوثُ الاعظم کے مُدرّس اور خاندانِ غوثیہ کی املاک کے مُتوَلّی تھے۔ [3]

(3)شاہِ ولایت ، حضرت شرفُ الدّین سیّد حسین نقوی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت653ھ کو سہودرا ملتان میں ہوئی اور وصال 21رجب783ھ کو امروہہ (یوپی) ہند میں فرمایا۔ درگاہِ حضرت  شاہ ولایت امروہہ دعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے۔ اس درگاہ میں موجود بچھو آپ کی دعا سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے۔ آپ خاندان سادات نقوی امروہہ کے جدِّ امجد ، سلسلہ ٔسہروردیہ کے شیخِ طریقت ، ولیِّ کامل اور صاحبِ کرامات ہیں۔ [4]

(4)شمسُ الآفاق حضرت قاری سیّد شمسُ الدین قادری بندگی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت بدخشاں (افغانستان یاتاجکستان) کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی اورلاہورمیں 11رجب المرجب 1021ھ کو وفات پائی۔ مزار جی او آر ون گالف روڈ لاہور میں ہے۔ آپ حافظِ قراٰن ، خوش اِلحان قاری ، علومِ دینیہ کے ماہر ، سلسلۂ قادریہ کے عظیم شیخِ طریقت ، غریب پَروَر و خُدا ترس اور غیّور طبیعت کے مالک تھے۔ [5]

(5)قادری بزرگ حضرت پیر سیّد عبدُالحلیم قادری اُکلیسَری  رحمۃُ اللہِ علیہ  خاندانِ غوثِ اعظم کے فرزند ، ولیِّ کامل ، مؤثر شخصیت ، صاحبِ کرامات تھے ، سینکڑوں غیرمسلم آپ کے دستِ اَقدس پر اسلام لائے ، آپ کا وصال یکم رجب 1005ھ کو ہوا ، مزار قصبہ اکلیسر گجرات ہند میں ہے۔ [6]

(6)بانیِ خانقاہِ معلیٰ شکریلہ شریف حضرت خواجہ سیّد غلام رسول شاہ بخاری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت سعادت پور (نزد شکریلہ ، ضلع گجرات) میں 1250ھ کو ہوئی اور 13 رجب 1336ھ کو وصال فرمایا ، مزار نہراپر جہلم کے کنارے شکریلہ شریف (تحصیل عالمگیر ضلع گجرات) میں ہے ، آپ علومِ اسلامیہ سے بہرور ، حُسنِ ظاہری و باطنی سے متصف ، قوتِ جسمانی و روحانی کے جامع ، مرید و خلیفہ خواجہ شمسُ العارفین اور کثیرُ الفیض بزرگ ہیں۔ [7]

علمائے اسلام رحمہم اللہ السَّلام :

(7)استاذُالعلماء حضرت مولانا حسن دین اخلاصی چشتی  رحمۃُ اللہِ علیہ  1169ھ کو موضع اخلاص(نزدپنڈی گھیب ، ضلع اٹک) میں پیدا ہوئے اور 18 رجب 1236ھ کو وفات ہوئی ، مزار قبرستان اخلاص میں ہے۔ آپ عُلوم و فنون کے جامع ، صاحبِ طریقت ، عظیم مدرِّس اور کئی جیّد عُلَما کے استاذ ہیں۔ [8]

(8)واعظِ شیریں بیاں حضرت مولانا محمد یار فریدی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1300ھ کو گڑھی اختیار خان (نزد خانپورضلع رحیم یار خان) کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی اور 14 رجب 1367ھ کو وصال فرمایا ، آپ فارغُ التحصیل عالمِ دین ، حضرت خواجہ غلام فرید کے مرید و تربیت یافتہ ، مجازِ طریقت سلسلۂ چشتیہ فریدیہ ، صاحبِ دیوان صوفی شاعر ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی زیارت سے مشرّف اور سحر بیان خطیب تھے ، آپ نے عَرَبی ، اُردو ، فارسی اور سرائیکی میں اشعار لکھے ، آپ کا “ دیوانِ محمدی “ مطبوع ہے۔ [9]

(9)مجاہدِ ختمِ نبوت حضرت مولانا محمدحسن فیضی  رحمۃُ اللہِ علیہ  چکوال (پنجاب) کے مشہور عالمِ دین ، فاضلِ علومِ اسلامیہ ، عربی ادیب و شاعر ، مدرس جامعہ نعمانیہ لاہور ، کئی کُتب کے مصنف اور فتنۂ قادیانیت کی بھرپور انداز میں سرکوبی کرنے والے علمائے اہلِ سنّت میں شامل تھے۔ آپ کی پیدائش 1276ھ اور وصال 5رجب1319ھ کو ہوا ، مزار مبارک بھی ضلع چکوال میں ہے۔ [10]

(10)مجازِطریقت حضرت شیخ محمد ابراہیم بیکانیری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1284ھ کوحسین پور (مظفراللہ نگر) ہند میں ہوئی اور 18رجب1366ھ کو بیکانیر ہند میں وصال فرمایا۔ آپ دینی و دنیاوی علم سے آراستہ ، بیکانیر کے جج و چیف جج ، اُردو و فارسی زبان کے صاحب دیوان (ثنائے محبوب خالق) شاعر اور خلیفۂ امیرِ ملت تھے۔ [11]

(11)استاذُالوقت حضرت مولانا سیّد عینُ القُضَاۃ  حسینی حیدرآبادی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1274ھ میں حیدر آباد دکن کے ایک علمی گھرانےمیں ہوئی اور 2رجب1343ھ میں لکھنؤ (یوپی) ہند میں وصال فرمایا ، تدفین مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں ہوئی ، آپ علّامہ عبدُالحی فرنگی محلی کے اہم شاگرد ، علومِ معقول و منقول کے ماہر عالمِ دین ، تجوید و قراءتِ قراٰن میں مدرسہ فرقانیہ کو عروج تک لے جانے والے ، نقشبندیہ سلسلے کے صوفی بزرگ ، زہد و تقویٰ کے پیکر اور ہر سال عید میلادُ النبی پر کھانے کا وسیع اہتمام کرنے والے تھے۔ [12]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکن شوریٰ و نگران مجلس المدینۃ العلمیہ ، (اسلامک ریسرچ سینٹر)کراچی



[1] تاریخ مدینہ دمشق ، 43 / 8

[2] اسد الغابۃ ، 1 / 60 ، فتوح الشام ، 1 / 150 ، 201 ، 217

[3] اتحاف الاکابر ، ص367

[4] اللہ والے کلیات مناقب ، ص370 ، ماہنامہ وابستہ دہلی ، فروری 2015ء ، ص1

[5] انسائیکلوپیڈیااولیائے کرام ، 1 / 150 تا 152

[6] تذکرۃ الانساب ، ص110

[7] فوز المقال فی خلفائےپیرسیال ، 7 / 177تا194

[8] تذکرۂ عُلماء اہل سنّت ضلع اٹک ، ص64

[9] تذکرۂ علمائے اہل سنت وجماعت لاہور ، ص357 ، دیوانِ محمدی ، ص14 ، 21

[10] تذکرہ علمائے اہل سنت ضلع چکوال ، ص96 تا 100 ، مولانا فیضی کا قصیدہ مہملہ ، ص2

[11] تذکرہ خلفائے امیرِ ملّت ، ص144

[12] ممتاز علمائے فرنگی محلی لکھنؤ ، ص331 ، تذکرۂ علمائے حال ، ص221


Share