احکام تجارت

* مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

ماہنامہ فروری2022

نفع کی شرح طے کئے بغیر انویسٹمنٹ کرنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے کسی کو دو لاکھ روپے دئیے ہوئے ہیں وہ مجھے کبھی چالیس ہزار روپے اور کبھی پچاس ہزار روپے نفع دیتا ہے کیا یہ سود ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : اگر اس ڈیل کی حقیقت یہ ہو کہ جو دو لاکھ روپے آپ نے دئیے ہیں وہ اس پر بطورِ قرض برقرار رہیں گے اور اس پر یہ نفع آپ کو ملتا رہے گا اور جب رقم لینا ہو تو مکمل رقم واپس مل جائے گی تو یہ سود کی صورت بنے گی۔ اگرچہ یہ رقم انویسٹمنٹ کے نام پر دی جائے ، اگرچہ فکس نفع سے بچنے کے لئے ماہانہ نفع کبھی کبھی کم زیادہ کر لیا جائے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : “ العبرة في العقود للمعاني لا للألفاظ “ ترجمہ : عقود میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے الفاظ کا نہیں۔     (فتاویٰ عالمگیری ، 5 / 2)

کاروبار کیلئے انویسٹمنٹ ہو تو شراکت کے بنیادی اصولوں کے تحت رقم لے کر لگائی جاتی ہے ، فریقین اپنے اپنے راس المال (Capital) کا تعین کرتے ہیں ، کام شروع ہونے پر حساب کتاب رکھتے ہیں ، نفع و نقصان کے تحت شراکت چلتی ہے ، نقصان ہو تو شریک نقصان میں حصہ دار ہوتا ہے ، مزید بھی کئی شرائط ہیں جو پوری کی جاتی ہیں لیکن جب ان چیزوں سے غرض نہیں ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ یہ شراکت اور کاروباری معاہدہ نہیں بلکہ قرض لے کر نفع دینے کا معاہدہ ہے اور ناجائز ہے۔

فتح القدیر میں ہے : “ فعساہ لا یخرج الا قدرالمسمی فیکون اشتراط جمیع الربح لاحدھما علی ذلک التقدیر اشتراطہ لاحدھما یخرج العقد من الشرکۃ الی قرض او بضاعۃ “ ترجمہ : ہوسکتا ہے کہ جتنا نفع ایک کے لئے مقرر کیا ہے ٹوٹل نفع اتنا ہی ہو ، اس صورت میں یہ سارا نفع ایک شریک کے لئے مقرر کرنا ہوگا اور یہ عقد شرکت سے نکل کر قرض یا بضاعت میں چلا جائے گا۔ (فتح القدیر ، 5 / 402)

پوچھی گئی صورت میں جائز طریقے سے معاہدہ کرنے کے بہت سے طریقے ہیں ان میں سے ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ جس چیز کی دکان ہے اس میں اس سے کہیں کہ ایک آئٹم میں ہم کام کرتے ہیں میرا پیسہ اور آپ کی محنت ہوگی اور نفع ہوا تو ہر ایک اتنے اتنے فیصد نفع کا مالک ہوگا ، فریقین باہمی رضامندی سے نفع میں جو چاہیں فیصد اپنے لئے مقرر کر لیں کوئی قید نہیں۔ ایک کی محنت اور دوسرے کے پیسے پر ہونے والا کام مُضاربت کہلاتا ہےجس کے پیسے ہیں اس کو رب المال اور جس نے صرف کام کرنا ہے اسے مضارب کہتے ہیں۔ لہٰذا جب یہ عقد مضاربت کا ہو تویہاں مضاربت کے اصول فالو کرنا ہوں گے۔ ایک آئٹم میں کیسے کام ہو سکتا ہے اس کی مثال یوں بنے گی کہ مثلاً اس کی کریانہ کی دکان ہے آپ اس کو رقم دے دیں اور کہیں کہ اس رقم سے آٹے کا کام کرواس کا الگ سے حساب کتاب رکھو کہ اتنا آٹا آیا ، اتنے کا فروخت ہوا ، اتنے اخراجات ہوئے اور اتنا نفع ہوا وغیر ذٰلک۔

واضح رہے کہ اگر اس میں نقصان ہوتا ہے تو وہ نقصان اولاً تو نفع سے پورا ہوگا اور اگر نفع سے بھی پورا نہ ہو تو پھر وہ نقصان آپ (رب المال) کو برداشت کرنا ہوگا۔

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرّحمہ لکھتے ہیں : “ مالِ مضاربت سے جو کچھ ہلاک اور ضائع ہوگا وہ نفع کی طرف شمار ہوگا ، راس المال میں نقصانات کو نہیں شمار کیا جاسکتا۔ مثلاً سو روپے تھے تجارت میں بیس روپے کا نفع ہوا اور دس روپے ضائع ہوگئے تویہ نفع میں منہا کئے جائیں گے یعنی اب دس ہی روپے نفع کے باقی ہیں ، اگر نقصان اتنا ہوا کہ نفع اس کو پورا نہیں کرسکتا مثلاً بیس روپے نفع کے ہیں اور پچاس کا نقصان ہوا تو نقصان راس المال میں ہوگا۔ مضارب سے کل یا نصف نہیں لے سکتا کیونکہ وہ امین ہے اور امین پر ضمان نہیں اگرچہ وہ نقصان مضارب کے ہی فعل سے ہوا ہو۔ ہاں اگر جان بوجھ کر قصداً اس نے نقصان پہنچایا مثلاً شیشہ کی چیز قصداً پٹک دی اس صورت میں تاوان دینا ہوگا کہ اس کی اسے اجازت نہ تھی۔ “ (بہارِ شریعت ، 3 / 19)

اسی طرح اگر ایک سے زیادہ آئٹمز میں یا پورے کام میں شراکت یا مضاربت کرنا چاہیں تو اس کا بھی طریقہ کار موجود ہے۔ لیکن اس کیلئے تمام تر شرعی تقاضے پورے کرتے ہوئے معاہدہ کرنا ضروری ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

غیر مسلم سے لاٹری خریدنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک خالص غیر مسلم کابینک ہے جس میں کسی مسلمان کا حصہ نہیں ہے۔ اس بینک کی طرف سے ایک لاٹری ٹکٹ ہے ، جو کاغذ کی صورت میں ہوتا ہےا س ٹکٹ پر ایک سیریل نمبر لکھا ہوتا ہے اور ایک مخصوص عرصے کے بعدکمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی ہوتی ہے ، جس کا سیریل نمبر نکل آیا اس کو بہت بڑی انعامی رقم ملتی ہے اور جن افراد کا سیریل نمبر نہیں نکلا ، ان کے پیسے ضائع ہوجاتے ہیں۔ اس بینک سے کسی مسلمان کا لاٹری خریدنا ، کیسا ہے؟نیز اگر لاٹری خرید لی ، تو اس رقم کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟حلال ہے یا حرام؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : مذکورہ لاٹری خالص جوا ہے اور شرعی قوانین کے اعتبار سے جوا ، ناجائز و حرام ہے۔ جس مسلمان نے اس میں حصہ لیا اس پر توبہ واجب ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ غیر مسلم کے ساتھ مسلمان کا اس طرح جوا کھیلنا ، جس میں مسلمان کی رقم ضائع ہونے کا امکان ہےیا مسلمان کی رقم میں نقصان واقع ہوگا ، جائز نہیں ہے ، البتہ غیر مسلم کی طرف سے لاٹری میں جو رقم ملتی ہے وہ بغیر کسی دھوکے و فراڈ کے ہوتی ہے اور وہ اپنی رضا مندی کے ساتھ دے رہا ہوتا ہے ، لہٰذا وہ رقم حلال ہو گی ، البتہ ایسی رقم کو بغیر جوئے کی رقم سمجھتے ہوئے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ لہٰذا بیان کردہ صورت میں خالص غیر مسلم بینک سے لاٹری خریدنا ، جائز نہیں ہے اور خریدنے والے پر توبہ و استغفار لازم و ضروری ہوگا اور آئندہ اس طرح کی لاٹری خریدنے سے بچے ، لیکن اس لاٹری سے ملنے والی رقم میں چونکہ دھوکا اور فراڈ شامل نہیں ہے اور اس میں غیر مسلم بینک اپنی رضا مندی سے اضافی رقم دے رہا ہوتا ہے ، لہٰذا یہ رقم حلال ہو گی۔

خالص کفار سے لاٹری خریدنے کے متعلق اور لاٹری سے حاصل شدہ مال کے متعلق فتاویٰ فیض الرسول میں ہے : “ لاٹری ایک قسم کا جوا ہےاور جوا ، حرام ہے۔ جو شخص لاٹری کا ٹکٹ خریدےاس پر توبہ و استغفار لازم ہے ، لیکن اگر کسی کو اس طرح کا روپیہ مل گیا ہو ، تو حلال ہے۔ “ (فتاویٰ فیض الرسول ، 2 / 399)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محقق اہلسنت دار الافتاء اہل سنت نور العرفان ، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code