بڑےبول مت بولئے

ماہنامہ فروری2022

از : شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ

حضرت سیّدناعمربن عبدالعزیز  رحمۃُ اللہِ علیہ  نےاپنےبیٹےعبدالملک کونصیحت بھراایک خط روانہ فرمایاجس میں ایک نصیحت یہ بھی تھی : اپنی گفتگو کے ذریعے فخر کرنے یعنی بڑے بول بولنے اور خودپسندی سے بچتے رہو۔ (حلیۃ الاولیاء ، 5 / 310) اےعاشقانِ رسول! ہم سے جوبھی اچھا کام ہوتا ہے وہ صرف اللہ پاک کی رحمت اوراس کےفضل ہی سے ہوتاہے ، اس میں ہمارا اپناکوئی کمال نہیں ہوتا ، مگر بعض لوگ مختلف مواقع پر فَخرِیَہ باتیں کرتے اور اپنے بارے میں بڑے بول بولتے نہیں تھکتے۔ مثلاً ’’ہم نے جو دین کا کام کیا ہے ایساکبھی کسی نےنہیں کیا ، میں نے جوکتاب لکھی ہےایسی کتاب کبھی کسی نےنہیں لکھی یاایسی کتاب کوئی لکھ کر تو دکھائے ، میرےبیان کے دوران توایک آدمی بھی اٹھ کر نہیں جاتا ، اس کےکام کی ہمارےکام کے آگے کوئی  حیثیت ہی نہیں! میرے علم کے آگےفلاں کےعلم کی حیثیت ہی کیاہے؟ وہ توابھی بچہ ہے ، ہم تواس میدان کےپُرانےکھلاڑی ہیں وغیرہ ، ‘‘ اس طرح کےکئی بڑے بول ہمارےہاں عام طورپرلوگ بول دیتےہیں جوکہ انہیں نہیں بولنےچاہئیں ، یادرہےکہ تکبرکےمختلف اسباب اور انداز وغیرہ حُجّۃُ الاسلام حضرت امام محمد بن محمد بن محمد غزالی  رحمۃُ اللہِ علیہ  نےاپنی کتاب “ احیاء العلوم “ میں بیان فرمائےہیں ، چنانچہ آپ  رحمۃُ اللہِ علیہ  زبان کےذریعے تکبرکےتحت لکھتےہیں : ’’مثلاً ایک عبادت گزار فخر کے طور پراوردیگرعبادت گزارلوگوں کےبارےمیں زبان درازی کرتےاوران کی عیب جوئی کرتےہوئے کہتاہےکہ فلاں عبادت گزار ہے کون؟ اس کا عمل کیا ہے؟ اسے بُزُرگی کہاں سے ملی؟ میں نے اتنے عرصے سے نفل روزہ نہیں چھوڑا ، نہ عبادت کےسبب راتوں کو سویا ، روزانہ ایک مرتبہ قراٰنِ کریم  ختم کرتا ہوں جبکہ فُلاں شخص سحری تک سویا رہتا ہےاور تلاوت ِقراٰن بھی زیادہ نہیں کرتا۔ فلاں آدمی نے مجھے تکلیف دینا چاہی تو اس کا بیٹا مرگیا یا مال لُٹ گیا یا وہ بیمار ہوگیا وغیرہ ، اس طرح دَبے لفظوں میں اپنی کرامت کا بھی دعوٰی کررہاہوتا ہے ، یوں ہی ایک عالِم فخر کرتے ہوئے کہتا ہے : میں مختلف فُنُون کا جامع ہوں ، حقائق سے آگاہ ہوں ، میں نے مشائِخِ کِرام میں سےفلاں فلاں کو دیکھا ہے ، لہٰذا تُو کون ہے؟ تیری فضیلت اورتیری اوقات ہی کیا ہے؟ تونے کس سے ملاقات کی ہے اورکس سے حدیث کی سماعت کی ہے؟ یہ تمام باتیں وہ اس لئے کرتا ہے کہ سامنے والے کو حقیر اورخودکو عظیم قرار دے۔ ‘‘(احیاء العلوم ، 3 / 430ملخصاً)بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ’’ وہ اس طرح کہتے ہیں کہ اپنا مرید ہے ، میرا شاگر د ہے۔ “ مجھے(یعنی سگِ مدینہ کو)یہ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ہاں ضرورتاً بولنا الگ بات ہے یا پھر اگر کوئی بہت ہی پہنچی ہوئی ہستی ہو جیساکہ میرے مرشدِ کریم غوثِ پاک حضرتِ  شیخ عبدالقادر جیلانی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کہ انہوں نے فرمایا : “ مُرِیْدِیْ لَا تَخَفْ اَللہُ رَبِّیْ یعنی میرے مریدمَت خوف کر ، اللہ پاک میرا رب ہے۔ “ ( مدنی پنج سورہ ، قصیدہ ٔ غوثیہ ، ص264)تو یہ ان کو جچتا ہے ، ان کا اس طرح کی بات کرنا کوئی معیوب نہیں ہے۔ بعض لوگ کسی کو دعا دیتے ہوئےکہتے ہیں کہ “ جا بچّہ! جابیٹا! جابھائی! میری دعا تیرے ساتھ ہے ، “ مجھےتو یہ جملے بولنا بھی کچھ مناسب نہیں لگتے ۔ اَلحمدُ لِلّٰہ اس طرح بولنے کی میری عادت نہیں ہے۔ اگرکسی کو دعا دینی بھی ہےتو یوں کہنا چاہئے کہ اللہ کریم آسانی کرے ، اللہ خیر کرے ، اِنْ شَآءَ اللہ سب بہتر ہوجائے گا۔ البتہ یہ کہنا کہ “ میری ماں کی دعا میرے ساتھ ہے “ یہ الگ چیز ہے ، اس میں حرج نہیں۔ اللہ کریم ہمیں دیگرگناہوں کےساتھ ساتھ زبان کی آفتوں سےبھی محفوظ فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ : یہ  مضمون 4 رَجَبُ المُرجب 1441 ھ مطابق 28فروری 2020 ء  کو عشا کی نماز کے بعد ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرکے

امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  سے نوک پلک سَنورواکر پیش کیا گیا ہے۔


Share