باتیں میرے حضور کی
فرشتوں کے سردار کو اصل شکل میں دیکھا (دوسری اور آخری قسط)
* مولاناکاشف شہزاد عطّاری
ماہنامہ فروری2022
رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے رب سے ملنے والی خصوصی شانوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے فرشتوں کے سردار حضرت سیّدنا جبریلِ امین علیہِ الصّلوٰ ۃ ُ والسّلام کو 2 مرتبہ ان کی اصلی صورت میں مُلاحَظہ فرمایا۔ [1]
اس شانِ مصطفےٰ کے تحت کچھ باتیں گزشتہ قسط میں عرض کی گئی تھیں ، کچھ مزید ملاحظہ فرمائیے :
فرشتوں کو اصلی صورت میں دیکھنا : شیخُ الاسلام مخدوم محمد ہاشِم ٹھٹھوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ہمارے پیارے نبی ، محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام اور اولیائے عِظام رحمۃُ اللہِ علیہم سمیت کوئی انسان فرشتوں کو ان کی اصلی صورت میں نہیں دیکھ سکتا ، اگر دیکھ لے تو اُسی وقت مرجاتا ہے۔ سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جبریلِ امین علیہِ الصّلوٰ ۃ ُ والسّلام کو ان کی اصلی صورت میں 2مرتبہ ملاحَظہ فرمایا : ایک بار پہلی وحی نازل ہونے کے بعد مکۂ مکرّمہ کے ایک قریبی پہاڑپر جبکہ دوسری مرتبہ شبِ معراج سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی کے قریب۔ البتّہ فرشتے جب انسان وغیرہ کی صورت اختیار کرکے آئیں تو اس وقت انسانوں میں سے خاص حضرات جیسے انبیا ، صحابہ ، اولیا اور صالحین انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ [2]
بارگاہِ رسالت میں حاضری کی تعداد : حضرت سیّدنا جبریلِ امین علیہِ الصّلوٰ ۃ ُ والسّلام حضرت آدم علیہ السّلام کے پاس 12مرتبہ ، حضرت ادریس علیہ السّلام کےپاس4مرتبہ ، حضرت نوح علیہ السّلام کے پاس 50مرتبہ ، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے پاس 42مرتبہ ، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے پاس 400 مرتبہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے پاس 10مرتبہ حاضر ہوئے جبکہ سردارِ انبیا ، محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں 24 ہزار مرتبہ حاضری دی۔ [3]
حاضری کی کثرت کا سبب : اے عاشقانِ رسول! حضرت جبرائیل علیہ السّلام سمیت تمام فرشتے اللہ پاک کے حکم سے ہی نازل ہوتے ہیں ، جیسا کہ ایک موقع پر جبریلِ امین نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا تھا جسے قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمایا گیا : (وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَۚ-) ترجمۂ کنزُ العِرفان : اور ہم فرشتے صرف آپ کے رب کے حکم سے ہی اترتے ہیں۔ [4] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حضرت سیّدنا جبرائیل علیہ السّلام کی بارگاہِ رسالت میں 24 ہزار مرتبہ حاضری یقیناً اپنے پاک پروردگار کےحکم سے ہی تھی لیکن بعض عاشقانِ رسول نے حاضری کی اس کثرت کا نہایت ایمان افروز اور عشق و مَحبّت سے بھرپور مقصد بیان فرمایا ہے۔ خلیفۂ اعلیٰ حضرت ، مَدّاحُ الحبیب مولانا جمیلُ الرّحمٰن قادری رضوی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں :
نہ لگتا تھا سِدْرَہ پہ جبریل کا دِل
گوارا نہ تھی ان کو فُرقت نبی کی[5]
جبریلِ امین کی تلاش : جبریلِ امین علیہِ الصّلوٰ ۃ ُ والتّسلیم نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : میں نے مشرق و مغرب ساری زمین میں تلاش کرلیا لیکن نہ تو محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے افضل کوئی انسان پایا اور نہ ہی مجھے بنو ہاشم سے بہتر کوئی خاندان نظر آیا۔ [6]
بُرے خاتمے کا خوف دور ہوگیا : رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت جبرائیل علیہ السّلام سے پوچھا : هَلْ اَصَابَكَ مِنْ هٰذِهِ الرَّحْمَةِ شَيْءٌ یعنی ہماری رحمت سے تمہیں بھی کچھ حصّہ ملا ہے؟ جبریلِ امین نے عرض کیا : جی ہاں ، پہلے مجھے برے خاتمے کا خوف رہتا تھا ، پھر جب (آپ پر نازل ہونے والے قراٰنِ کریم میں)اللہ پاک نے ان الفاظ سے میری تعریف فرمائی : ( ذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَكِیْنٍۙ(۲۰) ) (ترجمۂ کنزالعرفان : جو قوت والا ہے ، عرش کے مالک کے حضور عزت والا ہے۔ )[7] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) تو مجھے امان حاصل ہوگئی۔ [8]
حاجتِ جبرائیل علیہ السّلام : معراج کی رات جب حضرت سیّدنا جبریلِ امین علیہِ الصّلوٰ ۃ ُ والسّلام سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی پر رُک گئےاور مزید آگے جانے سے معذرت کی تو معراج کے دولہا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : يَاجِبْرِيْلُ! هَلْ لَكَ مِنْ حَاجَةٍ؟یعنی اے جبریل! کیا تمہاری کوئی حاجت ہے(جسے میں اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کروں)؟ جبريلِ امین عرض گزار ہوئے : سَلِ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لِيْ اَنْ اَبْسُطَ جَنَاحِيْ علَى الصِّرَاطِ لِاُمَّتِكَ حَتّٰى يَجُوْزُوْا عَلَيْهِ یعنی اللہ پاک سے میرے لئے سوال کیجئے کہ میں آپ کی اُمّت کے لئے پل صراط پر اپنا پر بچھادوں تاکہ وہ اس پر سے گزر کر پل صراط پار کرلیں۔ [9]
سچّے عاشقِ رسول ، اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی نعتیہ شاعری عین شریعت کے مُطابِق اور قراٰن و حدیث کی ترجُمانی پر مشتمل ہوتی ہے۔ ا س روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں :
اہلِ صِراط رُوحِ امیں کو خبر کریں
جاتی ہے اُمّتِ نبوی فرش پر کریں[10]
ایک اور مقام پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں :
پُل سے اُتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو
جِبریل پر بچھائیں تو پَر کو خبر نہ ہو[11]
حاجتِ جبرائیل کہاں ہے؟ سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جب اللہ پاک کا خاص قُرب اور نزدیکی حاصل ہوئی تو اللہ کریم نے اپنی بارگاہ کی عظمت و ہیبت اور اپنے خطاب کی لذت کے ذریعے آپ کو حاجتِ جبریل بُھلادی اور پھر آپ پر فضل وکرم فرماکر یاد دلاتےہوئےفرمایا : وَاَيْنَ حَاجَةُ جِبْرِيْل یعنی جبریلِ امین کی حاجت کہاں ہے؟رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عرض گزار ہوئے : اَللّٰهُمَّ اِنَّكَ اَعْلَمُ یعنی اے اللہ ! تو بہتر جانتا ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : اے محمّد! میں نے جبریلِ امین کی عرض کو قبول کرلیا ہے لیکن یہ اس کے حق میں قبول ہے جو آپ سے مَحبّت کرے اور آپ کی صحبت اختیار کرے۔ [12]
عاملِ سنّت کی خوش نصیبی : سیرتِ حلبیہ کے مصنّف حضرت علامہ نورُ الدّین علی بن ابراہیم شافعی حَلَبی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : میں یہ کہتا ہوں کہ اللہ پاک کے فرمان : مَنْ صَحِبَکَ یعنی جو تمہاری صحبت اختیار کرے ، اس سے مراد غالباً یہ ہے کہ جو آپ کے دین کی اِتّباع کرے اور آپ کی سنّتوں کا عامل ہو۔ جبریلِ امین علیہ السّلام کی یہ خواہش کہ میں آپ کی اُمّت کے لئے پل صراط پر اپنا پر بچھانا چاہتا ہوں ، اس میں اُمّت سے مراد ایسے ہی خوش نصیب مسلمان ہیں جو سنّتوں کے عامل ہوں۔ [13]
دشمنِ صحابہ کی محرومی : اےعاشقانِ رسول!اللہ پاک نے حضرت جبریل علیہ السّلام کی حاجت کو پور اکرتے ہوئے انہیں اُمّتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں سے خاص افراد یعنی تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنے والوں کے لئے پل صراط پر اپنا پر بچھانے کی اجازت عطا فرمادی۔ یہ اعزاز اس شخص کو حاصل نہیں ہوگا جو اپنے ایمان کو اللہ پاک کی
اطاعت میں کوتاہی یا اس کی نافرمانی سے آلودہ کردے ، مثلاً وہ شخص جو صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان میں سے کسی کے ساتھ بغض اور دشمنی رکھے۔ [14]
اللہ کریم ہمیں تمام صحابۂ کرام و اہلِ بیتِ اطہار علیہمُ الرّضوان کی سچّی مَحبّت اور ادب نصیب فرمائے اور روزِ قیامت مصطفےٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے خیر و عافیت کے ساتھ پل صراط سے گزرنے میں کامیاب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
رضاؔ پُل سے اب وجد کرتے گزریے
کہ ہے رَبِّ ِسَلِّمْ صَدائے مُحَمَّد[15]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
[1] زرقانی علی المواہب ، 1 / 108 ، کشف الغمۃ ، 2 / 54
[2] فرائض الاسلام ، ص9
[3] اِرشاد الساری ، 1 / 101 ، تحت الحدیث : 2
[4] پ16 ، مریم : 64
[5] قبالۂ بخشش ، ص315
[6] کنز العمال ، 6 / 184 ، جزء : 11 ، حدیث : 31910
[7] پ30 ، التکویر : 20
[8] الشفا ، 1 / 17 ، نسیم الریاض ، 1 / 178
[9] سیرتِ حلبیہ ، 1 / 565 ، زرقانی علی المواہب ، 8 / 195
[10] حدائقِ بخشش ، ص98
[11] حدائقِ بخشش ، ص130
[12] مواہب لدنیہ ، 2 / 382 ، زرقانی علی المواہب ، 8 / 198
[13] سیرت حلبیہ ، 1 / 567
[14] زرقانی علی المواہب ، 8 / 198
[15] حدائقِ بخشش ، ص66
Comments