روشن ستارے

حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہُ عنہ  کی اہلِ بیتِ اطہار سے محبت

* مولانابلال حسین عطاری مدنی

ماہنامہ فروری2022

پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمان ہے : ہم اہلِ بیت کی محبت کو خود پر لازم کرلو! جو اللہ پاک سے اس حال میں ملے کہ ہم سے محبت کرتا ہو تو وہ ہماری شفاعت كے صدقے جنّت میں چلا جائے گا۔ [1]

اے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت! دورِ رسالت سے لےکر آج تک اُمّتِ مسلمہ اپنے نبی ، پیغمبرِ خدا ، حضرت محمدِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے گھرانے سے بےپناہ محبت کرتی آئی ہے ، ان عُشّاق میں ایک نمایاں نام کاتبِ وحی ، ہَادی و مَہدی (یعنی ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ) ، صاحبِ علم و حِلم(یعنی بُردبار) ، محبوبِ خدا و رسول ، رازدارِ مصطفےٰ ، صحابی ابنِ صحابی ، خالُ المؤمنین ، ماہرِ اُمورِ سیاست ، پہلے سلطانِ اسلام ، عرب کے کِسریٰ حضرت سیّدُنا امیرِ معاویہ  رضی اللہُ عنہ  کا بھی ہے ، کتبِ سیرت میں آپ کی اہلِ بیت سے محبت و تعظیم اور ان کی طرف رجوع لانےکے جابجا واقعات نظر آتے ہیں :

امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ سے محبت :

ایک موقع پر پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت امیرِ معاویہ  رضی اللہُ عنہ  سے فرمایا : اے معاویہ! کیا تم علی سے محبت کرتے ہو؟ حضرت امیرِ معاویہ  رضی اللہُ عنہ  نے عرض کی : اس ذات کی قسم جس کے سِوا کوئی معبود نہیں ، میں حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ [2]

حضرت امیرِ معاویہ  رضی اللہُ عنہ  کی امیرُالمؤمنین حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  سے محبت کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجئے :

* آپ خود بھی حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  کے اوصاف و کمالات سناتے اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیتے۔

* حاضرینِ محفل سے مولا علی کے شایانِ شان اشعار سنانے کا کہتے اور اس کے بدلے خوب انعام و اکرام فرماتے۔

* ایک مرتبہ آپ  رضی اللہُ عنہ  کی بارگاہ میں حضرت سیّدُنا علىُّ المرتضیٰ  رضی اللہُ عنہ  کا تذکرہ ہوا تو آپ نےفرماىا : خدا کى قسم! جب حضرت على  رضی اللہُ عنہ  کلام فرماتے تو آپ کی آواز میں شیر کی سی گرج ہوتی ، جب ظاہر ہوتے تو چاند کى طرح روشن ہوتے اور جب نوازتے تو بارش کى طرح بے انتہا عطا فرماتے ، بعض حاضرىن نے درىافت کىا کہ آپ افضل ہىں ىا حضرت على؟ فرماىا : حضرت على  رضی اللہُ عنہ  کے قدم بھى آلِ ابوسفىان سے بہتر ہىں۔ [3]

* بعض اوقات کوئی پیچیدہ مقدمہ درپیش ہوتا تو حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  کی بارگاہ میں رجوع کیا کرتے۔ [4]

* جب آپ  رضی اللہُ عنہ  کو امیرُالمؤمنین حضرت سيّدُنا علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہُ عنہ  کی شہادت کی خبر ملی تو نہایت افسردہ ہوئے ، رونے لگے اور فرمایا : لوگوں نے کس قدر فضل ، فِقْہ اور علم کھو دیا ہے![5]

* حضرت علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہُ عنہ  کی شہادت کے بعد آپ نے حضرت ضِرار  رضی اللہُ عنہ  سے حضرت علی کے اوصاف و کمالات بیان کرنے کا ارشاد فرمایا ، جب حضرت ضِرار نے حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  کے اوصاف بیان کئے تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں اور رِیش مبارک آنسوؤں سے تَر ہو گئی ، آپ آستین سے آنسو پونچھنے لگے ، حاضرین بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور رونے لگے۔ [6]

اصلاحِ نفس کے لئے اہلِ بیت کی بارگاہ میں رجوع :

سالہا سال تک مملکتِ اسلامیہ کے حاکم رہنے اور بحسن و خوبی اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کے باوجود بھی یادِ الٰہی اور امورِ آخرت سے غافل نہ رہے ، اور اپنی شخصیت کو بہتر سے بہترین بنانے کے سفر میں بھی پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے گھرانے کی طرف رجوع کیا چنانچہ ایک مرتبہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صِدّیقہ  رضی اللہُ عنہا  کو مکتوب روانہ کیا کہ مجھے وہ باتیں لکھ دیں جن میں میرے لئے نصیحت ہو۔ [7]

حسنینِ کریمین سے محبت کی چند جھلکیاں :

* حضرت امیرِ معاویہ  رضی اللہُ عنہ  جب بھی حسنینِ کریمین  رضی اللہُ عنہما  میں سے کسی سے ملاقات کرتے تو مَرحَباً وَاَهلًا بِاِبْنِ رَسُوْلِ اللهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یعنی “ خوش آمدید اے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بیٹے “ کہتے ہوئے ان کا استقبال کرتے اور ان حضرات کی بارگاہ میں نذرانے بھی پیش کرتے۔ [8]

* جب امام حسن  رضی اللہُ عنہ  آپ کے پاس آتے تو آپ  رضی اللہُ عنہ  انہیں اپنی جگہ بٹھاتے ، خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ، کسی نے پوچھا : آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا کہ امام حسن ہم شکل ِمصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہیں ، اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں۔ [9]

* آپ  رضی اللہُ عنہ  لوگوں کو حضرت امام حسین  رضی اللہُ عنہ  کی علمی مجلس کی خوبیاں بیان کرتے چنانچہ ایک مرتبہ ایک قریشی شخص سے فرمایا : جب تم مسجدِ نبوی میں جاؤ گے تو وہاں ایک ایسی مجلس دیکھو گے جس میں لوگ ہمہ تَن گوش ہو کر یوں باادب بیٹھے ہوں گے کہ جیسے ان کے سَروں پر پرندے بیٹھے ہوں ، جان لینا یہی حضرت سیّدنا ابوعبداللہ امام حسین  رضی اللہُ عنہ  کی مجلس ہے۔ نیز اس حلقے میں مذاق مسخری نام کی کوئی شے نہ ہو گی۔ [10]

* حضرت سیّدُنا امام حُسین  رضی اللہُ عنہ  کو بیش قیمت نذرانے پیش کرنے کے باوجود آپ ان سے مَعْذِرَت کرتے اور کہتے : فی الحال آپ کی صحیح خدمت نہیں کرسکا آئندہ مزید نذرانہ پیش کروں گا۔ [11]

وفات :

آپ  رضی اللہُ عنہ  کی وفات 60 ہجری میں ایک قول کے مطابق 22رجبُ المرجب کو ملکِ شام کے مشہور شہر “ دِمشق “ میں ہوئی۔ آپ کی نمازِ جنازہ حضرت ضَحّاک بن قَیس  رضی اللہُ عنہ  نے پڑھائی جبکہ تدفین بابُ الصّغیر دِمشق شام میں ہوئی۔ [12]

اللہ پاک ہمیں صحابۂ کرام و اہل بیتِ اطہار  علیہم الرّضوان  کی محبت میں زندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعہ المدینہ ، شعبہ ذمہ دار ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



[1] معجم اوسط ، 1 / 606 ، حدیث : 2230

[2] تاریخ ابن عساکر ، 59 / 139

[3] الناھیۃ ، ص59

[4] مؤطا امام مالك ، 2 / 259 ، حدیث : 1481

[5] البدایۃ و النہایۃ ، 5 / 634 ملتقطاً

[6] حلیۃ الاولیاء ، 1 / 126

[7] ترمذی ، 4 / 186 ، حدیث : 2422مختصراً

[8] الطبقات الکبیر لابن سعد ، 6 / 409-معجم الصحابۃللبغوی ، 5 / 370

[9] مراٰۃ المناجیح ، 8 / 461

[10] تاریخ ابن عساکر ، 14 / 179

[11] کشف المحجوب ، ص77ماخوذاً

[12] الثقات لابن حبان ، 1 / 232 ، 436


Share