مدنی مذاکرے کے سوال جواب

ماہنامہ فروری2022

(1)مِعراج کی رات اَنبیائے کرام علیہِم الصّلوٰۃ وَالسَّلام کی اِمامت

سُوال : کیا سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اَنبیائے کِرام  علیہِم الصّلوٰۃ وَالسَّلام  کی اِمامت فرمائی ہے ؟

جواب : سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے معراج کی رات بَیْتُ الْمُقَدَّس میں مسجدِ اَقصیٰ کے اندر اَنبیائے کِرام  علیہمُ  الصّلوٰۃ وَالسَّلام کی اِمامت فرمائی ہے۔ (نسائی ، ص81 ، حدیث : 448 ، مسند امام احمد ، 1 / 553 ، حدیث : 2324)

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِرّ ، عِیاں ہوں معنیِ اَوّل آخر

کہ دَست بستہ ہیں پیچھے حاضر ، جو سلطنت آگے کر گئے تھے

(حدائقِ بخشش ، ص232)

شعر کے اِس حصّے “ جو سلطنت آگے کر گئے تھے “ میں اَنبیائے کِرام  علیہمُ  الصّلوٰۃ وَالسَّلام  کی طرف اِشارہ ہے کہ وہ اپنی اپنی اُمَّت کے شہنشاہ تھے اور معراج کی رات پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے صفیں بنا کر کھڑے تھے۔ (مدنی مذاکرہ ، 13ربیع الاول 1441ھ)

(2)گُماں سے گزرے گزرنے والے

سُوال : ہم نے سنا ہے کہ اللہ پاک کو “ اوپر والا “ یا “ اللہ پاک عرش پر ہے “ یہ نہیں کہنا چاہئے جبکہ ہم نے یہ بھی سُنا ہے کہ مِعراج کی رات سرورِ کائنات  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  عرش پر اللہ پاک سے مُلاقات کے لئے تشریف لے گئے اور عرش اُوپر ہے تو اس کا کیا مَطلب ہے؟

جواب : پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک سے مُلاقات کے لئے عرش پر گئے یہ دُرُست ہے مگر اللہ پاک کا دِیدار کہاں ہوا اِس کا تذکرہ نہیں ہے۔ اعلیٰ حضرت ، امامِ اہل ِسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :

خِرَد سے کہہ دو کہ سر جُھکا لے ، گماں سے گزرے گزرنے والے

پڑے ہیں یاں خود جِہت کو لالے ، کسے بتائے کِدھر گئے تھے

(حدائقِ بخشش ، ص235)

شرحِ کلامِ رضا : خِرَد کا معنیٰ ہے عقل اور سمجھ ، گمان یعنی خیال ، جِہت کا معنیٰ ہے سَمت یا ڈائریکشن۔ شعر کا مطلب یہ ہوا کہ عقل سے کہہ دو کہ اب ہتھیار ڈال دے سوچے نہیں کیونکہ گزرنے والے خیال سے بھی وَراءُ الوریٰ (یعنی دُور سے دُور) ہو گئے ہیں ، بلکہ یہاں خود جہت اور سمت کو بھی لالے پڑے ہیں نہ اوپر نہ نیچے نہ دائیں نہ بائیں۔ اِس طرح پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جاگتی حالت میں اپنی مبارک آنکھوں سے اللہ پاک کی زیارت سے مُشَرَّف ہوئے ہیں (یعنی دیکھا ہے)۔ کس طرح دیکھا؟ یا کیسے دیکھا؟ یہ باتیں سوچنے کی نہیں بلکہ مان لینے کی ہیں۔ (مدنی مذاکرہ ، 4جمادی الاخریٰ 1440ھ)

(3)معراج کیوں ہوئی؟

سُوال : پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سفرِ معراج پر کیوں گئے؟

جواب : معراج آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا معجزہ ہے۔ آپ کے رب نے آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو بلایا اور اپنا مہمان بنایا ، اس لئےآپ سفرِ معراج پر تشریف لے گئے۔

تَبَارَکَ اللّٰہ! شان تیری ، تجھی کو زیبا ہے بے نیازی

کہیں تو وہ جوشِ لَنْ تَرَانی ، کہیں تقاضے وِصال کے تھے

(حدائقِ بخشش ، ص234)

شرحِ کلامِ رضا : اللہ پاک کی شانِ بے نیازی بھی کیا خوب ہے اور اُسی کو زیب دیتا ہے کہ ایک طرف حضرت سَیِّدُنا موسیٰ  علیہ السّلام  کوہِ طور پر عرض کرتے تھے : ( رَبِّ اَرِنِیْۤ) اے پروردگار! میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : (لَنْ تَرٰىنِیْ) یعنی اے موسیٰ! تم ہر گز نہیں دیکھ سکتے۔ (پ9 ، الاعراف : 143) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور دوسری طرف اللہ کے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  آرام فرمارہے ہیں کہ جبریل ِامین  علیہ السّلام اپنی کافوری آنکھیں محبوبِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مبارک تلووں سے مَل کر انہیں جگاتے ہیں۔ (مدارج النبوۃ ، ص92) یہ محبوب کی شان ہے۔ کلیم و حبیب میں فرق ہے۔

اُدھر سے پیہم تقاضے آنا ، اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا

جلال وہیبت کا سامنا تھا ، جَمال و رَحمت ابھارتے تھے

(حدائقِ بخشش ، ص235-مدنی مذاکرہ ، 26رجب شریف 1441ھ)

(4)واقعہ معراج عظیم ترین معجزہ ہے

سُوال : ہم نے رَبِیْعُ الْاَ وَّل شریف میں پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کئی معجزات سُنے ، آپ سے عرض ہے کہ کیا واقعۂ مِعراج بھی آقا  علیہِ الصّلوٰۃ وَالسَّلام کا معجزه ہے ؟

جواب : جی ہاں! واقعۂ مِعراج بھی یقیناً پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا عظیم ترین معجزه ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں ہے بلکہ واقعۂ مِعراج کئی معجزات کا مجموعہ ہے کہ اس سفر کے دَوران  کئی معجزات پیش آئے۔ (مدنی مذاکرہ ، 16ربیع الاول 1440ھ)

(5)پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مِعراج میں آسمان پر

کس سواری پر تشریف لے گئے؟

سُوال : ہمارے نبی ، مکی مَدَنی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  آسمان پر کس سواری پر تشریف لے گئے تھے؟

جواب : مکی مَدَنی مصطفےٰ ، شَبِ اَسریٰ کے دُولہا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  شَبِ مِعراج بُراق پر سوار ہو کر مختلف منزلیں طے کرتے ہوئے سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی پہنچے۔ (بخاری ، 2 / 380 ، حدیث : 3207)

سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰیحضرت سَیِّدُنا جبرئیل  علیہ السّلام  کی حَد ہے لہٰذا وہاں جبرئیلِ امین  علیہ السّلام  رُک گئے۔ (روح البیان ، پ27 ، النجم ، تحت الآیۃ : 14 ، 9 / 224 ، مراٰۃ المناجیح ، 8 / 143) اب پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے لئے رَفْرَف نامی ایک سواری پیش کی گئی۔ پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رَفرف پر مَزید آگے تشریف لے گئے لیکن پھر آگے چل کر رَفْرف بھی نہ رہا تو پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی رَحمت سے مَزید آگے بڑھے۔ [1] مِعراج ، سرکار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک نے ایک معجزہ عطا فرمایا ہے۔ سواریاں تو سرکار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اِعزاز کے لئے تھیں ورنہ آپ سواریوں کے محتاج نہیں۔ (مدنی مذاکرہ ، 23 رجب شریف 1440ھ)

(6)کیا ٹانگیں ہلانا شیطان کا طریقہ ہے؟

سُوال : کیا ٹانگیں ہلانا شیطان کا طریقہ ہے؟

جواب : ٹانگیں ہلانا شیطان کا طریقہ ہے یہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ ہو سکتا ہے یہ صِرف عوام کا خیال ہو۔ بہرحال اِس طرح کی کوئی بھی بات کرنے سے پہلے عُلَمائے کِرام  کَثَّرہُمُ اللہ السَّلام  سے تَصدیق کروالینی چاہئے۔ (مدنی مذاکرہ ، 5محرم شریف 1440ھ)

[1] معراج میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے پانچ قسم کی سواریوں پر سفر فرمایا مکہ سے    بَیْتُ الْمُقَدَّس تک بُراق پر ،  بَیْتُ الْمُقَدَّس سے آسمانِ اَوّل تک نُور کی سیڑھیوں پر ، آسمانِ اَوّل سے ساتویں آسمان تک فرشتوں کے بازوؤں پر ، ساتویں آسمان سے سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی تک حضرت جبریل  علیہ السّلام  کے بازو پر اور سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی سے مقامِ قَابَ قَوْسَیْن تک رَفرف پر۔ (روح المعانی ، پ15 ، بنی اسرائیل ، تحت الآیۃ : 1 ، 14 / 15)


Share