ننھے میاں کی کہانی
گاؤں کی سیر (تیسری
اور آخری قسط)
* مولانا حیدر علی مدنی
چھوٹے ماموں جان کے گھر کی پچھلی طرف زمین پردونوں ماموؤں نے مشترکہ باغ بنایا ہوا تھا، ننھے میاں باغ پہنچے تو مالی بابا گلابوں والی کیاری میں گوڈی کر رہے تھے، بچّوں کو آتا دیکھ کر وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے کھڑے ہو گئے، ماموں جان نے مالی بابا کو سلام کیا اور کہنے لگے: بابا جی! ہمارے بھانجے ننھے میاں سے ملیے، یہ کراچی سے آئے ہیں۔ مالی بابا سے ملوانے کے بعد اب باغ کی سیر شروع ہوئی، آم، آڑو، جامن، کھجور کے درخت قطاروں میں لگے ہوئے تھے اور پھلوں سے بھرے ہوئے تھے، باغ کے کنارے کنارے کیلوں کے درخت لگے ہوئے تھے جن سے باغ کے اِرد گِرد باڑ سی بن گئی تھی۔ ایک طرف پھولوں کی کیاریاں تھیں جن میں کلیوں، گیندے کے پھول کے علاوہ سرخ، سفید، پیلے اور جامنی رنگ کے گلاب بھی کھِلے ہوئے تھے، سارے باغ میں پرندے ایک درخت سے دوسرے درخت پر آتے جاتے چہچہا رہے تھے، پھولوں پر تتلیاں بھی ایک پھول سے دوسرے پر آ جا رہی تھیں جیسے ان کے ساتھ کھیل رہی ہوں، ایک کزن تِتلی پکڑنے لگا تو ننھے میاں جلدی سے بولے: بھائی ایسا مت کرو، یہ بہت نازک ہوتی ہیں ہمارے پکڑنے سے ان کے پَر ٹوٹ سکتے ہیں۔ ماموں جان اس بات پر مسکرانے لگے اور بولے: ننھے میاں ٹھیک کہہ رہے ہیں، انہیں پھولوں سے کھیلنے دو۔
سارا باغ گھومنے کے بعد ماموں جان بچّوں کو باغ کی آخری طرف لے آئے جہاں بڑے اور گھنے سایہ دار درختوں کے نیچے ٹیوب ویل چل رہا تھا اور پاس ہی مالی بابا کا کمرہ تھا جس کے باہر بڑی سی چارپائی پڑی ہوئی تھی، ماموں جان بولے: سارے بچّے ہاتھ منہ دھو کر ادھر چارپائی پر بیٹھ جاؤ، ابھی مالی بابا آپ کی مہمان نوازی کریں گے۔
کچھ دیر میں مالی بابا درخت سے اترے تازہ جامن اور آڑو لے آئے، ٹیوب ویل سے نکلتے ٹھنڈے ٹھار پانی سے دھو کر بچّوں کو دیتے ہوئے کہا: یہ لو بچّو تازہ تازہ جامن کھاؤ، آڑو کھاؤ۔ پھر ہنستے ہوئے بولے: لیکن کپڑے بچا کر ورنہ کپڑوں کے ساتھ ساتھ مائیں تمہاری بھی دھلائی کر دیں گی۔
باغ کی سیر کرتے کرتے دوپہر ہو چکی تھی، ماموں جان نے بچّوں کو گھر چھوڑا تودوپہر کا کھانا تیار ہو چکا تھا، برآمدے میں کولر کے سامنے دری بچھا کر سارے بچّوں کو وہیں بٹھا دیا گیا اورگرم دیسی گھی میں ملی ہوئی شکر اور اچار کے ساتھ تندوری روٹی دی گئی، ننھے میاں کے لئے تو یہ اپنی زندگی کا سب سے انوکھا لنچ تھا لیکن مزے دار بھی بہت تھا تبھی کھانا کھاتے ہوئے بولے: امّی جان ہم نانی اماں سے شکر لیتے جائیں گے وہاں بھی آپ مجھے ایسا ہی لنچ بنا کر دینا۔
امّی جان مسکرانے لگی اور نانی اماں بولیں: ہاں ہاں بھئی میرے نواسے کے لئے شکر اور دیسی گھی ابھی سے باندھ کر رکھ دو۔
ظہر کی نماز کے بعد سب بچّوں کو حکم تھا کہ کوئی دھوپ میں نہ گھومے پھرے، سب اندر کمروں میں سوئے رہیں، نانی جان باقاعدہ خود رکھوالی کرتی تھیں مجال ہے کوئی شرارتی سے شرارتی بچہ بھی ان کی نظر سے بچ کر باہر بھاگ سکے پھر نانی اماں سے زیادہ ان کے ہاتھ میں پکڑی لاٹھی کا ڈر ہوتا تھا اگرچہ آج تک کسی کو نانی اماں کے ہاتھوں وہ لاٹھی کھاتے دیکھا نہیں گیا تھا لیکن ڈر تو ڈر ہوتا ہے ناں!
اگلے روز ننھے میاں کو جانوروں کا باڑادکھایا گیا جہاں گائے بھینسیں دو قطاروں میں بندھی چارہ کھا رہی تھیں، ایک طرف کمرے میں بکریاں کھلی پھر رہی تھیں جبکہ مرغیاں پورے باڑے میں ہی آزاد گھوم رہی تھیں کبھی کسی بھینس کے اوپر چڑھ کر بیٹھ جاتیں تو کبھی بکریوں کے کمرے میں دانہ چگنے لگ جاتیں،پھر ماموں جان نے ننھے میاں سے آنکھیں بند کرنے اور دونوں ہاتھ کھولنے کا کہا: اپنے ہاتھ پر نرم نرم سی چیز محسوس کرتے ہی ننھے میاں نے آنکھیں کھولیں تو ننھا منا سا پیارا چوزہ ان کی ہتھیلی پر بیٹھا ہوا تھا جو فوراً چھلانگ لگا کر بھاگ گیا۔ دھوپ تیز ہونے سے پہلے ہی ماموں جان ملازم کو گائے بھینسیں چھاؤں میں باندھنے کا بولتے ہوئے بچّوں کے ساتھ گھر آگئے۔
کھیتوں کی سیر، باغوں سے پھل کھاتے اور نانی جان ماموؤں سے پیار سمیٹتے ہوئے کب ایک مہینا گزر گیا پتا ہی نہیں چلا، ایک دن امّی جان نے بتایا کہ کل آپ کے ابّو جان ہمیں لینے آرہے ہیں، یہ سُن کر ننھے میاں نے ابھی سے سب کی طرف سے ملے ہوئے تحفے سنبھالنا شروع کر دیئے۔ اگلے روز شام میں ابّو جان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ گاؤں کی حسین یادوں کو دل میں بسائے ہوئے اپنے کزنز سے اگلے سال پھر آنے کا وعدہ کر تے ہوئے سوچ رہے تھے کہ کاش ان کا گھر بھی یہیں ہوتا تو سب کزنز مِل جُل کر رہتے اور خوب مزے کرتے لیکن بچّو آپ کو پتا ہونا چاہئے دِلوں میں پیار محبّت باقی رہے تو زمینی فاصلے کچھ نہیں ہوتے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ
Comments