فریاد

آؤ!اپنےرب کی طرف

دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری

ماہنامہ فروری2022

اے عاشقانِ رسول! گھریلو مسائل ہوں یا پھر کاروباری پریشانیاں ، قرض کا بوجھ ہو یا پھر کورٹ کچہری اور اسپتالوں کے چکر ، کمر توڑ مہنگائی کی آفت ہو یا پھر حلال روزگار میں رکاوٹیں ، جان و مال وغیرہ کے متعلق ظالموں کا خوف ہو یا پھر بھتہ خوروں کی دھمکیاں۔ الغرض ہمیں خود کو ہر مصیبت و پریشانی سے نجات دلانے کیلئے دیگر حکمتِ عملیاں اپنانے کے ساتھ ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں بھی رجوع کرنا چاہئے بلکہ ہر حکمتِ عملی اپنانے سے پہلے ہی اپنے رب کی بارگاہ میں رجوع کرنا چاہئے ، کیونکہ ہمارا حقیقی کارساز وہی ہے ، اس کے سوا کون ہے جو ہماری مشکلات کو دور کرے؟ ہمیں تکلیف سے راحت کی طرف لائے؟ یہ اسی کی شان ہے کہ جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اسے صرف یہ فرماتا ہے : “ ہوجا “ تو وہ کام فوراً ہوجاتا ہے ، اس کے حکم سے بیمار شفایاب تو کیا مردے بھی زندہ ہوجاتے ہیں ، دریا اور سمندر بھی اس کے حکم سے راستہ دے دیتے ہیں ، آگ اس کا حکم پاتے ہی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجاتی ہے ، مچھلی کا پیٹ اس کے حکم سے انسان کے لئے پناہ گاہ بن جاتا ہے ، اسی نے چھوٹے چھوٹے اَبابیل پرندوں کے ذریعے ہاتھیوں کے لشکر کو تہس نہس کر دیا ، بڑے بڑے ظالم و جابر لوگوں کے ظلم اور تکبر کو اس نے مٹی میں ملا دیا۔ ایسی شانوں والے رب کے بندے ہو کر بھی آج جو ہم پریشان ہیں اور طرح طرح کی مصیبتوں کاشکار ہیں تو اس کی وجہ ہم خود ہی ہیں ، کیونکہ ہم اس کے دربار سے دور ہوگئے ، ہمارا اس مالکِ حقیقی سے تعلق اور اس کریم رب پر بھروسا کمزور ہوچکا ہے ، ہم اپنی تکلیفوں اور پریشانیوں میں اس کی بارگاہ میں رجوع کرنے کے علاوہ ہر راستہ اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ، آج بھی اگر ہم اس پاک پَروَردگار کی بارگاہ میں ایسا رجوع کریں کہ جیسا کرنا چاہئے تو ہمارے حالات بھی بدل سکتے ہیں ، ہماری مشکلیں بھی آسانیوں کا رُوپ اختیار کرسکتی ہیں ، ہماری قسمت کا ستارہ بھی چمک سکتا ہے ، ہم پربھی اللہ پاک کی رحمتیں چَھما چھم برس سکتیں اور ہماری بگڑی بھی بن سکتی ہے۔ اس سچے پَروَردگار نے اپنے پاکیزہ کلام میں ہمیں اپنی بارگاہ میں رجوع کرنےکاحکم بھی ارشاد فرمایا ہے ، چنانچہ اس کا ارشادِ پاک ہے : ( وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ ) ترجَمۂ کنزُالایمان : اور اپنے رب کی طرف رجوع لاؤ اور اس کے حضور گردن رکھو۔ [1]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  یعنی اس کی جانب متوجہ ہو جاؤ ، توبہ کرکےاس کے فرماں برداربن جاؤ ، اور اپنے دِلوں ، جانوں اور مالوں کو اس کی اِطاعت ا ور عبادت میں لگا دو۔ [2] اپنی بارگاہ میں رجوع کرنے والے کو خود اس ربِّ کریم نے بہترین بندہ ہونے کی سند عطافرمائی ہے ، چنانچہ حضرت سلیمان  علیہ السّلام  کے بارے میں ارشاد فرمایا : ( نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌؕ(۳۰) ) ترجَمۂ کنزُالایمان : وہ کیا اچھا بندہ ہے بیشک وہ بہت رجوع کرنے والا ہے۔ [3]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اسی طرح کےتعریفی کلمات رجوع الی اللہ پراسی سورت کی آیت نمبر44میں حضرت ایوب  علیہ السّلام  کےبارےمیں بھی بیان ہوئےہیں اوراپنی بارگاہ میں رجوع کرنے والوں کااُخْرَوِی انعام بیان كرتے ہوئے وہ ربِّ کریم ارشاد فرماتاہے : ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَخْبَتُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْۙ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۳) )ترجَمۂ کنزُالایمان : بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور اپنے رب کی طرف رجوع لائے وہ جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ [4]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 لہٰذا ہمیں بھی اپنے ہر معاملے اور ہر حاجت میں اسی پاک پروردگار کی بارگاہ میں رجوع کرنا چاہئے ، اس کریم کی رحمت کا دروازہ ہر وقت اپنے بندوں کے لئے کُھلا ہے ، دوری اور کوتاہی بس ہماری طرف سے ہے ، چنانچہ حدیثِ قدسی ہے ، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : جب بندہ میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں ، اور جب وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں دونوں ہاتھوں کے پھیلانے کی مقدار اس سے قریب ہوتا ہوں ، اور جب وہ میری طرف چل کے آتا ہے تو میری رحمت دوڑ کر اس کی طرف جاتی ہے۔ [5]

پریشانی کےوقت اپنے رب کی بارگاہ میں رجوع کرنے کا ایک دنیاوی فائدہ ملاحظہ کیجئے : ایک مرتبہ صحابیِ رسول حضرت سیّدُنا ابومِعْلَق انصاری  رضی اللہُ عنہ  سامانِ تجارت لے کر سفر پر روانہ ہوئے ، راستے میں ایک مسلح ڈاکو نے ان کا راستہ روک لیا اور کہا : اپنا سارا سامان میرے حوالے کر کے قتل ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ ، آپ  رضی اللہُ عنہ  نے فرمایا : تمہارا مقصد مال ہے ، لہٰذا تم میرا سارا مال لے لو اور مجھے جانے دو ، ڈاکو نے کہا : نہیں! میرا ارادہ صرف تمہارے قتل کا ہے ، آپ نے کہا : جب تم میرے قتل کا ارادہ کرہی چکے ہو تو مجھے تھوڑی مہلت دو تاکہ میں نماز پڑھ لوں ، اس نے آپ کو اجازت دے دی ، آپ نے وُضو کیا ، نماز پڑھی اور اپنے رب سے(تین بار) دعاکی ، اچانک ایک شَہْسوار ہاتھ میں نیزہ لئے ظاہر ہوا اور اس ڈاکو کی طرف بڑھا ، نیزے کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کردیا۔ آپ نے اس سے کہا : اس مصیبت کی گھڑی میں اللہ پاک نے آپ کے ذریعے میری مدد فرمائی ، آپ کون ہیں؟ اس سوار نے کہا : میں چوتھے آسمان کا فرشتہ ہوں۔ جب آپ نے پہلی بار دعا کی تو آسمان کے دروازوں کی آواز مجھے سنائی دی ، جب دوسری مرتبہ دعا کی تو میں نے آسمان والوں کی چیخ و پکار سُنی ، پھر جب آپ نے تیسری مرتبہ دعا کی تو یہ آواز سنائی دی : یہ ایک پریشان حال کی دعا ہے۔ میں نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی : مجھے اس ڈاکو کو قتل کرنے کی اجازت عطا فرما۔ لہٰذا میں اللہ پاک کی اجازت سے آپ کی مدد کرنے آیا ہوں۔ [6]

لوگوں میں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہےکہ جب کسی کو دنیاوی اعتبار سے خوشحالی میسر ہو ، کاروبار اچھا چل رہا ہو تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ پاک مجھ سےراضی ہے جبکہ اگرکوئی تکلیف و پریشانی آجائے تو یہ سمجھا جاتاہےکہ اللہ ہم سے ناراض ہے ، اگرچہ ایسا ممکن ہے مگر ضروری نہیں ، اس کا اُلَٹ بھی ہوسکتا ہے ، چنانچہ حضرت سیِّدُنا مالک بن دینار  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرمایا کرتے تھے : جب اللہ پاک کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو اس پر اس کی دنیا تنگ اور اس کے دنیاوی مشاغل کم کردیتاہے اور فرماتا ہے : میری بارگاہ سے دُور نہ ہونا۔ چنانچہ ، بندہ اس کی عبادت کے لئے فارغ ہوجاتا ہے۔ اور جب اللہ پاک کسی بندے کو ناپسند کرتا ہے تو اس کے سامنے دنیا پھیلا دیتا ہے اور فرماتا ہے : مجھ سے دور ہوجا ، میں تجھے اپنی بارگاہ میں نہ دیکھوں۔ چنانچہ تم ایسے شخص کو دیکھو گے کہ اس کا دل کسی زمین اور کسی تجارت میں پھنسا ہوگا۔ [7]

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے!  تنگیوں ، پریشانیوں اور تکلیفوں کی صورت میں دِل چھوٹا کرنے اور حوصلہ ہارنے کے بجائے پہلے سچے دل سے اپنےربِّ کریم کی بارگاہ میں رجوع کیجئے پھر کچھ نہ کچھ تدابیر اختیار کیجئے۔ میرے شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سُنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  نے اپنے ایک مکتوب میں فرمایا : ہم مصلحتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ، “ بڑوں “ کی خُوشامدیں کرتے نہیں تھکتے مگر سب سے بڑے اور حقیقی کار ساز ، ربِّ بے نیاز کی بارگاہ میں دِل کی اَتھاہ گہرائیوں کے ساتھ رُجُوع لانے میں کوتاہی کرجاتے ہیں حالانکہ دُعا تقدیر بدل دیتی ہے۔ سخت حاجت کے وقت ذمّہ داران مل کر “ ختمِ غوثیہ “ وغیرہ پڑھ لیں ، “ صلوٰۃُ الاَسْرَار “ شریف کا سِلسِلہ شروع ہوجائے ، نمازِ حاجت کی ترکیب ہو۔ [8]

اللہ پاک ہمیں اپنی ظاہری اورباطنی حالت کودرست کرنے ، ہرحال میں اس کاشکربجالانےاوراس کی بارگاہ میں رجوع کرنےکی توفیق عطافرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



[1] پ24 ، الزمر : 54

[2] قوت القلوب ، 1 / 189

[3] پ23 ، صٓ : 30

[4] پ12 ، ھود : 23

[5] بخاری ، 4 / 541 ، حدیث : 7405

[6] الاصابہ فی تمییز الصحابہ ، 7 / 313

[7] صفۃ الصفوۃ ، 3 / 189 ، رقم : 522

[8] مدنی کاموں کی تقسیم کاری کے تقاضے ، ص65۔


Share