آخر درست کیا ہے؟
دورِ جدید کے چیلنجز کے لئے دین ِ اسلام کےاصول و قواعد کافی ہیں یا نہیں؟(قسط : 01)
* مفتی محمد قاسم عطاری
ماہنامہ فروری 2022
قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ اللہ نے ہر انسان میں خیر و شر کا شعور پیدا کیا ہے۔ (پ30 ، الشمس : 7 ، 8) اسی خیر و شر میں مقابلہ کرتے ہوئے انسان نے خیر اختیار کرنی اور شر چھوڑنا ہوتا ہے اور یہی مقابلہ انسان کی آخرت کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کرے گا لیکن جدید سائنس کی وجہ سے ایک سوال یہ کھڑا ہوگیا ہے کہ اگر انسان میں خیر کا شعور ہی ختم ہوجائے اور صرف شر کی سوچ اور صلاحیت باقی رہ جائے تو اس سے خدا کی بارگاہ میں باز پرس کیسے ہوگی جبکہ خیر اس کے اختیار ہی میں نہیں تھا۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ 1970ء کی دہائی سے جینز کی انجینئرنگ (Genetic Engineering) کا دور شروع ہوا ، جو موجودہ زمانے میں ایک عملی حقیقت میں ڈھل چکا ، جیسے اسی ٹیکنالوجی سے ایک بھیڑ “ ڈولی “ تیار کی گئی اور اب بات کہیں آگے جا چکی ہے۔ اس کا نیا باب کرسپر (CRISPR) ٹیکنالوجی ہے۔ ہمارا رنگ ، قد اور امراض سمیت بہت سے امور جینز کی صورت میں لکھے ہوئے ہیں لیکن آج انسان ڈی این اے میں کئی طرح کی تبدیلیوں پر قادر ہو چکا ہے۔ ڈی این اے کی تبدیلی کا مطلب شخصیت کی تبدیلی ہے۔ “ کرسپر “ ٹیکنالوجی کے تحت یہ ممکن ہے کہ انسانی جنین (embryo) کو تبدیل کردیا جائے ، جیسے دل کی بیماری کا سبب بننے والی جین کو ایک صحت مند جین سے تبدیل کر دیا جائے۔
انسانی احساسات و جذبات کا تعلق بھی ، سائنس کی رُو سے جینز ہی سے ہے اور اسے بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے ، چنانچہ ایک تجربے میں مادہ چوہوں سے “ ممتا “ کا جذبہ پیدا کرنے والا جین نکال دیا گیا جس کے بعد ان ماداؤں نے اپنے بچوں کے بارے میں کسی ایسے جذبے کا اظہار نہیں کیا جو ماں کے ساتھ خاص ہے۔ یہ تجربہ ابھی انسانوں پر نہیں ہوا لیکن کسی وقت ہو سکتا ہے اور اس سے مرضی کے انسان اور مرضی کے خواص تیار کئے جاسکتے ہیں ، مثلاً ان سے رحم دلی کا جذبہ چھین کر نکال دیا جائے اور وہ صرف جنگجو رہ جائیں جنہیں انسانی جان لینے میں کوئی عار نہ ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ مستقبل میں اگر خیروشر کے اس شعور سے خالی انسان پیدا ہوئے تو ان انسانوں کو دینی احکام کا پابند کس بنیاد پر کیا جائے گا اور ایسوں سے قیامت کی جواب دہی کیسے ہوگی؟ جبکہ ان میں وہ شعور ہی تبدیل ہوگیا ہو ، جس پر جواب دہی کی بنیاد ہے؟ لگتا ہے کہ مسلمانوں کا پرانا علم الکلام اس کا جواب دینے پر قادر نہیں اور اب مسلمانوں کو عقائد کے باب میں نیا علم ایجاد کرنا پڑے گا۔
سوال اور پوری صورتِ حال کا جواب : اس سوال اور پوری صورتِ حال کا جواب یہ ہے کہ پرانا علم الکلام اس صورت کا جواب دینے کی سو فیصد صلاحیت رکھتا ہے اور یہ کوئی ایسی مشکل صورتِ حال نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ شرعی اعتبار سے ایسی غلط تبدیلیاں حرام ہیں جو ظلم و شر کو فروغ دینے کیلئے ہوں ، لیکن قطع نظر اِس حکم کے ، اگر ایسی صورتِحال پیش آجائے تو کیا ہوگا؟ تو جواب یہ ہے کہ دینِ اسلام کے اصول اس طرح کے تمام معاملات کے متعلق بہت واضح ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس کی تخلیق کا مقصد انسان کی آزمائش و امتحان بیان فرمایا کہ کون اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہوتا اور اچھے اعمال کرتا ہے ، چنانچہ قرآن مجید میں ہے : ( الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ- ) ترجمہ : وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون زیادہ اچھے عمل کرنے والا ہے۔ (پ29 ، الملک : 2) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس امتحان میں کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے ہدایت کی راہیں کشادہ فرما دیں ، یعنی اسے خیر و شر اور سعادت و شقاوت کے راستے بتا دئیے اور اسےیہ طاقت بھی عطا فرما دی کہ وہ خیر و شر میں اپنی مرضی سے جو چاہے ، اختیار کرلے ، لیکن ساتھ میں یہ حکم بھی دے دیا کہ نیکی کا راستہ اپنانا اور برائی سے بچنا ہے۔
قرآن پاک میں فرمایا : ( اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ﳓ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(۲) اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا(۳)) ترجمہ : بیشک ہم نے آدمی کو ملی ہوئی منی سے پیدا کیا تاکہ ہم اس کا امتحان لیں توہم نے اسے سننے والا ، دیکھنے والا بنا دیا۔ بیشک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ، (اب) یا شکرگزار ہے اور یا ناشکری کرنے والا ہے۔ (پ29 ، الدھر : 2 ، 3) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ایک اور مقام پر خیر و شر کے راستے بتا دینے کے متعلق یوں فرمایا : ( وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَاﭪ(۷) فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَاﭪ(۸) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰)) ترجمہ : اور جان کی (قسم) اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی ، جس نے نفس کو پاک کرلیا ، وہ یقینا کامیاب ہوگیا اور جس نے نفس کو گناہوں میں چھپایا ، بے شک وہ ناکام ہوگیا۔ (پ30 ، الشمس : 7تا10) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیت کے تحت تفسیر خازن میں ہے : “ قال ابن عباس : بين لها الخير والشّر وعنہ علمها الطّاعة والمعصية ، وعنه عرفها ما تأتي وما تتقي “ ترجمہ : ابن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے خیر اور شر واضح فرما دئیے ہیں اور اسے نیکی اور بدی کا علم دے دیا ہے اور انسان کو پہچان کروادی کہ اس نے کیا کرنا ہے اور کس چیز سے بچنا ہے۔ (تفسیر خازن ، الشمس ، تحت الآیۃ : 8 ، 4 / 432)
نبیوں کی تشریف آوری اور آسمانی کتابوں کا نزول لوگوں کی ہدایت ہی کے لئے تھا اور ہدایت کو کما حقہ اپنانے اور خدا کی پوری پوری بندگی و اطاعت کیلئے اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام نازل فرمائے لیکن جتنے بھی احکام نازل فرمائے گئے ، ان میں سے کسی بھی جگہ کسی شخص کو ایسا حکم نہیں دیا جو اس کی استطاعت و طاقت سے باہر ہو بلکہ سنتِ الٰہیہ یہی جاری رہی ہے کہ اگر کوئی حکم کسی مخصوص فرد یا طبقے کی دسترس میں نہ ہو تو اس کیلئے وہ حکم ہوتا ہی نہیں بلکہ وہ اس شرعی حکم سے مستثنیٰ ہوتا ہے ، جیسے غریب شخص پر زکوٰۃ نہیں ہے ، حج کی استطاعت نہ رکھنے والے پر حج فرض نہیں ہے ، ایسا بیمار شخص جو کھڑا ہونے پر قادر نہیں اس پر نماز میں قیام فرض نہیں ہے ، اندھے پر جماعت فرض نہیں ہے اور اگر کوئی معذور ہو تو اس پر جہاد فرض نہیں ہے الغرض جتنے بھی احکام ہیں وہ سب اُن افراد کے لئے ہیں جو اس حکم کی طاقت رکھتے ہوں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور قرآن پاک میں اسی اصول کو بہت وضاحت سے یوں بیان کیا گیا ہے کہ (لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ-) ترجمہ : اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔ (پ3 ، البقرۃ : 286) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
مزید یہ کہ شرعی احکام کے لئے کچھ خاص اسباب و محل ہیں اگر وہ اسباب و محل نہ پائے جائیں ، تو اس حکم پر عمل بھی لازم نہیں ہوتا۔ جیسے مخصوص اعضاء کو دھونے کا نام وضو ہے ، لیکن اگر کسی کا وہ عضو مثلاً پاؤں ہی موجود نہ ہو تو اس پر وہ حصہ دھونا بھی فرض نہیں رہے گا کہ اس کا محل ہی موجود نہیں ہے یا عضو تو موجود ہے مگر وہ اس قابل نہیں کہ اسے دھویا جا سکے کہ اس پر زخم وغیرہ ہے تو بھی اس جگہ کو دھونا لازم نہیں ہوگا کہ اب دھونے کا حکم دینے میں ضرر و مشقت ہے۔
اسی طرح نماز کے لئے وقت شرط ہے اگر وقت شروع نہ ہو تو اس وقت تک نماز بھی لازم نہیں ہوتی ، کیونکہ اس کا سبب ہی نہیں پایا گیا۔ اسی طرح نماز کیلئے طہارت (پاکی) شرط ہے ، لیکن وہ ناپاکی جو عورت کے اختیار میں نہیں ہوتی ، اگر ناپاکی کے وہ مخصوص دن آ جائیں تو اس پر بھی نماز لازم نہیں ہوتی۔ بلکہ جو افراد مکلف ہوں ان میں بھی اگر دینی احکام پر عمل کرنے میں کوئی واقعی مجبوری کی صورت ہو تو اس کی رخصت بھی شریعت میں موجود ہوتی ہے ، جیسے کوئی کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر قادر نہ ہو تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ، سفر میں نماز میں کچھ مشکل ہوتی ہے ، اس لئے چار رکعات والی نماز میں مسافر کو کچھ تخفیف دی گئی ہے ، اسی طرح اگر مسافر ابھی روزہ نہیں رکھ سکتا تو فی الحال چھوڑ دے اور مقیم ہو کر اس کی قضا کر لے ، اسی طرح شدید بیمار کو بھی رخصت ہے کہ وہ بعد میں روزہ رکھ لے ، حتی کہ جو بوڑھا کمزور روزے کی طاقت نہیں رکھتا ، اسے فدیہ دینے کی بھی اجازت ہے غرض دین میں کوئی ناقابلِ برداشت تنگی نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے : ( وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍؕ- ) ترجمہ : اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔ (پ17 ، الحج : 78) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیت کے تحت امام ابو بکر احمد بن علی الرازی الحنفی علیہ الرَّحمہ “ احکام القرآن للجصاص “ میں فرماتے ہیں : “ قال ابن عباس من ضيق وكذلك قال مجاهد ويحتج به في كل ما اختلف فيه من الحوادث ان ماادى الى الضيق فهو منفي وما اوجب التوسعة فهو اولى وقد قيل وما جعل عليكم في الدين من حرج انه من ضيق لا مخرج منه “ ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا : حرج کا مطلب ہے تنگی اور اسی طرح حضرت مجاہد رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : اس آیت کریمہ سے مختلف صورتوں میں یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے ، اس کا وجود نہیں اور جو گنجائش اور آسانی پیدا کرے تو وہی بہتر ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں ، جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔ (احکام القرآن للجصاص ، الحج ، تحت الآیۃ : 78 ، 5 / 90)
قرآن و حدیث کی ان ہی تعلیمات کے پیشِ نظر فقہاء نے ایک قاعدہ ذکر کیا ہے کہ “ المشقۃ تجلب التیسیر “ مشقت (حکم میں) آسانی پیدا کردیتی ہے۔ یہ قاعدہ فقہاء کرام نے بہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے مثلاً یہ کہ اگر افعال سرانجام دینے میں قابلِ اعتبار رکاوٹیں پیدا ہوجائیں جیسے بیماری ، بھول جانا ، بے ہوشی ، حیض ، سخت مجبوری (یعنی اضطرار) ، نشہ اور پاگل پن ، تو ازروئے شرع ایسے افراد بہت سے احکام و عبادات میں مجبوری کی وجہ سے مستثنیٰ شمار کئے جائیں گے اور ان پر وہ شرعی احکام نافذ نہیں ہوں گے جو ایک صحیح آدمی پر لاگو ہوتے ہیں۔
فقہاء نے اس قسم کے اسباب کو “ عوارضِ سماویہ “ کا نام دیا ہے ، اسلامی فقہ کا ضابطہ عدمِ تکلیف اسی بنیاد پر قائم ہے کہ عدمِ تکلیف ما لایطاق یعنی جہاں طاقت نہ ہو تو وہاں ذمہ داری اور اس کے متعلق سوال نہیں ہوگا اور اسی کے ساتھ یہ قاعدہ بھی ہے : “ اذا ضاق الامر اتسع “ یعنی جہاں حکم (کی ادائیگی) میں تنگی ہو وہاں وسعت پیدا ہو جائے گی۔
اور ان قواعد کی اصل قرآن پاک میں ہے : ( یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘- ) ترجمہ : اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا۔ (پ2 ، البقرۃ : 185) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار الافتاء اہل سنت فیضان مدینہ کراچی
Comments