روشن ستارے
حضرت سیّدناسُہَیل بن عَمْرو رضی اللہُ عنہ
* مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی
ماہنامہ فروری2022
آسمانِ خطابت کے آفتاب ، جودو سخاوت کے مہتاب ، گلشنِ ریاضت کے کھِلتے گلاب ، فہم وفِراست کی روشن کتاب ، عزّت مآب ، جناب ِسیدنا سُہیل بن عَمرو قَرَشی رضی اللہُ عنہ مسلمان ہونے سے پہلے اسلام کے سخت دشمن تھے اور شمعِ اسلام کو بجھانے میں مصروف رہے[1] 2 ہجری جنگِ بدر میں قیدی بنے ، آخر کار رَہن رکھواکر قید سے خلاصی پائی پھر 4 ہزار فدیہ بعد میں بھجوایا[2] 6ہجری صلحِ حُدَیبیہ کے موقع پر قریش کانمائندہ بَن کر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ صلح کی شرائط طے کیں[3] اور صلح نامے میں “ مُحمّدٌ رَّسُولُ اللہ “ کے بجائے “ مُحمّد بن عبدُ اللہ “ لکھوایا۔ [4]
قبولِ اسلام : 8 ہجری میں مکّہ فتح ہوا تو گھر کا دروازہ بند کرکے بیٹھ گئے پھر جان کی امان طلب کرنے کیلئے اپنے مسلمان بیٹے حضرت عبدُالله بن سہیل کو بارگاہِ رسالت میں بھیجا ، رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : سُہَیل! اللہ کی امان میں ہیں ، پھر فرمایا : جو سہیل سے ملے ان کی طرف سخت نظر سے بھی نہ دیکھے ، سہیل عقلمند اور صاحبِ شرافت ہیں ایسا شخص اسلام سے دور نہیں رَہ سکتا۔ اس کے بعد آپ غزوۂ حُنَین میں رسولِ کریم کےساتھ چلے لیکن ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے آخر کار جِعْرانہ کے مقام پر نورِ ایمان سے منوّر ہوئے۔ رسولِ رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جنگِ حنین کے مالِ غنیمت میں سے آپ رضی اللہ عنہ کو 100 اونٹ عطا فرمائے۔ [5] ایمان کی کرنوں سے منوّر ہونے کے بعد آپ “ محمودُ الاسلام “ یعنی اسلام میں قابلِ تعریف رہے۔ [6]
اوصاف : جود و سخاوت آپ کا ایک بہترین وصف تھا[7] آپ مکّے میں لوگوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے[8]ایک مرتبہ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم! میں نے جتنا ساتھ مشرکوں کا دیا ہے (اسلام لانے کے بعد ) اتنا ہی مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے اور جتنا مشرکین پر خرچہ کیا ہے(اسلام لانے کے بعد) اسی کی مثل مسلمانوں پر بھی خرچہ کیا ہے۔ [9]
عبادت گزار : آپ رضی اللہُ عنہ کثرت سے نمازیں پڑھتے ، خوب روزے رکھتے ، بے حساب صدقہ و خیرات کرتے اور بکثرت گریہ و زاری کرتے تھے ، بہت زیادہ قیام وصوم کی وجہ سے آپ کی رنگت پھیکی پڑگئی تھی۔ [10] آپ حضرت مُعاذ بن جَبل رضی اللہُ عنہ کے پاس بار بار آتے تھے وہ آپ کو قراٰن پڑھاتے تو آپ روتے جاتے۔ [11]
تعَصُّب چھوڑ دو : جب حضرت معاذ بن جبل مکّہ سے چلے گئے تو کسی نے آپ سے پوچھا : آپ (قراٰن سیکھنے) قبیلۂ خَزرَج کے مرد کے پاس جاتےتھے ، اپنی قوم کے کسی شخص کے پاس کیوں نہیں جاتے تھے؟ آپ نے (تعصّب والی بات سن کر) فرمایا : ہماری جو حالت بنی ہوئی تھی وہ اسی (تعصب) نے بنائی تھی یہاں تک کہ آگے بڑھنے والا ہر شخص ہم سے آگے بڑھ جاتاتھا ، میں تو حضرت معاذ کے پاس جاتا رہوں گا ، میرے گھر والوں میں جو مجھ سے پہلے ایمان سے مُشرّف ہوئے میں ان کا ذکر ضرور کروں گااس پر مجھے خوشی ہوتی ہے اور اللہ کا شکر بھی ادا کرتا ہوں اور مجھے امّید ہے کہ ان کی دعاؤں کے صدقے اللہ یہ توفیق دےگا کہ مجھے (اسلام پر موت آئے) اس دین پر موت نہ آئے جس پر میرے ہم پَلّہ (کافر) سردار مر گئے یا قتل ہوگئے۔ [12]
مُوئے مبارک کی تعظیم : حضرت سیّدنا ابو بکر صدّیق رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت سہیل کو حِجّۃُ الوَداع کے موقع پر مَذبَح خانےکے قریب کھڑے دیکھا ، وه رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اونٹوں کو خدمتِ اقدس میں پیش کرتے اور سرکارِ دو عالَم انہیں دستِ مبارک سے نحر فرماتے جاتے ، پھر رحمتِ عالَم نے اپنے سر کا حَلق کروایا تو میں نے حضرت سہیل کو موئے مبارک اٹھاتے اور انہیں اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئےبھی دیکھاہے۔ [13]
آبِ زَم زَم روانہ کیا : ایک مرتبہ نبیِّ کریم نے آپ کو خط لکھا : میری تحریر تمہارے پاس صبح پہنچے تورات سےپہلے یا رات کو پہنچے تو صبح سے پہلےآبِ زَم زَم میرے پاس بھیج دینا ، تحریرِ مبارک ملتے ہی آپ دو مشکیزے اٹھالائے پھر انہیں آبِ زَم زَم سے بھرا اور اونٹ پر رکھواکر غلام کے ہاتھ روانہ کردئیے۔ [14]
جوہرِ خطابت : آپ کا شمار قریش کے مُعزَّز لوگوں اور بہترین خطیبوں میں ہوتا ہے[15]یہاں تک کہ جب بدری قیدیوں میں شامل ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہُ عنہ نے بارگا ہِ رسالت میں عرض کی : یارسولَ اللہ! میں اس کے آگے کے دانت توڑ دیتا ہوں ، یہ آپ کے خلاف کبھی خطیب بن کر کھڑا نہیں ہوگا ، لیکن فرمانِ رسول ہوا : اسے یونہی رہنے دو ، یہ عنقریب ایسے مقام پر کھڑا ہوگاکہ تم اس کی تعریف کروگے۔ [16]
مقامِ تعریف : جب 11 ہجری میں وفاتِ رسول کی خبر مکّہ پہنچی تووہاں کہرام مچ گیا ، عرب کے بعض قبائل مرتد ہونے لگے تو آپ کھڑے ہوگئے اور ایک خطبہ دیاجس کے کچھ کلمات یہ ہیں : اے گروہِ قریش! تم آخر میں اسلام لانے والے اور سب سے پہلے مرتد مَت ہونا ، اللہ نے تم میں سب سے بہتر یعنی حضرت ابو بکر پر تم سب کو جمع کردیا ہے ، میں نے جس کو مرتد ہوتے دیکھا اس کی گردن اڑادوں گا۔ اس خطبہ نے مکّہ میں لوگوں کو دینِ اسلام پر ثابت قدم رکھا۔ [17] حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کو جب آپ کا کلام پہنچا تو فرمانے لگے : یہی وہ مقامِ تعریف ہے جو رسولُ اللہ نے بتایا تھا۔ [18]
اپنے اوپر غصہ کرو : ایک مرتبہ امیرُ المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے دروازے پر کچھ بدری صحابہ کے ساتھ قریش کے بعض سردار بھی موجود تھے ، بدری صحابہ کو اندر بلوالیا گیاجبکہ قریش کے سردار باہر کھڑے رہ گئے ، اس پر ایک سردار نے کہا : آج جو کچھ یہ ہواہے وہ میں نے کبھی نہیں دیکھاکہ ہماری طرف توجہ بھی نہ کی جائے اور باہر چھوڑ دیا جائے اور غلاموں کو اندر بلوالیا جائے۔ باہر کھڑے ہونے والے سرداروں میں حضرت سہیل بن عَمرو رضی اللہُ عنہ بھی شامل تھے ، اس نازک موقع پر آپ فرمانے لگے : اے لوگو! میں تمہارے چہروں پر غصہ دیکھ رہا ہوں ، اگر تمہیں غصہ کرنا ہے تو اپنے اوپر غصہ کرو ، انہیں اور ہمیں دین کی دعوت دی گئی لیکن انہوں نے قبولِ اسلام میں جلدی کی اور تم نے سستی کی۔ اب تم جہاد کی طرف دیکھو اور اسے مضبوطی سے تھام لو شاید! اللہ پاک تمہیں مرتبۂ شہادت عطا فرمادے۔ [19]
شفاعت کی امید : سن 12 ہجری جنگِ یمامہ میں آپ کے بیٹےحضرت عبد اللہ شہید ہوئے ، حضرت ابو بکر صدّیق نے تعزیت کی تو آپ نے عرض کی : فرمانِ مصطفےٰ ہے : “ شہید اپنے گھر والوں میں سے 70 کی شفاعت کرے گا “ میں امید کرتا ہوں کہ میرا بیٹا مجھ سے ہی ابتدا کرےگا۔ [20]
راہِ خُدا میں : خلافتِ صدیقی میں غزوۂ رُوم کےلئے مسلمانوں کو حکم ملا تو آپ کئی اکابِر صحابہ رضی اللہُ عنہ م کے ساتھ حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہُ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور لشکرِ اسلام میں شامل ہوکر شام کی جانب روانہ ہوگئے[21] ایک روایت میں ہے کہ آپ فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کے ابتدائی دورِ خلافت میں تشریف لائے تھے کچھ مہینے یہاں قیام کیا پھر شام تشریف لے گئے اور مسلسل جہاد میں مصروف رہے۔ [22]آپ اپنی ایک بیٹی کے علاوہ سب گھر والوں کو شام لے گئے تھے وہیں پر سب کا انتقال ہوا آپ نے اپنے پیچھے اپنی بیٹی اور پوتی کو چھوڑا تھا۔ [23]
شہادت : ایک قول کے مطابق سن 15 ہجری ماہِ رجب جنگِ یرموک میں آپ رضی اللہُ عنہ نےشہادت پائی ۔ [24]
اللہ کریم کی اُن پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ ، فیضان مدینہ کراچی
[1] انساب الاشراف ، 11 / 8
[2] المنتظم ، 4 / 258
[3] الاستیعاب ، 2 / 230
[4] سیرت حلبیہ ، 3 / 29
[5] مستدرک ، 4 / 324
[6] تاریخ ابن عساکر ، 73 / 58
[7] سیراعلام النبلاء ، 3 / 123
[8] انساب الاشراف ، 11 / 8
[9] الاصابہ ، 3 / 178
[10] البدایۃ والنہایہ ، 5 / 133
[11] اسد الغابہ ، 2 / 558
[12] المنتظم ، 4 / 259 ، اسد الغابہ ، 2 / 558 ملتقطاً
[13] تاریخ ابن عساکر ، 73 / 55
[14] سیرت حلبیہ ، 2 / 69
[15] تاریخ اسلام للذہبی ، 2 / 88
[16] الاستیعاب ، 2 / 230
[17] اسد الغابہ ، 2 / 557 ، سیرت حلبیہ ، 2 / 267 ، 268ملخصاً
[18] تاریخ ابن عساکر ، 73 / 57
[19] الزہد للاحمد ، ص142 ، اسد الغابہ ، 2 / 557
[20] طبقات ابن سعد ، 3 / 310
[21] طبقات ابن سعد ، 7 / 283
[22] تاریخ ابن عساکر ، 25 / 300
[23] الاستیعاب ، 2 / 232
[24] العبر ، 1 / 14 ، تہذیب الاسماء ، 1 / 229
Comments