بڑھاپے کا وقار

بڑھاپے کا وقار

از : شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ

اَلحمدُ لِلّٰہ سِنِ ہجری کے حساب سے میں اپنی زندگی کے 74سال گزار چکا ہوں ، بزرگوں (یعنی بوڑھے صاحبان) کی خدمت میں کچھ مدنی پھول پیشکرتا ہوں : بسا اوقات “ بزرگوں “ کو اولاد اور گھر کے دیگر افراد سے شکایات ہوتی ہیں کہ ہماری عزت نہیں کرتے ، ہمارے ساتھ احترام سے پیش نہیں آتے اور ہماری باتوں پر توجہ نہیں دیتے وغیرہ وغیرہ۔ میری گزارش ہے کہ اگر آپ خود کو تھوڑا سنبھالیں ، اپنے اوپر کنٹرول رکھیں اور کچھ احتیاطیں بھی کریں تو اِنْ شآءَ اللہُ الکریم آپ ان کے ہاں معزز بن جائیں گے اور آپ کی باتیں بھی سنی اور مانی جائیں گی۔

پہلی بات تو یہ کہ آپ “ لُوز ٹاکنگ نہ کیا کریں “ کیونکہ بعض اوقات “ بزرگوں “ میں یہ چیز پیدا ہو جاتی ہے اور یہ بے موقع بولتے ، بچّوں کو ٹوکتے اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہیں ، ہر کسی کی باتوں اور گھر کے ہر معاملے میں اِنٹرفیئر کرتے ہیں ، نہ کہنے کی باتیں اُگل دیتے ، دوسروں کے سامنے اپنے گھر کے راز کھول دیتے یا اپنے ایسے راز خود ہی بیان کر دیتے ہیں کہ جن کا چھپانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر “ بزرگ شخص “ اس طرح کے کام کرتا رہے گا تو معزز نہیں بن سکے گا بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں گھر کے لوگ تنگ آ کر دعا کرتے ہوں کہ “ یَااللہ! ان کی مٹّی ٹھنڈی کر! ہر معاملے میں یہ ہمیں بہت تنگ کرتے ہیں ، ان کادماغ کام نہیں کرتا ، یہ بَس کسی کے محتاج نہ ہوں ، انہیں ایمان و عافیت کے ساتھ دنیا سے اُٹھالے یعنی موت دے دے! “ ایسی دعا کرنے والے بھی مُعاشرے میں آپ کو ملیں گے۔

بَسااوقات “ بزرگ لوگ “ کہتے ہیں کہ ہم تو صحیح بات کرتے ہیں ، کیا صحیح بات بھی نہ کریں؟ تو ٹھیک ہے آپ “ اپنی صحیح بات “ کرتے رہیں ، مگر پھر تیار رہیں کہ ہوسکتا ہے گھر کے سارے لوگ مِل جُل کر آپ کو گھر کے کسی کونے میں ڈال دیں یا ہوسکتا ہے کہ اولڈ ہاؤس ہی پہنچا دیں۔ میرے بھولے بھالے بزرگو! یہ ضروری نہیں کہ جس بات کو آپ صحیح سمجھتے ہوں وہ حقیقت میں صحیح بھی ہو ، نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ جس صحیح بات کو آپ جس موقع پر کر رہے ہوں وہ موقع اس بات کے کرنے کا بھی ہو ، ہوسکتا ہے کہ آپ کی بات تو صحیح ہو مگر وہ وقت اور موقع اس بات کے کرنے کا نہ ہو ، لہٰذا پہلے یہ غور کیجئے کہ آپ کی بات مانی جائے گی یا نہیں ، وہ موقع بات کرنے کا  ہے  یا نہیں ، اگر آپ کو یہ لگے کہ آپ کی بات نہیں مانیں گے تو پھر مہربانی فرما کر آپ چُپ رہیں اور اپنا وَقار بَرقَرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی عزت کو بھی بَحال رکھیں۔

دوسری عرض یہ ہے کہ “ ہنستے اور مسکراتے رہئے “ جو “ بزرگ “ ہنستے اور مسکراتے رہیں گے ، جب تک شریعت واجب نہ کرے تب تک اولاد اور گھر والوں وغیرہ کے معاملات میں انٹرفیئر نہیں کریں گے تو بہت امید ہے کہ اس کی عزت بَنی رہے۔ میں نے کئی عمر رسیدہ بزرگ سُنّی علمائے کرام کی زیارت کی ہے کہ شریعت پر چلنے ، لوز ٹاکنگ نہ کرنے ، شور شرابے سے بچنے ، نیز عمدہ اَخلاق اپنانے اور مسکراتے رہنے کے سبب لوگوں کے دلوں میں ان کا احترام ہوتا اور معاشرے میں ان کی بڑی عزت ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ اگرچہ عالم نہیں ہیں مگر بڑھاپے میں بھی معزز و محترم بنے رہنا چاہتے ہیں تو اپنی بہو بیٹیوں ، بیٹوں ، پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں سب کے ساتھ باوقار رہئے ، چِڑچڑے پَن اور غصے سے بچتے رہئے ، ہنستے اور مسکراتے رہئے ، اللہ پاک نے چاہا تو آپ کی عزت بنی رہے گی ، ورنہ خدانخواستہ روتے رہیں گے کہ میری اولاد میرا احترام نہیں کرتی ، میرا ادب نہیں کرتی ، گھر کے لوگ مجھے عزت نہیں دیتے وغیرہ۔ اللہ کرے آپ کو اپنی عزت کا مطالبہ کرنا ہی نہ پڑے اور آپ کی اولاد اور گھر کے دیگر افراد آپ کا احترام کرتے رہیں۔ اگر میرے مدنی پھولوں کے مطابق عمل کریں گے تو اِنْ شآءَ اللہُ الکریم بڑھاپا سکون کے ساتھ گزرے گا۔ اللہ پاک میرے کہے کی لاج رکھے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(نوٹ : یہ مضمون 21ذوالقعدۃ الحرام1442ہجری مطابق 21جون2021ء کو عشا کی نماز کے بعد ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرکے امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے نوک پلک سنورواکر پیش کیا گیا ہے۔ )


Share