حدیث شریف اور اس کی شرح
دو نعمتوں کی قدر کیجئے
* مولانا محمد ناصرجمال عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2022ء
اللہ پاک کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا : نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْھِمَاکَثِیْرٌمِّنَ النَّاسِ : الصِّحَّةُ وَالْـفَرَاغُ یعنی صحت اور فراغت دوایسی نعمتیں ہیں جن سے اکثر لوگ دھوکا کھاجاتے ہیں۔ [1]
اللہ کریم نے انسان کو لاتعدادنعمتوں سے نوازا ہے ، ربِّ کریم ارشاد فرماتا ہے : (وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-) ترجَمۂ کنزالایمان : اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے۔ [2] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
ہر ہر نعمت کا شکرکرنا تو بہت دور ، بندہ تو تمام نعمتوں کو شمار بھی نہیں کرسکتا۔ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ وہ رحمٰن و رحیم ربّ ادائے شکر میں ہونے والی کوتاہیوں پرگرفت نہیں فرماتا اورنہ ہی فضل و احسان کاسلسلہ روکتا ہے۔ اس حدیث ِ پاک میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دو ایسی نعمتیں ذکر فرمائی ہیں ، جن کے ہوتے ہوئے بہت سارے لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں ، نہ اُن کی قدر و قیمت پہچانتے ہیں اور نہ ہی وہ ان دونوں نعمتوں کے ذریعے اپنی دنیا و آخرت سنوارتے ہیں۔ صحت سے مراد بدن کا سالم اور طاقت و قوت والا ہونا ہےاور فراغت سے مراد یہ ہے کہ انسان کا دنیا کی فکروں سےآزاد ہونا۔ مذکورہ حدیث کو سمجھانے کے لئے شارحین نے جو وضاحتیں کی ہیں ، اُن کا خلاصہ ملاحظہ کیجئے :
فرمانِ رسالت سےیہ بات واضح ہوتی ہے کہ لوگوں کے پاس جب تک صحت اور فرصت ہوتی ہےوہ اِس کی قدر نہیں کرتےلیکن جب صحت مرض میں اور فراغت مشغولیت میں بد ل جاتی ہے تو اُن کاموں کے نہ کرنے پرشرمندہ ہوتے ہیں جو كام اِن دونوں نعمتوں کے ہوتے ہوئے نہیں کئے ہوتے اور اس وقت کی شرمندگی انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ [3] مذکورہ حدیث میں صحت و فراغت كو سرمائے کےساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ یہ دونوں فائدے کے اسباب میں سے ہیں۔ جو صحت و فراغت کواللہ پاک کےاحکام بجالانے میں استعمال کرےتو اُسےفائدہ ہوگاجو شیطان کی مان کرصحت و فراغت کو اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرےتواُس کاسرمایہ ضائع ہوجاتا ہے۔ [4]
ان دونوں نعمتوں کی اہمیت و قدر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ایک اور فرمان سے بھی واضح ہوتی ہے چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : پانچ کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو ، زندگی کو موت سے پہلے ، فرصت کو مشغولیت سے پہلے ، مال داری کو محتاجی سے پہلے ، جوانی کو بڑھاپے سےپہلے اور تندرستی کو بیماری سے پہلے۔ [5]
انسان دھوکا یوں کھاتا ہے : جو انسان صحت مند بھی ہو اور اُسے نیکیاں کرنے کا وقت بھی ملے مگر وہ پھر بھی اپنی سستی کی وجہ سے نیکیاں نہ کرسکے اور “ بعد میں کرلوں گا ، ابھی زندگی پڑی ہے ، میری عمر ہی کیا ہے ، یہ کام تو بڑھاپے کے ہیں “ جیسے جملے بول کر اپنی امیدوں کو لمبا کردیتا ہے وہ سستی و کاہلی کے جال میں پھنس کر اپنا قیمتی وقت اور صحت و تندرستی کے ایام برباد کر بیٹھتا ہے۔
کسی نے ایک حکیم سے کہا کہ میرے سامنے کسی ایسی چیزکی خوبیاں بیان کیجئے کہ جس کے استعمال سے میں دن کے وَقْت بھی سوتا رہوں۔ حکیم نے کہا : اے فُلاں! تُو کتنا کَم عَقل ہے! تیری عُمْر کا آدھا حِصَّہ تو پہلے ہی (رات کو غفلت میں) سوتے ہوئے گزر رہا ہے ، حالانکہ نیند مَوْت کا دوسرا نام ہےاور اب تُو اپنی عُمْر کے 4 حصوں میں سے تیسرے حصے کو بھی نیند (یعنی موت)کی نَذر کرنا چاہتا ہے اور صرف ایک حِصّے کو زندگی بنانا چاہتاہے؟ تو اُس بندے نے پوچھا : وہ کیسے؟ اُس حکیم نے بتایا : مثلاً تیری عُمْر 40 سال ہو تو زندگی والی عُمْر20 سال ہو گی اور تُو ہے کہ اِسے مزید 10 سال بنانا چاہتا ہے (یعنی جب دن کو بھی مزید سویا رہے گا تو مزید 10 سال کم ہو جائیں گے اور تیرے پاس آخِرت کےلئےزادِ راہ اِکَٹَّھا کرنے کے لئے صِرْف 10 سال ہی باقی بچیں گے ، لہٰذازیادہ سونے کی خواہش کو دل سے نکال دے۔ )[6]
اس واقعے میں بالخُصُوص اُن نادانوں کے لئے عِبرت کا سامان موجود ہے کہ جن کے شَب و روز کا اَکثر وَقْت فقط سونے میں یا بیماروں کی طرح بستر پر پڑے رہنے میں ہی کَٹ جاتا ہے ، ایسے لوگوں کو نہ تونمَازوں کا ہوش ہوتاہے اورنہ ہی گھر والوں کے حُقوق کی پروا۔ یاد رکھئے!بِلا وجہ زیادہ سونا ایک ایسی بُری عادت ہے کہ جو وَقْت کی شدید بَربادی کے ساتھ ساتھ دنیا و آخِرت میں ذِلّت و رُسوائی کا باعِث ہے ، چنانچہ رسول ِ اكرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاِرْشادفرمایا : حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السّلام سےاُن کی والِدۂ ماجِدہ رضی اللہُ عنہا نے کہا : اے میرے بیٹے! رات کوزیادہ دیر نہ سونا کیونکہ رات کو زیادہ سونا انسان کو قِیامت کےدن فقیر بنادےگا۔ [7]
صحت کی اہمیت سمجھئے : ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ عام طورپر ایک بیمار شخص معاشرے کی ترقی و خوش حالی کے لئے بہتر کردار ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ اللہ اوربندوں کے حقوق صحیح طور پر ادا کرنے کی طاقت و قدرت رکھتا ہےجب کہ ایک صحت مند آدمی معاشرے کو طاقت وقوت فراہم کرسکتا ہے اور مظلوموں کاسہارا بننے ، بے کسوں کی مدد کرنے اور غمزدوں کی مشکل آسان کرنے میں آگے آگے رہ سکتا ہے۔ بیماری انسان میں ایک قسم کی بیزاری پیدا کردیتی ہے جب کہ صحت انسان کو چاک و چوبند رکھتی ہے ، بیماری میں انسان اعلیٰ نعمتیں کھانے سے محروم ہوجاتا ہے جب کہ صحت مند شخص اِن چیزوں سے لطف اندوز ہوتا ہے ، ایک بیمار شخص اللہ پاک کی عبادت اُس انداز سے نہیں کرپاتاجیسے ایک صحت مند آدمی کرتا ہے۔ اللہ کریم نے آپ کو صحت کی نعمت عطا کی ہے تو اِسےغنیمت جانئے اور اِس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے گناہوں سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کا معمول بنائیے اور نیکیاں اوربھلائیاں کرنے کی عادت بنائیے۔ نیکیاں کرنے میں جلدی کو اپنا معمول بنائیے۔
کائنات کی سب سے دانا و عقلمند ہستی جنابِ محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان سے یہی سمجھ آتا ہے کہ وقت اور صحت دونوں کی قدر وقیمت سمجھنا ، دونوں ہی کی حفاظت کرنا اور دونوں ہی سے بھرپور دینی و اُخروی فوائد حاصل کرنا ہی عقلمندی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃُ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) کراچی
[1] بخاری ، 4 / 222 ، حدیث : 6412
[2] پ13 ، ابراھیم : 34
[3] شرح المصابیح لابن ملک ، 5 / 381 ، حدیث : 3997
[4] فیض القدیر ، 6 / 375 ، تحت الحدیث : 9280
[5] مصنف ابن ابی شیبہ ، 8 / 127 ، حدیث : 18
[6] قوتُ القلوب ، 1 / 206
[7] ابن ماجہ ، 2 / 125 ، حدیث : 1332۔
Comments