میاں بیوی اچھے پہلو تلاش کریں

فریاد

میاں بیوی اچھے پہلو تلاش کریں

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2022ء

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ کسی نے مجھ سے اپنے گھریلو مَسائل ڈِسکس کئے ، تو میں نےاس کے سامنے اس کے مسائل سے متعلق کچھ ایسی باتیں بیان کیں جن میں شکر کے پہلو نکلتے تھے ، مثلاً میں نے کہا کہ آپ کو جن چند چیزوں کے حوالے سے شکایت ہے ، اگر ان چند میں مزید فلاں اور فلاں چیز کا اضافہ ہوتا اور اس طرح آپ کو تکلیف و پریشانی زیادہ ہوتی تو آپ کیا کرتے؟ یوں اس کا ایک ایک پرابلم سُن کر میں نے کہا اگر اس پرابلم کے بجائے اس سے بھی بڑا فلاں پرابلم ہوتا تو آپ کاکیاہوتا؟یا اسی میں مزید اضافہ ہوتا تو کیا حالت ہوتی؟ تقریباً پندرہ سے بیس منٹ کی اس کے ساتھ گفتگو ہوئی ، اس کے بعد دو دن تک تو مجھے اس کا فیڈ بیک ملتا رہا جس سے لگ رہا تھا کہ اس نے شکر کے پہلوؤں پر نظر رکھنا شروع کردی ہے ، جس کی وجہ سے مسائل کے باوجود بھی اس کو تسلی مل گئی ہے اور اس شخص کی زندگی میں کچھ سکون آگیا ہے ، اس کی تسلی والا ذہن اور مزاج جب مجھے محسوس ہوا تو پھر میں نے چاہا کہ کیوں نہ اس ذہن کو دیگر لوگوں تک بھی پہنچایا جائے کہ کیا پتا مزید کچھ لوگوں کا بھلا ہوجائے۔

اے عاشقانِ رسول! آپ سے بھی گزارش ہے کہ اگر آپ کے گھر میں بھی کوئی پریشان کرنے والی بات پائی جارہی ہے ، اس میں اگر آپ بھی یہ سوچ رکھیں گےکہ اس کے بجائے فلاں اس سے بھی بڑی بات ہوتی تو پھر کیا ہوتا؟ جو ہورہا ہے اس کے بجائے اگر فلاں اس سےبھی بڑا معاملہ ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟ لہٰذا شریعتِ مُطَہَّرَہ کی رُو سے جو باتیں اِگنور کرنےکی ہیں ان میں اِگنور کرنے کا آپ اپناذہن بنائیں اور ساتھ ہی اچھے پہلو بھی تلاش کرتے رہیں۔

یاد رکھئے کہ ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی شخص اچھی عادتوں سے بالکل ہی خالی ہو ، کچھ نہ کچھ اچھی عادتیں ہر انسان میں ہوتی ہی ہیں ، بَس انہیں دیکھنےوالی نظرکی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر بیوی کی کچھ عادتیں درست نہیں تواس کی جواچھی عادتیں ہیں ، آپ ان پر نظر کریں مثلاً اس کے ہاتھوں کے بنے ہوئے کھانوں میں لذت نہیں ہے یعنی وہ کھانا ٹیسٹی نہیں بناتی ، یوں ہی گھر کے دیگرکچھ کام صحیح طور پر نہیں کرتی ، صفائی ستھرائی میں بھی سُست ہے ، اپنے شوہر پر کم دھیان دیتی ہے ، ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے بسااوقات شوہر کا مزاج بدلتا ہےکہ یار! میں کہاں پھنس گیا؟ ایسی صورتِ حال میں اچھے پہلو پر غور کرنا چاہئے ، مثلاً ٹھیک ہے کہ اس کےہاتھوں میں لذّت نہیں ہے یا وہ کھانا صحیح نہیں بناسکتی ، گھر کے دیگرکئی کام بھی اچھےانداز سے نہیں کرسکتی مگروہ زبان کی بُری نہیں ، بَھلے اس کےہاتھوں میں لذت نہیں ہے مگراس کی زبان میں مٹھاس ہے ، بولتی میٹھا ہے ، اس کے کردار میں بھی مٹھاس ہے ، اس کامنہ ہروقت پھولا ہوا نہیں رہتا ، اسے مسکرانا آتاہے ، بچّوں کی تربیت اچھی کررہی ہےاوران پرزیادہ توجہ دیتی ہے۔

اگر یوں ہوتا کہ کھانا تو ایسا اچھا بناتی کہ آپ انگلیاں بھی چاٹ جاتے مگر خدا نخواستہ بَدتمیز اور بَداخلاق ہوتی تو آپ کیا کرتے ، آپ کوزندگی بھر شُبہات اور وسوسوں میں ڈالے رکھتی ، آپ کی کمزورباتیں دوسروں کو بیان کرتی ، گھر کی باتیں باہر کرتی ، گھر اور خاندان میں لڑائیاں اور جھگڑے کرواتی ، اللہ نہ کرےاگر ایسی ہوتی تو پھر آپ کیا کرتے؟ کھاناتوآپ کو باہر بھی مل سکتاتھامگران چیزوں کاآپ کیا علاج کرتے؟ تو یہ سارے شکر کے پہلو ہیںخود غور کرلیجئے کہ آپ کے دل ودماغ کا سکون کس چیز میں ہے؟

جوباتیں میں نےعرض کی ہیں یہ ہمارے پیارے دینِ اسلام کی خوب صورت تعلیمات ہی ہیں ، اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشادفرمایا : کوئی مؤمن مرد (اپنی) مؤمنہ (بیوی) سےنفرت اوربغض نہ رکھے ، اگر اس کی کوئی عادت ناپسند ہوئی تو دوسری عادت پسند ہوگی۔ (مسلم ، ص595 ، حدیث : 3648) یعنی تمام عادتیں خراب نہیں ہوں گی جب کہ اچھی بُری ہر قسم کی باتیں ہو ں گی تو مرد کو یہ نہ چاہيے کہ خراب ہی عادت کو دیکھتا رہے بلکہ بُری عادت سے چشم پوشی کرے اور اچھی عادت کی طرف نظر کرے۔ (بہارشریعت ، حصہ : 7 ، ص103)

حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : سُبْحٰنَ اللہ کیسی نفیس تعلیم ہے! مقصد یہ ہے کہ بے عیب بیوی ملنا ناممکن ہے ، لہٰذا اگر بیوی میں دو ایک بُرائیاں بھی ہوں تو اسے برداشت کرو کہ کچھ خُوبیاں بھی پاؤ گے۔ یہاں (صاحبِ )مرقات نے فرمایا : جو بےعیب ساتھی کی تلاش میں رہے گا وہ دُنیا میں اکیلا ہی رہ جائے گا ، ہم خود ہزارہا بُرائیوں کا سَرچشمہ ہیں ، ہر دوست عزیز کی بُرائیوں سے درگزر کرو ، اچھائیوں پر نظر رکھو ، ہاں ! اِصلاح کی کوشش کرو ، بے عیب تو رسولُ اللہ(  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح ، 5 / 87)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت شاہ امام احمدرضاخان  رحمۃُ اللہِ علیہ سے ایک عورت کےمتعلق سوال کیا گیا کہ جسے اس کی نافرمانی اور بدتمیزی کےسبب اس کا شوہر طلاق دینا چاہتا تھا۔ اس پر امامِ اہلِ سنت  رحمۃُ اللہِ علیہ نےحکمِ شرعی بھی بیان فرمایا اور شوہر کو چند مشورے بھی دیئے ، چنانچہ ارشاد فرمایا : اور اگر عورت کو طلاق دے کر پھر کبھی نکاح نہ چاہے تو خیر ، ورنہ (یعنی کسی دوسری عورت سے شادی کرنےکی صورت میں) کیا معلوم کہ دوسری اس (پہلی) سے بھی بُری ملے ، اس لئے حتَّی الاِمکان عورت کے ساتھ نیک برتاؤ اور اس کی دلجوئی اور اُسے خوش کرکے اپنی اطاعت پر لانا اور اس کی کج خلقی پر صبر کرنا چاہئے۔ (فتاویٰ رضویہ ، 12 / 328)

 اسی طرح شوہرکی طرف آتےہیں ، اس کے بارے میں عام طورپربیوی کو یہ شکایات ہوتی ہیں کہ وہ خرچہ پورانہیں دیتا ، اس کا موڈ صحیح نہیں رہتا ، غصہ کرتارہتاہے ، مانتاہوں ایسی صورتِ حال میں اس کے ساتھ گزارہ مشکل ہےمگراس کے اچھے پہلوبھی تو ہوں گے ، مثلاً وہ اپنی بیوی پرشک نہیں کرتا ، اسے مارتا پیٹتا اور مزید ظلم وزیادتی اس پرنہیں کرتا ، ملازمہ اور نوکرانیوں کی طرح اس سےکام نہیں لیتا ، اسےگندی گالیاں نہیں دیتا ، جب تک شریعت اس پرواجب نہ کرےوہ اپنی بیوی کے کمزور پہلو دوسروں کو بیان نہیں کرتا ، اس پر تہمت اور بہتان نہیں باندھتا ، اپنے بچّوں یا گھر کے دیگر لوگوں کے سامنے اسے ذلیل و رُسوا نہیں کرتا ، اسے بے پردہ لے جاکر اپنے دوستوں کے سامنے کھڑانہیں کردیتا ، یوں بیوی اگر غور کرے گی تواسے اپنے شوہر میں ایسےکئی پہلوملیں گے کہ جن کے سبب اسے شکرکاموقع ملےگااوراپنی موجودہ حالت پر اللہ پاک نے چاہاتوراضی رہنا نصیب ہوگا۔

میری ہر شوہر اور ہربیوی سے فریاد ہےکہ آپ میں سے ہر ایک دوسرے میں اچھاپہلوتلاش کرے ، اللہ پاک نے چاہا تو آپ کو شکرکےبہت مواقع ملیں گےاورزندگی میں سکون بھی نصیب ہوگا۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی سعادت نصیب فرمائے۔     اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share