Time management
قیمتی وقت کے عظیم قدر دان(قسط : 02)
* مولانا محمد آصف اقبال عطّاری مَدَنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2022ء
انسان کی سانسیں اور اس کی زندگی کے لمحات انمول ہیروں کی طرح ہیں مگر اس بیش بہا خزانے کے صحیح استعمال سے اکثر لوگ غفلت کا شکار ہیں۔ حضور تاجدارِ ختمِ نبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس حوالے سے کتنی پیاری بات ارشاد فرمائی ہے کہ “ نِعْمَتَانِ مَبْغُوْنٌ فِیْھِمَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ اَلصِّحَۃُ وَالْفَرَاغُ یعنی دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں ، صحت اور فراغت۔ “ [1]
وقت ضائع کرنے پر نہ صرف دنیا میں شرمندگی ہوتی ہے بلکہ آخرت میں بھی حتّٰی کہ جنت میں داخل ہونے کے باوجود بھی حسرت ہوگی۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لَیْسَ یَتَحَسَّرُ اَھْلُ الْجَنَّۃِ عَلَی شَیْءٍ اِلَّا عَلَی سَاعَۃٍ مَرَّتْ بِھِمْ لَمْ یَذْکُرُوااللہَ عَزَّوَجَلَّ فِیْھَا یعنی جنت میں اہلِ جنت کو کسی شے پر حسرت نہ ہوگی سوائے اُس گھڑی کے جس میں وہ ذکرِالٰہی نہ کرسکے۔ [2]
وقت ضائع ہونے پر ندامت کے متعلق صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ کا یہ قول بھی ملاحظہ فرمائیں : مَا نَدِمْتُ عَلَی شَیْءٍنَدْمِیْ عَلَی یَوْمٍ غَرَبَتْ شَمْسُہُ نَقَصَ فِیْہِ اَجَلِیْ وَلَمْ یَزِدْ فِیْہِ عَمَلِیْ یعنی مجھے اس سے زیادہ ندامت وافسوس کسی اور چیز پر نہیں ہوتا کہ جس دن کا سورج اس حال میں غروب ہوجائے کہ میری عمر تو گھٹ جائے مگر میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکے۔ [3]
وقت کے معاملے میں یہ حضرات ایسے حسّاس تھے کہ وقت ضائع کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ یہی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : اِنِّیْ لَاَمْقُتُ الرَّجُلَ اَنْ اَرَاہُ فَارِغًا لَیْسَ فِیْ شَیْءٍمِنْ عَمَلِ الدُّنْیَاوَلَاعَمَلِ الْآخِرَۃ یعنی بے شک مجھے اس فارغ وبیکار شخص سے نفرت ہے جسے میں دیکھوں کہ نہ تو وہ کسی دنیوی کام میں مشغول ہے اور نہ دینی میں۔ [4]
جن شخصیات نے دین یا دنیا کے متعلق نمایاں خدمات سر انجام دیں ان کی اچھی عادتوں میں سب سے اہم عادت وقت کی قدر دانی ہے۔ یہی وصف تمام ترقیوں کی بنیاد ہے۔ دنیاوی زندگی میں ملنے والا وقت بے بدل نعمت ہے۔ آخرت میں دراصل اسی وقت کی کمائی کھائی جانی ہے۔ چاردن کی اس عارضی زندگی پر آخرت کی ہمیشہ والی زندگی کا حال موقوف ہے۔ اس زندگی کے عمل سے وہ زندگی بنے گی۔ خوش نصیبی کی نمایاں علامت یہ ہے کہ وقت کو صحیح طرح ترتیب دے کر اسے ہمت وخلوص سے نبھایا جائے۔ اللہ ربُّ العزت کے فضل و کرم سے اور وقت کی قدر کی بدولت نعمان بن ثابت “ امامِ اعظم “ شیخ عبدالقادر جیلانی “ غوثِ اعظم “ علی ہجویری “ داتا گنج بخش “ اور معینُ الدّین “ خواجہ غریب ِنواز “ بن گئے۔
آج دنیا میں جن لوگوں کی کتابوں اورتجربات سے فائدہ اٹھاکر دین ودنیا کے فوائد حاصل کئے جارہے ہیں یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے وقت کی قدر وقیمت کو جانا اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو قیمتی بنایا ، اس لئے آج ہم ان کے علوم وتجربات کے محتاج ہیں اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ [5]
یہاں وقت کے بعض عظیم قدر دانوں کے چند اقوال اور واقعات ذکر کئے جاتے ہیں تاکہ انہیں پڑھ / سن کر ہمیں بھی وقت کی قدر کرنے کاجذبہ مل جائے۔
(1)امام فخرالدین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : بخدا! کھانا کھاتے وَقت عِلمی کا م (تحریر یا مُطالَعہ) ترک ہوجانے کا مجھے بَہُت افسوس ہوتا ہے کیونکہ وقت نہایت ہی قیمتی دولت ہے۔ [6]
(2)امام اِبنِ حجرعسقلانی فرماتے ہیں : حضرت شمس الدّین اَصبہانی رحمۃُ اللہِ علیہ رات کو اس خوف سے کھانا کم کھاتے تھے کہ زیادہ کھانے سے پانی پینے اور پھر بار بار استنجا کی ضرورت پڑے گی اور وقت زیادہ لگے گا۔ [7]
(3)حضرت خطیبِ بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ کے بارے میں آتا ہےکہ آپ راہ چلتے ہوئے بھی مطالَعَہ جاری رکھتے (تاکہ وقت مزید کار آمد بنایا جاسکے)۔ [8]
(4)حضرت ابنِ عقیل رحمۃُ اللہِ علیہ جن کی صرف ایک کتاب الفنون 800جلدوں پر مشتمل ہے ، فرماتے ہیں : وقت گزارنے ، نفس کو مصروف کرنے اورقربِ الٰہی پانے کا بہترین طریقہ ، علم حاصل کرنا ہے کیونکہ علم جہالت کے اندھیرے سے شریعت کی روشنی میں لے جاتا ہے۔ پس میں نے خود کو اس میں مشغول کیا اور اپنا وقت اس میں صَرف کر دیا۔ [9]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، سینیئر مترجم ، شعبہ تراجم ، المدینۃ العلمیہ کراچی
[1] بخاری ، 4 / 222 ، حدیث : 6412
[2] کنزالعمال ، جز1 ، 1 / 216 ، حدیث : 1802
[3] قیمۃ الزمن عندالعلماء ، ص27
[4] مصنف ابن ابی شیبہ ، 19 / 172 ، رقم : 35704
[5] ماخوذ ازوقت ہزار نعمت ، ص124
[6] ماخوذ از وقت ہزار نعمت ہے ، ص101 ، عیون الانباء فی طبقات الاطباء ، ص 462
[7] الدررالکامنۃ للعسقلانی ، 4 / 328
[8] تذکرۃ الحفاظ ، 3 / 224
[9] ماخوذ ازوقت کی اہمیت ، ص33
Comments