سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی(قسط16)
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اعزاز و اکرام
* مولانا ابوالحسن عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2022ء
گزشتہ سے پیوستہ
معزز ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دشمنانِ دین نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اعتراضات کئے تو خود ربُّ العزّت نے جوابات دئیے ، ایک بار وحی کے نزول میں کچھ وقفہ آیا تو مشرکین نے کہا : محمد ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کے رب نے اُنہیں چھوڑ دیا تو ربِّ کریم نے مشرکین کے رَد میں پوری سورت نازل فرمادی اور رہتی دنیا تک کے لئے اعلان فرمادیا کہ اے محبوب! تمہارے رب نے تمہیں نہ چھوڑا۔ [1]
اُمَیَّہ بن خلف رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات کے بارے میں بکواس کرتا تھا ، اللہ کریم نے اس کےاور اس جیسے دوسروں کے رَد میں پوری سورۃُ الھُمَزَۃ نازل فرمادی۔ [2]
ابولہب اور اس کی بیوی نے پیارے محبوب کو ستایا تو ربُّ العزّت نے دونوں کے رد اور انجام ِبد کے بارے میں پوری سورت نازل فرمادی۔ [3]
ولید بن مغیرہ نے حبیبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بُرابھلا کہا تو ربِّ کریم نے اپنے محبوب کا اتنا اکرام فرمایا کہ ولیدبن مغیرہ کے رد میں قراٰنِ کریم کی کئی آیات نازل فرمادیں اور اس کے بُرے کرتوت ساری دنیا کو بتادیئےیہاں تک کہ اس کے حرامی ہونے کو بھی آشکار کردیا۔ [4] ایک مقام پر یہ بھی اعلان کردیا کہ جو میرے محبوب کا دشمن ہے وہ ہر خیر سے محروم ہے۔ [5] آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا۔ [6]
محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کا بھی ربُّ العزّت نے اتنا اکرام فرمایا کہ “ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) “ [7] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) فرما کر ان کے فرمان کو مستند کردیا تاکہ کوئی محبوب کے الفاظ کا انکار نہ کرے۔
عالمِ دنیا میں نسبتِ حبیب کا اعزاز و اکرام
محبوب کے ساتھ نسبت رکھنے والی ہر چیز کو شرف و اعزاز بخشا ، جو ان کا صحابی بن گیا ا سے وعدۂ جنت عطا فرمادیا۔ [8]
محبوب کے اعزاز و اکرام میں ان کی ازواج کو بھی کائنات کی خواتین سے جدا مقام عطافرمایا اور واضح اعلان فرمادیا کہ نبی کی بیبیاں عام عورتوں کی طرح نہیں ہیں۔ [9]
محبوب کی عزّت و حُرْمَت یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زوجۂ محترمہ پر الزام لگا تو ربِّ کریم نے ان کی طہارت و پاکیزگی پر قراٰن کی آیات نازل فرمائیں۔ [10]
عالَمِ برزخ میں اعزاز و اکرام
فضل و اعزاز کی بارشیں صرف ظاہری حیاتِ مبارکہ تک ہی نہیں بلکہ دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی جاری ہیں۔ صبح و شام ستّر ، ستّر ہزار فرشتوں کو صرف دُرود و سلام عرض کرنے کیلئے اپنے حبیب کے مزارِ اقدس پر حاضر ہونے کا حکم دیا اور کیفیت یہ کہ جو ایک بار آجائے دوبارہ قیامت تک نہ آئے۔ [11]
پیارے حبیب کے اکرام میں قبرِ اقدس پر ایک ایسے فرشتے کو مقرر کردیا جو ساری کائنات میں سے کسی بھی زبان ، کسی بھی وقت ، کسی بھی انداز اور کسی بھی مقدار میں دُرود پڑھنے والے کا دُروداوراس کانام مع ولدیت آقا کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے۔ [12]
دنیا سے رخصت ہونے والوں کی برزخی زندگی کی راحت اپنے حبیب کی پہچان پر موقوف فرمادی کہ جو انہیں پہچانے گا وہی نجات پائے گا۔ [13]
میدانِ محشر میں اعزاز و اکرام
فضل و اعزاز کے عظیمُ الشّان مَظاہِر میدانِ حشر میں بھی دیکھے جائیں گے۔ سب سے پہلے قبرِ انور سے ظہور اور مُعَزّزین کے جھرمٹ میں میدانِ حشر کی جانب روانگی اور دیگر کئی طرح کے اعزازات عطا ہوں گے۔
میدانِ حشر میں اِکرامِ نبوی کا عظیم و عجیب مَنظر یہ بھی ہوگا کہ ہر کوئی ربُّ العزّت کے جلال سے ڈرا اور سہما ہوا ہوگا ، لوگ انبیائے کرام کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سفارش کریں لیکن ہر نبی دوسرے کے پاس بھیجیں گے بالآخر لوگ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں پہنچیں گے اور ربُّ العزّت کی جانب سے پیارے حبیب کا اکرام دیکھیں گے۔ میدانِ حشر میں جب ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہوگا اور پیارے آقا ربّ العزّت کی بارگاہ میں سربسجود ہوں گے وہ بھی اکرام و اعزاز کا عظیم منظر ہوگا کہ ربِّ کریم فرمائے گا : اِرْفَعْ رَاْسَكَ وَسَلْ تُعْطَهْ ، وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ یعنی اپنا سر اٹھائیے ، مانگیں! عطا کیا جائے گا اور کہیں! آپ کی بات سُنی جائے گی اور شفاعت کریں! قبول کی جائے گی۔ [14]
میدانِ حشر میں جب سابقہ قومیں اپنے انبیاء و مرسلین کا انکار کریں گی تو ان مُنکرین کے سامنے انبیائے کرام کی صداقت و حقانیت واضح و آشکار کرنے کیلئے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گواہی حرفِ آخر ہوگی۔ [15]
جنّت میں اعزاز و اکرام
جنّتی جنّت میں بھی رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اعزاز و اکرام دیکھیں گے جس کی ایک مختصر سی جھلک اسی مضمون کی پچھلی قسط میں بیان کردہ حدیثِ پاک میں بھی ہے کہ ایک ہزار خدام آپ کی خدمت کے لئے حاضر رہیں گے حدیثِ پاک میں ان ایک ہزار خدام کا وصف “ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ ، أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُورٌ “ کے الفاظ سے بیان ہوا ، اس کی شرح میں عظیم محدث مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : بَیْض جمع ہے بیضۃ کی ، اس سے شتر مرغ کے انڈے مراد ہیں۔ مکنون کے معنی ہیں جسے گرد و غبار نہ پہنچا اپنی اصلی صفائی پر ہوں۔ عرب میں شتر مرغ کے انڈے کے رنگ کو بہت حسین سمجھتے تھے لہٰذا انہیں سمجھانے کے لیے یہ فرمایا ، قرآنِ کریم میں حوروں کے حسن کو بھی انہی الفاظ سے بیان کیا گیا ہے نیز ان خدام کو بکھرے ہوئے موتی بھی کہا گیا کیونکہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وہ خادم ہر طرف پھیلے ہوں گے لہٰذا انہیں بکھرے موتیوں سے تشبیہ دینا بہت ہی موزوں ہے۔ یہ خدام یا تو قیامت ہی میں حضور کے گرد و پیش ہوں گے یا جنّت میں ، اگر جنّت میں ہیں تو علاوہ اُن غِلمانوں کے ہوں گے جو دوسرے جنتیوں کو عطا ہوں گے۔ [16]
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] مسلم ، ص767 ، حدیث : 4656
[2] سیرت ابن ہشام ، ص141
[3] پ 30 ، اللھب
[4] پ29 ، القلم : 13
[5] پ30 ، الکوثر : 3
[6] پ6 ، المآئدۃ : 67
[7] پ27 ، النجم : 4 ، 3
[8] پ5 ، النسآء : 95
[9] پ22 ، الاحزاب : 32
[10] پ18 ، النور : 11
[11] مشکوٰۃ المصابیح ، 2 / 401 ، حدیث : 5955ملخصاً
[12] الصلاة علی النبی لابن ابی عاصم ، ص42 ، رقم : 51
[13] بخاری ، 1 / 450 حدیث : 1338
[14] بخاری ، 3 / 165 ، حدیث : 4476
[15] پ5 ، النسآء : 41
[16] مراٰۃ المناجیح ، 8 / 30ملخصاً
Comments