سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمار انبی

رحمتِ عالَم    صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم     کی 4 خصوصی شانیں

(1)مخلوق میں سب سے افضل ہستی :رسولِ اکرم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   اللہ پاک کی ساری مخلوق سے یہاں تک کہ تمام فرشتوں اور نبیوں رسولوں سے بھی افضل ہیں۔ ([1])

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی                                        سب سے بالا و والا ہمارا نبی

خلق سے اولیا اولیا سے رُسُل                                              اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی([2])

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان   رحمۃ اللہ علیہ   نے فتاویٰ رضویہ جلد 30 میں موجوداپنے مبارک رسالے ’’تَجَلِّی الْیَقِیْن بِاَنَّ نَبِیَّنَاسَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن‘‘ میں اس بات کو مُتعدّد آیاتِ قراٰنیہ ،  100سے زائد احادیثِ مبارکہ نیز صحابۂ کرام   علیہمُ الرِّضوان   اور عُلَمائے اسلام   رحمہم اللہ   کے کثیر فرامین سے ثابت فرمایا ہے۔ حصولِ برکت کے لئے ایک آیتِ قراٰنی اور ایک فرمانِ نبوی مُلاحظہ فرمائیے :

درجوں بلندی عطا فرمائی:اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے : تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ- ترجمۂ کنزُالعِرفان : یہ رسول ہیں ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پرفضیلت عطا فرمائی ، ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند ی عطا فرمائی۔ ([3])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ائمہ فرماتے ہیں : یہاں اس بعض سے حضور سیّدُ المرسلین  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مراد ہیں کہ انہیں سب انبیاء پر رِفعت و عظمت بخشی ، اور یوں مُبْہَم ذکر فرمانے (یعنی واضح طور پر نام مبارک نہ لینے) میں حضور (  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ) کے ظہورِ اَفضلیت وشُہرتِ سِیادَت کی طرف اِشارہ ٔ تامّہ ہے ، یعنی یہ وہ ہیں کہ نام لو یا نہ لو انہی کی طرف ذہن جائے گا ، اورکوئی دوسرا خیال نہ آئے گا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم ۔ ([4])

تمام آدمیوں کے سردار:فرمانِ مصطفےٰ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   ہے : میں روزِ قیامت تمام آدمیوں کا سردار ہوں اور یہ بات فَخْرِیَّہ نہیں کہتا ، میرے ہاتھ میں لِوائے حَمد(یعنی حمد کا جھنڈا) ہوگا اور یہ فخر کے لئے نہیں کہتا ، اُس دن حضرت آدم (  علیہ السَّلام  ) اور ان کے علاوہ جتنے نبی ہیں سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے ، سب سے پہلے میں اپنی قبر سے باہر نکلوں گا اور یہ بات میں فخریہ طور پر بیان نہیں کررہا۔  ([5])

قطعی اور اِجماعی مسئلہ :امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان   رحمۃ اللہ علیہ    فرماتے ہیں : حضور پُرنور سیّدِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کا افضلُ الْمُرْسَلین وسیِّدُ الاوّلین والآخِرین (یعنی سب رسولوں سے افضل اور تمام اگلے پچھلوں کا سردار) ہونا قطعی ایمانی ، یقینی ، اِذعانی ، اجماعی ، اِیقانی مسئلہ ہے۔ ([6])

خدا کے بعد افضل جاننا تم کو دو عالَم سے

یہی تو ہے ہمارا دین و ایماں یارسول اللہ([7])

(2)حُجروں کے باہر سے پکارنے کی ممانعت: نبیِّ  کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کو آپ کی مبارک رہائش گاہوں (Residential  Places) کے باہر سے پکارنا حرام قرار دیا گیا۔ ([8]) اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حُجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔  ([9])   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

انتظار کی تلقین: اگر کسی کو بارگاہِ رسالت میں کچھ عرض معروض کرنی ہو تو اللہ پاک کی طرف سے اسےیہ ادب سکھایا گیا کہ انتظار کرے اور جب رحمتِ عالَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   بذاتِ خود مکانِ عالی شان سے باہر تشریف لائیں تو پھر اپنی درخواست پیش کرے۔ ذکر کردہ آیت سے اگلی آیت میں اللہ کریم کا فرمانِ عظیم ہے : وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم ان کے پاس خود تشریف لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ([10])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

بارگاہِ رسالت کے آداب اللہ پاک نے سکھائے: حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں : معلوم ہوا کہ دنیاوی بادشاہوں(Kings) کے درباری آداب ، انسانی ساخت (یعنی انسانوں کے بنائے ہوئے ، Human Made) ہیں مگر حضور (  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  )کے دروازے شریف کے آداب ، رب نے بنائے رب نے سکھائے۔ نیز یہ آداب صرف انسانوں پر ہی جاری نہیں بلکہ جنّ و اِنس و فِرِشتے سب پر جاری ہیں۔ فرشتے بھی اجازت لے کردولت خانہ میں حاضری دیتے تھے ، پھر یہ آداب ہمیشہ کے لئے ہیں۔ ([11])

(3)مالِ غنیمت حلال کردیا گیا: سرکارِ مدینہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   اور آپ کی امّت کے لئے مالِ غنیمت کو حلال کیا گیا جو پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھا۔ ([12])

فرمانِ مصطفےٰ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   ہے : اُحِلَّتْ لِیَ الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِاَحَدٍ قَبْلِيْ یعنی میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کیا گیا اور مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھا۔ ([13])

(4)اسرافیل علیہ السَّلام کا حاضرِ خدمت ہونا: حضرت سیدنا اسرافیل   علیہ السَّلام   صرف رسولِ خدا   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ سے پہلے کسی نبی   علیہ السَّلام   کی بارگاہ میں حاضری نہ دی۔ ([14])

اللہ کے حبیب   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کا فرمانِ عالیشان ہے : آسمان سے ایک فرشتہ میرے پاس آیا جو نہ تو مجھ سے پہلے کسی نبی کے پاس آیا اور نہ میرے بعد آئے گا۔ اس فرشتے کا نام اسرافیل ہے اور جبرائیل(   علیہ السَّلام  ) بھی اس فرشتے کے ساتھ تھے۔ سلام کے بعد فرشتے نے کہا : میں آپ کے رب کی طرف سے یہ پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں کہ اگر آپ چاہیں تو بندگی والے نبی بنیں اور اگر چاہیں تو بادشاہ نبی بن جائیں۔ میں نے جبرائیل(   علیہ السَّلام   ) کی طرف دیکھا تو انہوں نے مجھے عاجزی اختیار کرنے کا اشارہ کیا۔ میں نے جواب دیا کہ میں بندگی والا نبی بننا چاہتا ہوں۔ (مزید ارشاد فرمایا : ) اگر میں بادشاہ نبی بننے کا کہتا تو پہاڑ سونے کے ہوکر میرے ساتھ چلتے۔ ([15])

کوہ ہوجائیں اگر چاہو تو سونا چاندی

سنگریزے بنیں دِینار و دِرَم کی صورت ([16])

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی



([1] )    مواھب لدنیہ ، 2 / 288 ، بہارِ شریعت ، 1 / 63

([2] )   حدائقِ بخشش ، ص138

([3] )   پ3 ، البقرۃ : 253

([4] )    فتاویٰ رضویہ ، 30 / 151

([5] )   ترمذی ، 5 / 354 ، حدیث : 3635

([6] )   فتاویٰ رضویہ ، 30 / 131

([7] )   قبالۂ بخشش ، ص227

([8] )   کشف الغمۃ ، 2 / 62

([9] )   پ26 ، الحجرات : 4

([10] )   پ26 ، الحجرات : 5

([11] )    نورالعرفان ، پ26 ،  الحجرات ، تحت الآیۃ : 4

([12] )     زرقانی علی المواھب ، 7 / 228

([13] )   بخاری ، 1 / 133 ، حدیث : 335

([14] )   مواھبِ لدنیہ ، 2 / 287

([15] )   معجم کبیر ، 12 / 267 ، حدیث : 13309

([16] )   سامانِ بخشش ، ص85


Share