رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ ربُّ العزّت نے جہاں دیگر بے پناہ خوبیوں اور اوصاف و کمالات سے نوازا ہے وہیں عقل و حِکمت اور سمجھ داری جیسی عظیم نعمت کا کامل و اکمل حصّہ بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا ہوا۔رئیسُ المُتکلِّمین مفتی نقی علی خان حنفی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سُرورُ القُلوب صفحہ 80پر حضرت سیّدُنا وَہب بن مُنَبّہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ ”میں نے اکہتّر(71) کتابوں میں لکھا دیکھا کہ تمام آدمیوں کی عقل جنابِ محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عقل سے وہ نسبت رکھتی ہے جیسے ایک دانہ ریت کا تمام ریگستان (یعنی صحرا) کے مقابلے میں اور بیشک آپ کی عقل سب آدمیوں پر غالب اور آپ کی رائے سب سے افضل ہے۔‘‘([1]) رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور اُمّتیوں کو جو بھی حکم اور نصیحت ارشاد فرمائی ہے، دہنِ اقدس سے نکلنے والے الفاظ رہتی دنیا تک کے لئے ذریعۂ ہدایت اور وسیلۂ اکملیت ہیں۔
گزشتہ شماروں میں اللہ کریم کے پیارے کلام قراٰنِ مجید کے احکام و نصائح کی روشنی میں ایک ”مؤمن کو کیسا ہونا چاہئے؟“ کا بیان گزرا،یہاں پر کامل و اکمل انسانِ عظیم جنابِ محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین کی روشنی میں بیان کیا جائے گا کہ ”مؤمن کو کیسا ہونا چاہئے؟“
* ایمان کی بنیاد و تکمیل رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مَحبّت و اُلفت پر ہے، کوئی بندہ اس وقت تک کامل مؤمن ہو ہی نہیں سکتا جب تک تمام مخلوق یہاں تک کہ والدین اور اولاد سے بھی بڑھ کر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مَحبّت نہ کرے۔ ([2])
* یہ دینِ اسلام کا حُسن ہے کہ کسی شخص کے اچّھا یا بُرا ہونے اور کامل یا ناقِص ہونے کا اِنْحِصار صرف اس کی انفرادی زندگی کی بنیاد پر نہیں رکھتا، بلکہ اجتماعی و معاشرتی نظام میں اس کا کیسا کردار ہونا چاہئے یہ بھی سکھاتا ہے چنانچہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک کامل مسلمان کی بڑی علامت یہ ارشاد فرمائی کہ دوسرے مسلمانوں کو وہ اپنی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رکھتا ہے۔ ([3])
* مؤمنِ کامل کے اوصاف کو عمَلی جامہ پہنانا حُسنِ معاشرت کا بہترین ذریعہ ہے، مخزنِ علم و حکمت، جنابِ احمدِ مجتبیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مؤمنِ کامل کی ایک نشانی یہ بھی ارشاد فرمائی کہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔ ([4])
* احادیثِ مبارَکہ میں بیان کردہ یہ ایمان کی شاخیں دراصل مؤمن ہی کے اوصاف ہیں، یوں کہئے کہ ان شاخوں سے پھل چننا ایمان کو درجۂ کاملیت کی طرف بڑھا نا ہے، انہی شاخوں کے بارے میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ایمان کی ستّر(70)سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں۔ اُن میں سب سے افضل ” لَا ا ِلٰهَ اِلَّا اللَّهُ“ کا اقرار کرنا ہے اور ان میں سب سے نچلا درجہ کسی تکلیف دینے والی چیز کو راستے سے دور کر دینا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ ([5])
* اللہ کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارَک فرامین کا جیسے جیسے مُطالَعہ کرتے جائیں تو علم و حکمت کا ایک الگ ہی باب سامنے آتا جاتا ہے، اپنے اُمّتیوں کو ایک کامل مؤمن بنانے کے لئے جو جو نسخے اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عطا فرمائے ہیں ان پرعمل پیرا ہوئے بغیرانسانی معاشرے کی تہذیب و ترقّی ممکن ہی نہیں ہے، ان نسخوں میں اوصافِ مؤمن اچّھی بات کرنا، پڑوسی کی عزّت کرنا اور مہمانوں کی توقیر کرنا بھی شامل ہیں۔ ([6])
* بندہ ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ میں اچّھا ہوجاؤں، یاد رکھئے کہ اچّھائی کا معیار ہمیشہ ایمان ہی ہونا چاہئے، جس قدر کوئی ایمان میں مضبوط و باعمل ہوگا اسی قدر اچّھا اور کامل ہوگا، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اچّھے انسان یعنی مؤمنِ کامل کے حوالے سے فرمایا کہ ”مؤمنوں میں کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اَخلاق زیادہ اچّھے ہیں۔“ ([7])
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…ناظم ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments