اللہ کے پیارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : جب کسی شخص کا بیٹا انتقال کرجاتا ہے تو اللہ کریم فرشتوں سے دَریافْت فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندے کے بیٹے کی رُوح قبض کرلی؟ تو وہ عرض کرتے ہیں : ہاں۔ پھر فرماتا ہے : تم نے اُس کے دِل کا پھل توڑ لیا؟ تو وہ عرض کرتے ہیں : ہاں۔ پھر فرماتا ہے : میرے بندے نے کیا کہا؟ تو وہ عرض کرتے ہیں : Ӡحَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ یعنی اس نے تیری تعریف کی اور اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡن پڑھا۔ Ӡتو اللہ پاک فرماتا ہے : Ӡاِبْنُوْا لِعَبْدِيْ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوْهُ بَيْتَ الْحَمْدِ یعنی میرے اِس بندے کے لئے جنّت میں ایک گھر بناؤ اور اُس کا نام بَیْتُ الْحَمْد رکھو۔ Ӡ([1])
اَعمال پر جنّت کے مَحلّات کے نام:مشہور مُحَدِّث ، حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ سوال و جواب اُن فرشتوں سے ہے جو میّت کی رُوح بارگاہِ الٰہی میں لے جاتے ہیں اِس سے مقصود ہے اُنہیں گواہ بنانا ورنہ ربّ تعالیٰ علیم و خبیر ہے۔ خیال رہے کہ جنّت میں بعض مَحل (Palace) ربّ کی طرف سے پہلے ہی بن چکے ہیں اور بعض انسان کے اَعمال پر بنتے ہیں ، یہاں اُس دوسرے محل کا ذِکر ہے جیسے یہاں مکانوں کے نام کاموں سے ہوتے ہیں ویسے ہی وہاں اُن محلات کے نام اَعمال سے ہیں۔ ([2])
بچّوں کے انتقال پر صبراور اس کا اجر: بچّوں کے انتقال پر صبر کرنے کا بھی بے شمار اجر و ثواب ہے اگرچہ نابالغ اولاد کے انتقال پر غمگین ہوجانا بلکہ رونا نہ صِرف اولاد سے مَحَبّت اور شفقت کا تقاضا ہے بلکہ یہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عمل سے بھی ثابت ہے جیسا کہ جب نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لختِ جگر حضرت سیّدُنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو شفقت سے آپ علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی چشمانِ مبارکہ سے آنسو بہنے لگے۔ ([3]) البتہ نابالغ اولاد کے انتقال پر رونے دھونے اور واویلا کرنے کی بجائے صبر و شکر سے کام لینا چاہئے کہ ایسے شخص کے لئے جنّت کی بشارت دی گئی ہے۔ چنانچہ(1)رسولِ اکرم ، شہنشاہِ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے تین بچّے بالغ ہونے سے پہلے انتقال کرگئے وہ اس کے لئے جہنّم کی راہ میں مضبوط ترین رُکاوٹ ہوں گے۔ حضرت سیّدُنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : میرے دو بچّے آگے پہنچ (یعنی وفات پا) چکے ہیں۔ فرمایا : اور دو بچّے بھی(رُکاوٹ ہوں گے)۔ حضرت اُبَی بن کَعْبْ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : میں اپنا ایک بچّہ آگے بھیج چکا ہوں۔ فرمایا : اور ایک بچّہ بھی۔ ([4]) (2)حضرت سیّدُنا ابوسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے دستِ مبارک سے پانچ چیزوں کا اشارہ فرمایا جو میزان پر سب سے زیادہ وزن والی ہیں : (۱)سُبْحٰنَ اللہ (۲)اَلْحَمْدُ للّٰہ (۳)لَآاِلٰہَ اِلَّااﷲ(۴)اَللہُ اَکْبَر (۵)کسی مسلمان شخص کا نیک بچّہ مرجائے اور وہ اس پر ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کرے۔ ([5]) (3)ایک شخص اپنے بیٹے کے ساتھ حُضورِ انور علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے دریافت فرمایا : کیا تُو اِس سے مَحَبّت کرتا ہے؟ اس نے عرض کی : ربِّ کریم آپ سے ایسی محبت فرمائے جیسی میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ پھر کچھ دن بعد سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس بچّے کو نہ پایا تو اِسْتِفْسار فرمایا کہ فُلاں کےبیٹے کے ساتھ کیا ہوا؟ صَحابَۂ کرام نے عرض کی : یارسولَ اللہ!اس (بچّے) کا تو انتقال ہوگیا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس بچّے کے والد کو (تسلی دیتے ہوئے) فرمایا : کیا تو اس بات پر خوش نہیں کہ جنّت کے جس دروازے پر جائے تو اپنے اس بچّے کو پائے اور وہ تیرے لئے اس دروازے کو کھولنے لگے؟ مسندِ امام احمد میں مزید یہ بھی ہے کہ ایک شخص نے عرض کی : یارسولَ اللہ! کیا یہ خاص اسی کے لئے ہے یا ہم سب کے لئے؟ فرمایا : بلکہ تم سب کے لئے ہے۔ ([6])
اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡن کہنے کا ثواب:سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ مصیبت کو یاد کرکے اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡن کہے اگرچہ اُس مصیبت کو کتنا ہی زمانہ گزر چکا ہو تو اللہپاک اسے ویسا ہی ثواب عطا فرمائے گا جیسا مصیبت پہنچنے کے دن عطا فرمایا تھا۔ ([7])
مصیبتوں و تکالیف پر صبر کرنا چاہئے: پیارے اسلامی بھائیو! یاد رہے کہ زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے ، کبھی جان و مال کی کمی سے ، کبھی دشمن کے خوف سے ، کبھی آفات و بَلِیّات سے اور کبھی نِت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دِین تو خصوصًا وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اسی سے فرمانبردار و نافرمان ، محبت میں سچے اور محبت کے صِرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ حضرت نُوح علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام پر اکثر قوم کا ایمان نہ لانا ، حضرت ابراہیم علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کا آگ میں ڈالا جانا ، فرزند کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوجانا ، حضرت ایوب علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا ، اُن کی اولاد اور اَموال کو ختم کر دیا جانا ، حضرت موسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کامصر سے ہجرت کرنا ، حضرت عیسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کا ستایا جانا اور انبیاءِکرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کا شہید کیا جانا یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں ہیں اور اِن مقدس ہستیوں کی آزمائشیں اور صبر ہر مسلمان کے لئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اوروہ کسی تکلیف یا اذیت میں مبتلا ہو تو صبر کرے اور ربّ کی رضا پر راضی رہے ، بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔ ([8])
مصیبت پر صبر کے دو ثواب: صدرُ الشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مصیبت پر صبر کرنے سے دو ثواب ملتے ہیں ایک مصیبت کا دوسرا صبر کا۔ اور جَزَع و فَزَع (رونے پیٹنے) سے دونوں ثواب جاتے رہتے ہیں۔ ([9])
تکلیف پر بےصبری کا نقصان: ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں : بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب (اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ کسی مصیبت اور) مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خدا کو یاد کرتا اور توبہ و اِسْتِغْفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ (وہ) تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا (استقبال کرتے ہیں) مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ (جب کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو) صبر و استقلال سے کام لیں اور جَزع و فَزع (یعنی رونا پیٹنا) کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ (جانے) دیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بےصبری سے آئی ہوئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب (جو احادیث میں بیان کیا گیا ہے) سے محرومی دوہری (ڈبل) مصیبت ہے۔ ([10])
مشکلوں میں دے صبر کی توفیق
اپنے غم میں فقط گُھلا یارب
یاربِّ کریم ہمیں تمام تکالیف پر صبرِجمیل عطا فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ ، کراچی
Comments