حلال و حرام کے لبرل اصول

بعض لوگ خدائی احکام سے منہ پھیرنے کے لئے سیدھے سیدھے تو  کہہ نہیں سکتے کہ “ ہم اِن احکام کو نہیں مانتے “ کیونکہ اسلامی ملک میں اور اسلامی معاشرے میں کھلم کھلا ایسی بات کہنے کی اکثر کو جرأت نہیں ہوتی۔ ایسی جگہوں پر کچھ تو عموماً منافقت ، الفاظ کی ہیرا پھیری اور کہیں پہ نظر کہیں پہ نشانہ وغیرہ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے لفاظی اور جملے بندی سے خدائی احکام سے جان چھڑاتے ہیں اور کچھ لوگ قرآنی آیات کی تفسیر اپنی کم فہمی سے ، اپنی رائے سے کرتے ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ “ قرآن میں ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ جب دین میں جبر نہیں تو علماء کا لوگوں پر اس قسم کی پابندیاں لگانا غلط ہے کہ یہ دیکھو اور وہ نہ دیکھو ، یہ سنو اور وہ نہ سنو ، یہ کرو اور وہ نہ کرو ، یہ کھاؤ اور وہ نہ کھاؤ وغیرہا یہ سب پابندیاں ہی تو ہیں “ حالانکہ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ علماء پابندیاں لگاتے نہیں بلکہ خدا کی لگائی ہوئی پابندیاں بتاتے ہیں۔

بہرحال یہ خیال یا وسوسہ یا فریب اصل میں کلامِ الٰہی کو اپنی رائے سے سمجھنے بلکہ قرآن کے معانی کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی وجہ سے ہے کیونکہ آیتِ کریمہ “ دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ “ (پ3 ، البقرۃ : 256) کا مطلب یہ ہے کہ کسی کافر کو مسلمان بنانے کے لئے جبر نہیں کیا جائے گا کہ تلوار کے زور پر کسی کو کلمہ پڑھایا جائے۔ آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ پاک نے جو احکام نازل فرمائے ہیں وہ کسی کو بتائے بھی نہ جائیں۔ کوئی احکامِ خداوندی پر عمل کرے یا  نہ کرے ، بےلگام ہوکر جس کے دل میں جو آئے کرتا پھرے ، اُسے کوئی روکنے ٹوکنے اور سمجھانے والا نہ ہو بلکہ لبرلز اور جدیدیت کا شکار اسکالرز کہلانے والوں کی طبعِ نازک پر یہ اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَرِ یعنی نیکی کی دعوت اور برائی سے ممانعت سخت گراں گزرتی ہے چنانچہ لفظوں کی جگالی اور الفاظ کی قے سے احکامِ خدا مسترد کرنے یا ان میں معنوی تحریف کرنے والوں کے نزدیک فلموں ، ڈراموں ، موسیقی کی شاموں ، ناچ گانے کے پروگراموں پر ہرگز ہرگز تنقید نہیں ہونی چاہیے کہ یہ سب تو آرٹ اور فنونِ لطیفہ ہے نیز پرلے درجے کی بےحیائی اور بیہودگی والے کپڑے پہن کر کیٹ واک کے نام پر شو کرنے والوں ، جگہ جگہ بے حیائی ، فحاشی کرنے ، دکھانے اور اسے پروان چڑھانے والوں پر تنقید تو دور کی بات ہے ، لبرلز کے نزدیک ان کی شان میں معمولی سی بے ادبی بھی نہ کی جائے کیونکہ لبرلز اور موجودہ دور کے جعلی جدید اسکالرز کے نزدیک قرآن و حدیث کے علاوہ بھی حلال و حرام قرار دینے کے نئے طریقے معرضِ وجود میں آچکے ہیں اور وہ ہیں فنونِ لطیفہ ، جمالیاتی حس ، آرٹ ، مظاہرِ فطرت وغیرہا۔

اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ ، یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ ایک طرف خالقِ کائنات ، رب العالمین کا یہ صریح فرمان ہے : قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ   ترجمۂ کنزُ العِرفان : تم فرماؤ : میرے رب نے تو ظاہری باطنی بے حیائیاں اور گناہ کو حرام قرار دیا ہے۔ (پ8 ، الاعراف : 33)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  فواحش یعنی بے حیائیوں کو خدا نے حرام قرار دیاہے۔ اس خدائی حکم کے سو فیصد برخلاف ایک لمحے کے لئے ذرا فلموں ، ڈراموں کے مناظر سوچیں کہ وہاں جو ہوتا ہے وہ بےحیائی ہے یا نہیں؟  مثلاً عورت کے بدن کی زیادہ سے زیادہ نمائش ، بے پردگی ، چھپانے کی جگہوں کو مزید نمایاں کرنا ، ناچنے میں کی جانے والی حرکتیں ، لڑکے لڑکی کی بات چیت ، اٹھنے بیٹھنے ، لیٹنے کے اندازاور اس سے آگے نجانے کہاں کہاں تک کے مناظر دکھائے جاتےہیں۔ کیا یہ سب بےحیائی میں نہیں آتے اور کیا یہ اوپر بیان کردہ کلامِ خدا کی رُو سے حرام نہیں ہیں؟ بلاشک و شبہ اور بغیر کسی تردد کے ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ یہ سب افعال حرام و گناہ ہیں اور صریح بےحیائی کے مناظر ہیں۔ اب ایک طرف اوپر مذکور آیت کو ذرا دوبارہ پڑھیے اور دوسری طرف لبرل ، جدید مولویوں کے دلائل ملاحظہ فرمائیں ، جو انہی فلموں کی انہی تفصیلات کو جانتے ، سمجھتے خدا کے احکام کے مقابلے میں احبار و رھبان کا کردار ادا کرتے ہوئے اور خدا کے حرام کو کھلم کھلا حلال قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ معاشرہ بھی انسان کی طرح ہوتا ہے۔ اس کی جمالیاتی موت واقع ہوجائے تو سمجھئے کہ اس کی روح پرواز کر گئی۔ پھر جو دکھائی دیتا ہے ، وہ محض ایک قالب ہوتا ہے۔ معاشرے کی جمالیاتی موت ، فرد کی موت کا بھی اعلان ہے۔ یہ آرٹ اور فنونِ لطیفہ ہیں جو سماج کی جمالیاتی حیات کا سامان کرتے ہیں۔ جہاں ان کا گلا گھونٹ دیا جائے ، وہاں زندگی پنپ نہیں سکتی۔ جس سماج میں تلاوت کے ساتھ غزلیں ، ساز و آواز کا آہنگ نہ ہو ، اسے سماج نہیں قبرستان کہتے ہیں۔ شرح کی کیا شرح کی جائے ، واضح کو کیا واضح کیا جائے اور جاگتے کو کیا جگایا جائے کہ کلامِ جدیدیت یہ کہہ رہا ہے کہ جس معاشرے میں تلاوت کے ساتھ ڈِسکو ڈانس ، گویوں کے گانے ، موسیقی کی تانیں ، گلوکاراؤں کی دل لبھاتی ، جذبات بھڑکاتی خوش الحانی ، مَردوں عورتوں کی اکٹھے موج مستیاں اور سینماؤں کی آباد دنیائیں نہ ہوں وہ معاشرہ مردہ ہے کیونکہ (مَعَاذَاللہ) صرف قرآن معاشرے کی روح بننے کے لئے کافی نہیں بلکہ جمالیاتی حس ، فنونِ لطیفہ ، آرٹ ، فلمیں ڈرامے بھی قرآن کے ساتھ معاشرے میں ہوں گے تو معاشرے کو زندگی ملے گی نیز جدید اسکالرز کہتے ہیں کہ ایک عرصے سے ہماری حسِ لطیف کو مارنے کی مہم جاری ہے۔ لوگ ہر اس مظہر کو مٹانے کے درپے ہیں جو میرے جمالیاتی وجود کی بقا کی ضمانت ہے۔ افسوس کہ اس کام کے لیے سب سے زیادہ مذہب کو استعمال کیا گیا۔ گویا قرآن و حدیث کے صریح صریح احکام ان جدید اسکالرز کی حسِ لطیف کو مار رہے ہیں ، ان کے جمالیاتی وجود کو مٹارہے ہیں۔ یہ الفاظ لکھنے والے چونکہ صاف صاف قرآن کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ قرآن و حدیث ہماری حسِ لطیف کو مار رہی ہے ، قرآن و حدیث ہمارےجمالیاتی وجود کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے ، اس لئے اس کی جگہ مذہب اور مذہب کے استعمال کا لفظ لاتے ہیں تاکہ پڑھنے والے مشتعل نہ ہوجائیں۔ اگر مذہب کا نام لے کر یہی درس دینا ہے تو منکرینِ حدیث بلکہ چکڑالویوں کا کیا قصور ہے؟

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا                                 کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

رہِ منزل میں سب گم ہیں مگر افسوس تو یہ ہے               “ امیر کارواں “ بھی ہیں انہی گم کردہ راہوں میں

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے                             شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر

مسلمان تو کہتا ہے کہ پاکیزہ معاشرے کی روح تو قرآن و حدیث کی پاکیزہ تعلیمات ہیں جو نفس کو تزکیہ ، دل و دماغ کو پاکیزگی ، سوچ کو روشنی ، آنکھ کو شرم و حیا ، کردار کو طاعت و بندگی اور دلوں کو فکرِ آخرت سے سرفراز کرتی ہیں۔

یاد رکھیں کہ حلت و حرمت کے اصول و احکام قرآن و حدیث سے ثابت ہوتے ہیں۔ صدیوں سے پوری امت اور علماء یہی بیان کرتے آرہے ہیں۔ یہ اچانک سے فنونِ لطیفہ ، جمالیاتی حس ، آرٹ اور سماج کو حلال و حرام کی بنیاد بنادینا وَاللہ ، بِاللہ ، تَاللہ! اسلام نہیں بلکہ مغر بی معاشرے کے دلائل ہیں جسے اسلامی ملکوں میں اور مسلمانوں میں عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان رنگ برنگے ناموں کو استعمال کرکے عریاں ناچ ، بیہودہ ڈانس ، شہوانی مناظر اور فحاشی سے بھرپور فلموں ڈراموں کو حلال قرار دینا صاف صریح دین میں تحریف ہے۔ خدا  کا فرمان یاد رکھیں وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَؕ(۱۱۶) ترجمۂ کنزُ العِرفان : اور تمہاری زبانیں جھوٹ بولتی ہیں اس لئے نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھو۔ بیشک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہ ہوں گے۔ (پ14 ، النحل : 116) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*دارالافتاء اہلِ سنّت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی

 

 


Share

Articles

Comments


Security Code