آبِ زم زم  قبر یا  کفن پر چھڑکنا  کیسا؟

آبِ زم زم کو قبر یا کفن پر چھڑکنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے ایک عزیز  کی خواہش ہے کہ ان کے انتقال کے  بعد حُصولِ برکت کے لئے آبِ زَم زَم قبر یا کفن پر چھڑک دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ حُصولِ برکت کے لئے آبِ زم زم کو قبر  یا کفن پر چھڑک سکتے ہیں یا نہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

متبرک چیزوں سے برکت حاصل کرنا شروع سے مسلمانوں میں رائج ہے ، بلکہ خود زَم زَم کو بھی برکت حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے نیز اس طرح کی روایات بھی ملتی ہیں کہ مسلمانوں حتّٰی کہ صحابۂ کرام   علیہمُ الرِّضوان   نے بھی متبرک چیزوں کو اپنے ساتھ قبر میں دفنانے کی وصیت کی۔ آبِ زَم زَم بھی بہت متبرک پانی ہے ، لہٰذا حُصولِ برکت کے لئے زَم زَم کو قبر یا کفن پر چھڑک سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شُعبُ الاِیمان کی حدیثِ پاک ہے : عَنْ عَائِشَةَ : “ اَنَّهَا كَانَتْ تَحْمِلُ مَاءَ زَمْزَمَ فِي الْقَوَارِيرِ  وَتَذْكُرُ اَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ ذَلِكَ “ ۔ “ زَادَ فِيهِ غَيْرُهٗ عَنْ اَبِي كُرَيْبٍ ، وَكَانَ يَصُبُّ عَلَى الْمَرْضٰى وَيَسْقِيهِمْیعنی حضرت عائشہ   رضی اللہ عنہا   سے مروی ہے  کہ  آپ آبِ زم زم  کو  بوتلوں میں بھر کر لےجاتیں اور فرماتیں کہ رسولُ اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے بھی ایسے کیا ہے۔ دیگرروایت میں ہے کہ رسولُ اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   آبِ زَمْ زَم مریضوں کے اوپر ڈالتے اور انہیں پلاتے۔

(شعب الایمان ، 6 / 32 ، حدیث : 3834)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

ہر انسان کی موت کا وقت مقرر ہے!!

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص خودکشی کرلے یا قتل کردیا جائے تو وہ اپنے مقرر کردہ وقت پر مرتا ہے یا اس سے پہلے ہی مر جاتا ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنی موت کے وقت سے پہلے مر جاتا ہے کیونکہ اگر وہ خودکشی نہ کرتا یا قتل نہ کیا جاتا تو وہ مزید زندہ رہ سکتا تھا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اللہ پاک کے علم میں ہر انسان کی موت کا ایک وقت مقرر ہے ، نہ تو اس وقت سے پہلے کسی کو موت آتی ہے اور نہ ہی اس وقت کے بعد تک کوئی زندہ رہتا ہے لہٰذا اگر کوئی خودکُشی کر لے یا قتل کردیاجائے تو وہ بھی اپنے مقرر کردہ وقت پر ہی مَرتا ہے۔ یہ کہنا دُرست نہیں ہے کہ اگر وہ خودکشی نہ کرتا یا قتل نہ ہوتا

تومزید زندہ رہ سکتا تھا۔ ایسا عقیدہ رکھنا بھی دُرست نہیں ہے۔          (المجموعۃ السنیہ علی شرح العقائدالنسفیہ ، ص423 ، 427)

یہاں یہ اِشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر خودکشی کرنے والا یا قتل ہونے والا اپنی موت کے مقررہ وقت پر ہی مَرا ہے تو پھر قاتل اور خودکُشی کرنے والا دونوں مجرم کیوں قرار پاتے ہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے قتل اور خودکشی کو حرام قرار دیا ہے ، قاتل اور خودکشی کرنے والا اسی حرام کام کے اِرتِکاب کی وجہ سے مجرم قرار پاتے ہیں کہ یہ کام انہوں نے اپنے اختیار اور مرضی سے کیا ہے۔                                  (المجموعۃ السنیہ علی شرح العقائدالنسفیہ ، ص426)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

نومولود بچوں کو گھٹی دینے کی وجہ

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نومولود بچوں کو گھٹّی کیوں دی جاتی ہے؟اس سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

گھٹّی دینا یعنی کھجور یا کوئی میٹھی چیز چبا کر نومولود بچے کے تالُو میں لگانا ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم اور صحابۂ کرام   علیہمُ الرِّضوان    کا طریقہ ہے۔ گھٹّی دلوانا مستحب ہے نیز یہ بزرگوں سے برکت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے صحابۂ کرام   علیہمُ الرِّضوان   اپنے بچوں کوگھٹّی دلوانے کے لئے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کے پاس لاتے تھے۔ نیک لوگوں سے گھٹی دلوانے سے بچے کے ایمان و اخلاق اچھا ہونے کی نیک فال ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ   رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں : “ كَانَ يُؤْتَى بِالصّبْيَانِ فَيُبَرّكُ عَلَيْهِمْ وَيُحَنّكُهُمْترجمہ : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں بچے لائے جاتے ، حُضور   علیہ السَّلام   ان کے لئے برکت کی دعا کرتے اور تحنیک فرماتے۔

(مسلم ، ص134 ، حدیث : 662)

 مفتی شریف الحق امجدی   علیہ الرَّحمہ   فرماتے ہیں : “ تحنیک کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چھوہارا چبا کر بچے کے تالو میں چپکا دیا جائے ، یہ بھی مستحب ہے کہ جب بچہ پیدا ہو علماء ، مشائخ ، صالحین میں سے کسی کی خدمت میں پیش کیا جائے اور وہ کھجور یا کوئی میٹھی چیز چبا کر اس کے منہ میں ڈال دیں۔ “ (نزھۃ القاری ، 5 / 430)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

مریض کو کس انداز میں بیٹھ کر نماز پڑھنا چاہئے؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جن صورتوں میں شریعت نے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے ، ان صورتوں میں بیٹھنے کی کوئی خاص کیفیت اختیار کرنا لازم ہے یا جس طرح مریض کو آسانی ہو ، اسی طریقے سے بیٹھ کر نماز ادا کرسکتا ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جن صورتوں میں نمازی کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ملتی ہے ، اس میں کوئی خاص طریقہ اختیار کرنا لازم نہیں البتہ اگر دو زانو بیٹھنا آسان ہو اور اس کے علاوہ مثلاً چار زانو (چوکڑی مار کر) بیٹھنے میں زیادہ تکلیف محسوس ہو یا دوسری طرح بیٹھنے کے برابر ہو مثلاً جتنی تکلیف دو زانو بیٹھنے میں محسوس ہو ، اتنی ہی تکلیف چار زانو بیٹھنے میں محسوس ہو تو دو زانو بیٹھنا بہتر ہے اور اگر چار زانو بیٹھنے میں کم تکلیف ہو تو اس حالت پر بھی بیٹھا جا سکتا ہے۔

(مستفاد از فتاویٰ عالمگیری ، 1 / 136-بہارِشریعت ، 1 / 720)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

تُہمت کی جگہوں سے بچئے

ارشادِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ : شرعِ مطہر میں جس طرح گناہ سے بچنا فرض ہے یونہی مَواضِعِ تُہمت (یعنی تُہمت کی جگہوں) سے احتراز (بچنا) ضرور ہے اور بِلاوجہِ شرعی اپنے اوپر دروازۂ طعن کھولنا ناجائز اور مسلمانوں کو اپنی غیبت و بَدگوئی میں مبتلا کرنے کے اسباب کا اِرتکاب ممنوع اور انہیں اپنے سے نفرت دِلانا قبیح وشنیع (یعنی معیوب اور بُرا ہے)۔                 (فتاویٰ رضویہ ، 4 / 554)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*دارالافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان ، کھارادر ، کراچی


Share