عشقِ رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا تقاضا / رمضان کی تیاری / آگ کے کنگن / امیر اہلسنت کی ہمشیرہ کا انتقال

عشق رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا تقاضا

اُمِّ میلاد عطّاریہ

ماہنامہ شعبان المعظم1441ھ

ایک مسلمان کے ایمان کی پُختگی مَحبّتِ رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   میں چُھپی ہوتی ہے اور اسی مَحبّت پر ہی ایمان کا دار و مدار ہے جیساکہ حدیثِ پاک میں ہے : تم میں سے کوئی اس وقت تک  (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ ([i]) مَحبّت اپنے اندر بہت سے تقاضوں کو لئے ہوتی ہے جن میں سے ایک بڑا تقاضا یہ ہے کہ جس سے مَحبّت کی جائے اس کی پیروی کی جائے ، اس کی ہرادا کو اپنایا جائے اور اس کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خَم کیا جائے۔ چنانچہ حُضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے ایک دن وضو کیا تو صحابۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان  آپ کے وضو  کے دھووَن شریف کو اپنے اوپر مَلنے لگے ، نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے فرمایا کہ تم کو اس پر کیا چیز اُبھارتی ہے ؟ وہ بولے اللہ  اور رسول کی مَحبّت تو نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے فرمایا : جسے یہ پسند ہو کہ اللہ رسول سے مَحبّت کرے یا اس سے اللہ رسول مَحبّت کریں تو وہ جب بات کرے تو سچی کرے ، جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسی سے اچھا پڑوس نبھائے۔ ([ii])

اس حدیثِ پاک کی شرح کرنے والے علمائے کرام کے فرامین کا خلاصہ یہ ہے کہ “ حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے  وضو کے دھوون کو تَبَرکاً اپنے جسم پر مَلنا بہت اچھا عمل ہے مگر صرف یہی مَحبّتِ رسول کے دعوے کی دلیل نہیں کہ یہ چیزیں نفس پر دشوار نہیں یہ کام تو عام لوگ بھی کرلیتے ہیں ، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ و رسول کی اطاعت اور فرماں برداری کرنا  بھی  ضروری ہے کہ وہ ہی نفس پر دشوار ہے۔ “ ([iii])

پیاری اسلامی بہنو! ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص اپنے محبوب کے پسندیدہ کاموں سے منہ پھیر کر اس کو ناراض کرنے والے کاموں میں مشغول ہوجائے! مَحبّتِ رسول تو نام ہی اس چیز کا ہے جو مزید نیکیاں کرنے پر اُبھارے ، جو گناہوں سے دور رکھے ، سنّتوں پر عمل کرنے والا بنادے ، محبتِ رسول تو کہتے ہی اسے ہیں جو نمازوں کا عاشق بنادے ، روزوں کا پابند بنادے ، بے پردگی سے نجات دلادے ، اولاد کی دینی تربیت کرنے پر ابھارے ، سُنی سنائی باتیں آگے کرنے سے روکے رکھے اور ہر طرح کے غیر اسلامی طور طریقوں (Un-Islamic Fashions) سے باز رکھے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے دئیے گئے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس مَحبّتِ رسول سے آراستہ کرلیں کہ جو اپنی آگ سے گناہوں اور کوتاہیوں کی  جھاڑیوں کو یَک دَم جَلاکر راکھ کردے۔

اے عشق تِرے صَدقے جلنے سے چُھٹے سَستے

جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے ([iv])

پیاری اسلامی بہنو! رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مَحبّت پانے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔



([i] ) بخاری ، 1 / 17 ، حدیث : 15

([ii] ) شعب الایمان ، 2 / 201 ، حدیث : 1533

([iii])شرح المشکاۃ للطیبی ، 9 / 224 ، تحت الحدیث : 4990 ، مرقاۃ المفاتیح ، 8 / 724 ، تحت الحدیث : 4990 ، مراٰۃ المناجیح ، 6 / 576ملخصاً

([iv] ) حدائقِ بخشش ، ص193


Share

عشقِ رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا تقاضا / رمضان کی تیاری / آگ کے کنگن / امیر اہلسنت کی ہمشیرہ کا انتقال

رمضانُ المبار ک کی آمد آمد ہے ،  اللہ کے پیارے نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   ، صحابۂ کرام   علیہمُ الرِّضوان   اور بُزُرگانِ دین رمضان شریف کی آمد سے پہلے ہی اس کی تیاری  کرلیتےتھے۔ پیاری اسلامی بہنو! آپ بھی اس مُقدّس مہینے کی آمد سے پہلے ہی اپنے وہ تمام کام نمٹا لیجئے جو روزہ رکھنے ، عبادت کرنے اور تلاوتِ قراٰن کرنے میں مُخِل ہوتے ہیں ، ان میں سے چند کام اور ان کا حل مُلاحَظہ کیجئے :

صفائی ستھرائی:*  دیواروں وغیرہ سے مکڑی کے جالے صاف کرلیں ، کارپیٹ اور پردے ڈرائی کلین کروالیں * کچن کے خانوں ،  ڈبوں اور مائکروویو اوون کی صفائی کر لیں۔ یونہی فریج کی صفائی بھی اہم ہے کیونکہ رمضان میں فریج کا استعمال پہلے سے بڑھ جاتا ہے ، اس لئے فریج کے شیلف احتیاط کے ساتھ نکالیں اور انہیں بیکنگ سوڈا لگاکر پھر پانی سے اچھی طرح دھو کرخُشک کپڑے سے صاف کر لیں یا دھوپ میں سُکھالیں اور پھر فریج کے اندرونی حصے کی صاف کپڑے کی مدد سے صفائی کرلیں۔

کھانے پینے کی اشیاء:سب سے پہلے اندازہ لگالیں کہ رمضان میں مُختلف ڈشز کی تیاری کے لئے کتنا آئل ، نمک ، مرچ وغیرہ درکار ہوگا۔ اپنے بجٹ کے مطابق ان کی فہرست بنا کر پہلے سے یہ اشیاء منگوا لیں ، تاکہ رمضان میں ان کی خریداری کے لئے وقت نہ لگانا پڑے۔

افطاری کی تیاری: افطاری میں چونکہ مختلف پکوان ہوتے ہیں تو وہ اشیاء جن کا استعمال روزانہ ہوتا ہے وہ پہلے سے تیار کر لیں مثلاًادرک لہسن کا پیسٹ بناکر کسی جار میں رکھ کر فریز کرلیں ۔ اسی

 طرح سبزیاں جیسے مٹر نکال کر اور پالک وغیرہ کاٹ کر فریز کرلیں۔

نظامُ الْاَوْقات:رمضان کے حوالے سے اپنا ایک جدول (Time table) ترتیب دے لیں تاکہ عبادات اور کام کاج دونوں کی بسہولت ادائیگی ہو سکے ، اگر آپ کہیں پڑھاتی ہیں تو اسے بھی پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی نیند کو بھی ایک مناسب وقت دینا ہوگا وگرنہ آپ کے سارے کام اُلٹ پُلٹ ہو سکتے ہیں۔ رَمَضانُ المبارَک میں روزانہ نمازِ عصر اور نمازِ تراویح کے بعد مدنی چینل پر امیرِ اہلِ سنّت   دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ   مدنی مذاکرہ فرماتے ہیں جس میں  دینی و دنیاوی مَسائل کے حل بیان کئے جاتے ہیں ، لہٰذا اپنا جدول اس انداز سے ترتیب دیں کہ مدنی مذاکرہ بھی دیکھ سکیں اور دیگر معمولات بھی متأثر نہ ہوں۔

عید کی تیاری:عید کے دن اچھے کپڑے پہننا مستحب ہےلہٰذا خواتین ، مرد حضرات اور بچّوں کے لئے کپڑوں کی خریداری یا کپڑوں کی سلائی پہلے سے کر لیں ، اس طرح آپ عید کے قریب ہونے والی مہنگائی اور مارکیٹ کے رش سے بھی بچ جائیں گی اور رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادت کر سکیں گی * جو کپڑے استری کرنے ہیں وہ پہلے سے ہی ایک ساتھ استری کرکے رکھ لیں یا پھر جس طرح سہولت ہو وقفے وقفے سے کرلیں * صدقاتِ واجبہ و نافلہ پہلے سے مُسْتَحِقّین کو ادا کر دیں تا کہ وہ بھی رمضان اور عید کی برکات سے مُسْتَفید ہو سکیں۔ اللہ کریم ہمیں صحّت و عافیت کے ساتھ ماہِ رمضان کا مہینا عبادتوں میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share

عشقِ رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا تقاضا / رمضان کی تیاری / آگ کے کنگن / امیر اہلسنت کی ہمشیرہ کا انتقال

آنٹی! امّی جان کہہ رہی تھیں کہ رمضان سے پہلے ہی تمہیں عید کی خریداری (shopping)کروا دوں رمضان میں تو باہر نکلنے کا وقت بھی نہیں ملتا ، اس لئے آج امی جان آ رہی ہیں ، میں ان کے ساتھ چلی جاؤں؟ بنتِ ناصر نے اپنی ساس سے پوچھا۔

 جی جی بیٹا! ہنسی  خوشی جاؤ لیکن  خیال رکھنا یہ موقع خوشیوں کا ہوتا ہے کسی پہ بوجھ ڈالنے کا نہیں ، لہٰذا والدہ جودِلوا دیں لے لینا ، زیادہ فرمائشیں مَت کرنا آخر  اب تم ہماری ذمّہ داری ہو ، شادی کے بعد بہو کا یہ پہلا رمضان تھا تو فاطمہ آپا نے اجازت دینے کے ساتھ ساتھ سمجھانا بھی ضروری سمجھا۔

فاطمہ آپا اپنی سمدھن کے ساتھ بیٹھی چائے پی رہی تھیں اور ساتھ میں ہلکی پھلکی گفتگو بھی جاری تھی تبھی سمدھن پوچھنے لگی : آپا! زکوٰۃ تو آپ رمضان میں نکالیں گی ناں؟

فاطمہ آپابولیں : ارے نہیں بہن ، سارا سال ہی تو خیرات دیتے رہتے ہیں ، کبھی فقیر کو سو پچاس دے دیئے ، کبھی مسجد کی پیٹی میں رقم ڈال دی اب الگ سے زکوٰۃ دینے کی کیا ضرورت ہے ، ویسے بھی میرا کونسا لمبا چوڑا بینک بیلنس ہے۔

لیکن آپ کے پاس سونا بھی تو ہے ناں آپا ، یہ کنگن ہی دیکھ لیں چار پانچ تولے سے کم کے نہ ہوں گے ، میرے پاس بھی رقم کہاں ہوتی ہے لیکن زیورات رکھے ہوئے ہیں تو ان کی زکوٰۃ لازمی نکالتی ہوں ، سمدھن نے نرمی سے جواب دیا۔

ارے بہن! رقم پاس نہیں ، سونا بھی زکوٰۃ میں دے کر ختم  کر دوں کیا ، فاطمہ آپا نے گھبرا کر کہا۔

اس سے پہلے کہ سمدھن کچھ بولتی ،  بنتِ ناصراپنے کمرے سے نکلتے ہوئے  بولی : امی جان ، اٹھیں! جلدی چلیں ، واپس بھی تو آنا ہے ۔

سمدھن اور بہو تو بازار کے لئے نکل چکی تھیں لیکن فاطمہ آپا وہیں بیٹھی ہوئی دل ہی دل میں خود کو تسلّی دینے لگیں کہ زکوٰۃ تو تب دوں جب میرے پاس  دینے کو پیسے ہوں ، وہ تو آتے ہیں اور خرچ ہو جاتے ہیں ، رہا سونا تو کون سا میری جیولری شاپ ہے وہ بھی زیورات ہی ہیں جو میں پہنتی ہوں۔

اگلے روز فاطمہ آپا ہال میں بیٹھیں ناشتہ کر رہی تھیں اور بہو  پاس ہی بیٹھی ٹی وی پر مَدَنی چینل دیکھنے میں مگن تھی ، چینل پر “ دارُ الاِفتاء اہلِ سنّت “ نامی پروگرام جاری تھا جس میں سبز عمامہ پہنے ایک مفتی صاحب  اسلامی موضوعات پر سوالات کے جوابات دے رہے تھے ، تبھی بذریعہ کال ایک سوال سُن کر فاطمہ آپا نے بھی اپنی ساری توجّہ اس کی طرف پھیر دی۔

مفتی صاحب! یہ ارشاد فرمائیے کہ عورتوں کے پہننے کے زیورات پر زکوٰۃ لازم ہے یا نہیں؟ ، کالر کا سوال ختم ہوا تو مفتی صاحب فرمانے لگے : جی بالکل ، سونا چاہے زیور کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں ، پہنتے ہوں یا ایسے رکھا ہونصاب کو پہنچنے کی صورت میں  بہر حال اس پر زکوٰۃ لازم ہوگی۔ عموماً عورتیں زیورات کے معاملے میں سستی کرتی ہیں اور زکوٰۃ ادا نہیں کرتیں ، ہمارے پیارے نبی   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت  میں ایک عورت آئی ، اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی ، جس کے ہاتھ میں سونے کے موٹے موٹے کنگن تھے ،  آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے اس سے پوچھا : کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس عورت نے عرض کی ، جی نہیں ، آپ نے اِرشاد فرمایا : کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ  قیامت کے دن اللہ تمہیں ان کنگنوں کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے؟یہ سنتے ہی اس نے وہ کنگن  رسولُ اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے آگے ڈال دئیے اور یہ کہا کہ یہ اللہ اور  اس کے رسول    صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے لئے ہی ہیں۔ (ابو داؤد ، 2 / 137 ، حدیث : 1563)

لیکن مفتی صاحب زیورات کی زکوٰۃ نکالتے رہیں گے تو ختم

نہیں ہو جائیں گے؟ پروگرام کے میزبان نے مفتی صاحب سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے جس کی طرف مسلمان عورتوں کو بالکل توجہ نہیں دینی چاہئے میں آپ کو قراٰنِ پاک کی ایک بہت پیاری آیتِ مبارکہ کا ترجمہ بیان کرتا ہوں : ترجمۂ کنزالایمان : اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو  وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا۔ (پ22 ، سبا : 39)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

لہٰذا یہ مت دیکھیں کہ مال جا رہا ہے بلکہ یہ دیکھیں کس کی بارگاہ میں جا رہا ہے! جس نے دیا تھا اسی کی راہ میں جا رہا ہے اور جس نے پہلے دیا تھا وہ دوبارہ بھی دینے پر قادر ہے ، مفتی صاحب نے بڑی وضاحت سے جواب دیتے ہوئے فرمایا۔

فاطمہ آپا کو یہ سوال و جواب سن کراپنے اوپر افسوس ہورہا تھا کہ کتنے عرصے سے دل کو تسلی دیئے بیٹھی تھی کہ میرے زیور پر زکوٰۃ فرض نہیں ، اللہ نہ کرے اسی حالت میں موت آجاتی تومیرا کیا بنتا ، مجھ میں تو آگ کے کنگن کی تکلیف برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے۔

بہو بِٹْیا میر ی بات سنو! یہ لو میرے کنگن یہ اللہ پاک و رسولُ اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے لئے زکوٰۃ میں دیتی ہوں۔

(نوٹ : زکوٰۃ کے احکام تفصیلاً جاننے کے لئے دارُالاِفتاء اہلِ سنّت کی کتاب “ احکامِ زکوٰۃ “ مکتبۃُ المدینہ سے ہدیۃً حاصل کیجئے۔ )

 

 

 

 


Share

عشقِ رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا تقاضا / رمضان کی تیاری / آگ کے کنگن / امیر اہلسنت کی ہمشیرہ کا انتقال

شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت ، حضرت علامہ محمد الیاس عطّار قادری  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ    کی بڑی بہن زہراء بنتِ حاجی عبدالرحمن (عرف فُوئی ماں) طویل علالت کے بعد 2 جُمادی الاخریٰ 1441ھ بمطابق 28 جنوری 2020ء کو وصال فرماگئیں۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔ اس موقع پرامیرِ اہلِ سنّت   دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ   ملک سے باہر تھے ، بہن کےانتقال کی خبرسُن کرپاکستان تشریف لائےاورعالمی مدنی مرکزفیضان مدینہ کراچی میں اپنی بہن کی نمازِجنازہ خود پڑھائی ، جس میں ہزاروں عاشقانِ رسول شریک ہوئے۔ نمازِ جنازہ کے بعد امیرِ اہلِ سنّت  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  نے اپنی مرحومہ بہن کی بخشش و مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لئے رِقّت انگیز دعا کروائی۔ مرحومہ کو صحرائے مدینہ ٹول پلازہ کراچی میں سِپُردِ خاک کیا گیا۔ 30 جنوری 2020ء بروز جمعرات مرحومہ کے سوئم کے سلسلے میں عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ میں بعد نمازِ عشا مدنی مذاکرہ ہوا ، اس مدنی مذاکرےکے کچھ اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔

 امیرِاہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ: مجھے اپنی بہنوں کی وفات کا بہت صدمہ ہوا ہے۔ بڑی بہن میری ماں کی جگہ تھیں ، اب تو گھر خالی ہو گیا ہے ، اس دور میں بظاہر جتنے میرے چاہنے والے اور محبت کرنے والے ہیں  شاید ہی کسی کے ہوں ، لیکن ظاہرہےکہ اپنا گھر اپنا گھر ہوتاہے ، میرا گھرخالی ہوگیا۔ (امیرِاہلِ سنّت نے بڑے شہزادےکی جانب اشارہ کرکےفرمایا) ان کی امی نے مجھےبتایاکہ  میری بہن نے دو تین مرتبہ بلند آواز سے کلمہ پڑھا ، اس کے بعد  وُہ گِر گئیں۔ اتفاق سے نگرانِ شوریٰ حاجی عمران کی بڑی بیٹی حیدرآباد سے آئی ہوئی  تھیں ، انہوں نے میری بہن کواُٹھایا اور ان کا سر اپنی گودمیں رکھا۔ ان کابھی کہنا ہےکہ میری بہن  نے  کئی مرتبہ کلمۂ طیبہ پڑھا ، یارسولَ اللہ اور  یاغوث یاغوث پکارا ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ہماری گھٹی میں ہی سُنّیت اور غوثِ پاک  رحمۃ اللہ  علیہ   کی محبت  شامل  ہے۔ میری یہ  بہن مجھ سے ایک سال بڑی تھیں ، میں اپنے ماں باپ کی اولاد میں سب سے چھوٹا ہوں ، پتا نہیں میرا وقت بھی کب پورا ہوجائے ، بس اللہ ایمان سلامت رکھے اور بُرے خاتمے سے بچائے۔  نگرانِ شورٰی: فوئی ماں کی تین عادات جوکسی ذریعے سے میرے کانوں تک پہنچی ہیں وہ یہ ہیں : (1) نرمی سےبات کرتی تھیں (2)ان کو دل خوش کرنا آتا تھا (3) دعائیں بہت دیتی تھیں۔ گھر کو ایک اچھا ماحول دینے کے لئے سب گھروالوں میں ان عادتوں کا ہونا بہت ضروری ہے ، بالخصوص گھروں میں جوبڑی عمر کی  اسلامی بہنیں ہوتی ہیں ان کے اندراگریہ باتیں پیدا ہوجائیں ، کہ وہ نرمی سےبات کرنے والی ، دعائیں دینے والی اور اپنی بیٹی وبَہُووغیرہ کا دل خوش کرنے والی بن جائیں تو ان کا گھربھی امن کاگہوارہ بنارہے اور ہوسکتا ہےکہ دنیاسے جانے کے بعد انہیں بھی اچھےالفاظ میں یاد کیا جائے۔ جانشینِ امیرِاہلِ سنّت:  مرحومہ پھوپھی جان  تکلیف میں واویلا   نہیں کرتی تھیں(یعنی اللہ کریم نےانہیں صبرکی دولت سےبھی نوازا تھا) ، بڑی پھوپھی کوجب فالج ہوا تھا تو اس کےچند ماہ بعدہی یہ بھی بیمار ہوکر بستر پہ آگئی تھیں۔  امیرِاہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ: میری بہن کے انتقال کے موقع پر بہت سارے لوگوں نے مجھ سے تعزیت کی ، جنہوں نے مجھ سے تعزیت کی ، چاہےان کا تعزیتی پیغام مجھ تک پہنچ سکا یا نہیں ، اسی طرح جن اسلامی بہنوں نے غسل و کفن میں ساتھ دیا ، جنہوں نےایصالِ ثواب کیا ، دلجوئی اور غمخواری کی ، انتقال سے پہلے سے لے کر تدفین تک بھاگ دوڑ کرتےرہے ، سب میرے مُحسِن اور کرم فرما ہیں ، اللہ آپ سب کو اجرِ عظیم عطا فرمائے ، سب کی بےحساب مغفرت فرمائے ، میں سب کا اجتماعی طورپرشکریہ اداکرتا ہوں ، سب کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک آپ سب کو جزائےخیر   عطا فرمائے۔ اٰمین


Share

Articles

Comments


Security Code