ایک اندازے کے مطابق 365 دنوں میں ہر سال کم و بیش 110 دن طَلَبہ کے بظاہر چھٹیوں یعنی تعلیمی ماحول سے دور گزرتے ہیں۔ اگر آٹھ سالہ کورس کے حساب سے ان سالانہ چھٹیوں کو ضرب دیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ سال میں 2 سال اور 5 ماہ کا عرصہ تو تعطیلات ہی میں گزر جاتا ہے۔ان تعطیلات میں عام طور پر کوئی خاص و اَہَم کام نہیں ہو پاتے لیکن! ایک مشہور مثال ہے:”خَزَائِنُ الْمِنَنِ عَلَی قَنَاطِرِ الْمِحَنِ“ یعنی بخشش اور احسانوں کے خزانے آزمائشوں کے پُل سے گزر کر ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں یا یوں کہئے کہ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔
پیارے طلبۂ کرام! یہ مختصر اور قیمتی وقت آگے کی زندگی کا مدار اور بہت سے کمالات و عُلوم سے آراستہ ہونے کا زمانہ ہے، لہٰذا چھٹیوں کے دِنوں کو عِلمی اور عَمَلی میدان میں گزارنے کے حوالے سے مُفید گزارشات پیشِ خدمت ہیں:
(1)درسی کُتُب: ہر طالبِ عِلم کا اوّلین مقصد درسی کتب پر عُبُور ہونا چاہئے کہ یہی چند کتب زندگی بھر گلستانِ مکتب سے عطر جمع کرنے میں مُعاون ثابت ہوتی ہیں۔ لہٰذا عِلمی پختگی کے لئے ضروری ہے کہ چھٹیوں میں ابتدائی طلبہ اسی سال کی کتب جبکہ بڑے درجات کے طلبہ اس کے ساتھ ساتھ پچھلی کتب کا بھی مطالعہ ضرور فرمائیں۔
(2)ذاتی مُطالعہ: مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اگر پورا درسِ (نظامی) بھی پڑھا تو اس پڑھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اب اتنی اِستِعداد (یعنی صلاحیت) ہوگئی کہ کتابیں دیکھ کر محنت کرکے علم حاصِل کرسکتا ہے۔ ہم خیر خواہانہ نصیحت کرتے ہیں کہ تکمیلِ درسِ نظامی کے بعد فقہ و اُصول و کلام و حدیث و تفسیر کا بکثرت مُطالعہ کریں۔([1])
لہٰذا چھٹیوں کے لئے درسی کتب کے ساتھ مختلف فُنون پر مشتمل مختصر رسالوں کی ایک لسٹ بنائیں، جس میں تفسیر، حدیث، تصوُّف، فقہ، بُزُرگوں اور عُلَما کی سیرت وغیرہ کے موضوعات شامل ہوں اور جب ایک سے اُکتا ہٹ ہوتو دوسرے کو پڑھنا شروع کر دیں، اس طرح طبیعت میں نَشاط رہے گا اور پڑھنے میں مزہ بھی آئے گا۔ حضرت سیّدُنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتاہے کہ آپ جب قراٰنِ پاک کی تعلیم و تفسیر بیان کرنے سے اُکتا جاتے تو شعراء کے دیوان منگوا کر ان کو پڑھنے لگ جاتے۔ یونہی امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ شب بیداری فرمایا کرتے تھے اور آپ کے پا س مختلف قسم کی کتابیں رکھی ہوتی تھیں، جب ایک فن سے اُکتا جاتے تو دوسرے فن کے مطالعہ میں لگ جاتے تھے۔([2])
(3)تحریر: نیکیاں دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک لازم جن کا فائدہ صرف اپنی ذات کو ہوتا ہے، دوسری مُتعدّی جن کا فائدہ اپنی ذات کے ساتھ دوسروں کو بھی ہوتا ہے۔ چونکہ لازم سے متعدی نیکی افضل ہے اس لئے اپنے فائدے کے ساتھ ساتھ اُمّت کی اصلاح کی خاطر تحریری میدان میں ضرور قدم رکھیں۔
تحریر کے لئے چھٹی کے کل دنوں کے حساب سے ہر بار کسی مختصرعربی رسالہ کا انتخاب کریں اور اس پر جو آپ کے لئے آسان ہو ترجمہ، تسہیل، تخریج اور تحقیق کریں۔ اگر ایک بار میں مکمّل نہ ہو تو دوسری، تیسری با ر میں اسے مکمل فرمالیں چاہے کام جیسا بھی ہو، بس آخر تک لگے رہیں چھوڑ نہ دیں، اِنْ شَآءَ اللہ اس طرح بُزُرگوں کے دَفینوں سے ایک خزانہ منظرِ عام پر آجائے گا۔ آپ کی ترغیب و ہمّت کے لئے عرض ہے کہ حضرت مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہورِ زمانہ کتاب ”بہارِ شریعت“ کا عرصۂ تصنیف تقریباً 27 سال پر مُحیط ہے، لیکن 27 سال کا یہ مطلب نہیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ ان سالوں میں ہر وقت تصنیف میں مشغول رہے بلکہ تعطیلات میں وہ بھی دیگر اُمُور سے وقت بچا کر یہ کتاب لکھتے جس کے سبب اس کی تکمیل میں خاصی تاخیر ہوگئی، بہارِ شریعت حصّہ17 کے اختِتام پر آپ لکھتے ہیں: اس کی تصنیف میں عُمُوماً یہی ہوا کہ ماہ رمضان مبارَک کی تعطیلات میں جو کچھ دوسرے کاموں سے وقت بچتا اس میں کچھ لکھ لیا جاتا۔([3])
(4) درس وبیان: مُتعدّی نیکی کی ایک صورت درس و بیان بھی ہے۔ لہٰذا چھٹی کے کل روز کی رعایت کرتے ہوئے ہفتہ کے دِنوں کو مختلف مقامات کے لئے منتخب کریں اور بھرپور تیاری کے ساتھ وہاں جا کر اصلاحی اور اخلاقی مضامین پر درس و بیان کریں اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے سادہ عوام کو روشناس کرائیں مگر! درس و بیان کا انداز افہام و تفہیم والا ہوتو زیادہ بہتر ہے ۔
اپنے علاقے میں ہونے والے مختلف مدنی کاموں میں شمولیت کو یقینی بنایا جائے مثلاً ہفتہ وارعلاقائی دورہ،یومِ تعطیل اعتکاف،چوک درس وغیرہ،ان مدنی کاموں میں شرکت کی برکت سے اپنی اِصلاح کے ساتھ ساتھ دُوسروں تک نیکی کی دعوت پہنچانے کی سعادت بھی حاصل ہوگی۔ خیال رہے کہ دیگر کی اصلاح کے ساتھ اپنی اصلاح پر بھی توجّہ ہو، فرائض و اجبات کی تکمیل میں کوئی کمی نہ رہے تاکہ زبان و کردار دونوں کے ساتھ لوگوں کو اسلامی تعلیمات کی طرف قائل و مائل کرسکیں۔
(5)شارٹ کورسز: یہ زمانہ مقابلہ کا ہے، ہر شعبہ ترقی کے زینوں کو طے کرتے ہوئے آسمان کی بلندیوں کو چھورہا ہے، اس لئے اپنے درجات کے حساب سے طلبہ ٔ دین کو بھی اپنی مہارت(Skill)میں اضافہ کرنا چاہئے،اپنے دِلی رُجحانات اور مستقبل کے ارادوں میں مُعاون شارٹ کورسز میں ضرور حصہ لیجئے اِنْ شَآءَ اللہ وقت آنے پر اس کا بھر پور فائدہ ہوگا۔
گزشتہ سالو ں سے مختلف جامعاتُ المدینہ میں مجلس جامعۃُ المدینہ کی طرف سے بھی مختلف کورسز کروائے جارہے ہیں لہٰذا ان میں شمولیت بھی علمی دنیا میں ترقّی کے لئے بہت مُعاون ثابت ہوگی۔
پیارے طلبہ! اگر یہ وسوسہ آئے کہ یہی سب کام کرنے ہیں تو پھر انہیں چھٹیاں کہنا درست نہیں کہ اس طرح تو سارا وقت پڑھنے اور سیکھنے میں ہی لگ جائے گا تو عرض ہے کہ یہی حقیقت ہے کہ طالبِ عِلم کی کوئی چھٹی نہیں، علمِ دین حاصل کرنے والے کسی دن کو بھی پڑھائی سے چھٹی کا تصوّر نہیں کرسکتے، آپ کو معلوم ہی ہے کہ حریص کی ایک قسم عِلم کا حریص بتایا گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کو علم کی چاشنی مل جائے تو پھر وہ روکے نہیں رُکتا بلکہ ہر آن مزید کا طالب ہوتا ہے، یقین نہیں آتا تو اسلاف کی سیرت اٹھا کر ہی پڑھ لیجئے کس طرح وہ عِلم دوست تھے، کیسے وہ کتاب کی رفاقت کا حق ادا کرتے تھے، حضرت سیّدنا امام حَسن بن زیاد کُوفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میرے چالیس سال اس طرح گزرے کے سوتے جاگتے میرے سینے پر کتاب رہی۔([4])
حوصلہ پست ہے کیوں عزم جواں پیدا کر
اٹھ زمانے میں قیامت کاسماں پیدا کر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments