خادمِ نبی حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ

روشن ستارے

خادم ِنبی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ

*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2024ء

ایک صحابیِ رسول رضی اللہُ عنہ کے ہاں چند حضرات تشریف لائے تو انہوں نے کنیزسے فرمایا: دسترخوان لاؤ تاکہ ہم کھانا کھائیں، وہ دستر خوان لے آئی پھر سب نے مل کر کھانا کھایا اس کے بعد صحابیِ رسول نے رومال منگوایا تو وہ ایک رومال لے آئی جسے دھونے کی ضرورت تھی، صحابیِ رسول نے اسے گرم گرم تندور میں ڈالنے کا حکم دیا، کچھ دیر بعد اس رومال کو تندور سے نکالا گیا تو وہ دودھ کی طرح سفید تھا۔ مہمانوں کو بڑی حیرت ہوئی جب اس کی وجہ پوچھی تو صحابیِ رسول نے ارشاد فرمایا:یہ وہ رومال ہے جس نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ اقدس کو چھوا ہے، لہٰذا جب اسے دھونے کی ضَرورت پڑتی ہے تو ہم اِس کو اِسی طرح آگ میں دھو لیتے ہیں، کیونکہ جو چیز انبیائے کرام علیہم الصّلوٰۃُوالسّلام کے رُخِ روشن پر سے گزر گئی آگ اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتی۔([1])

پیارے اسلامی بھائیو! پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رومال مبارک کو اپنے پاس بحفاظت رکھنے والے اور اس کی برکتوں کو سمیٹنے والےیہ  صحابیِ رسول ممتاز خادمِ نبی حضرت انس بن مالک بن نَضْر رضی اللہُ عنہ تھے۔

کنیت اور رشتے داریاں: آپ رضی اللہُ عنہ انصار میں قبیلۂ خَزْرَج کی ایک شاخ بنی نَجّار کے چشم وچراغ ہیں۔ آپ رضی اللہُ عنہ کی کنیت خود جناب رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ’’ابو حمزہ‘‘ رکھی تھی۔([2]) آپ رضی اللہُ عنہ حضرت اُمِّ سُلیم کے بیٹے، حضرت اُمِّ حرام کے بھانجے اور حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہُ عنہ کے سوتیلے بیٹے ہیں۔

خادمِ نبی:ہجرت نبوی کے شروع میں ہی آپ نے آٹھ سال کی عمر میں خادم ِرسول ہونے کا اعزاز پالیا تھا پھر مسلسل دس برس کے طویل عرصے تک سفر اور وطن، جنگ اور صلح ہر جگہ خدمت میں مصروف رہے۔([3]) آپ غزوۂ بدر میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خادمِ خاص کی حیثیت سے شریک تھے۔([4]) آپ دن بھر جناب سیّد ِدو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کام سر انجام دیا کرتے۔

راز کی حفاظت کرتے: آپ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رازوں کو راز رکھا کرتے تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب کبھی میری والدہ یا اُمّہاتُ المؤمنین میں سے کوئی مجھ سے رسولُ اللہ کے کسی راز کے بارے میں پوچھتیں تو میں انہیں ہرگز نہ بتاتا بلکہ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے راز تو میں کبھی بھی کسی کو ہرگز نہ بتاؤں گا۔([5])

بھُنا ہوا گوشت لے کر حاضر ہوئے: آپ رضی اللہُ عنہ نے اپنے لڑکپن میں ایک خرگوش شکار کیا اور اسے بُھونا، پھر آپ کے سوتیلے والد حضرت سیّدُنا ابو طلحہ رضی اللہُ عنہ نے اس خرگوش کا پچھلا (رانوں والا) حصہ بُھنا ہوا آپ کے ہاتھوں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے بھجوایا، آپ اسے لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضرِ خدمت ہوئے تو پیارے آقا نے اسے قبول کرلیا۔([6])

کدو شریف کو پسند رکھتے: آپ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعوت کی تومیں بھی حاضرِ خدمت تھا۔ اس نے بارگاہِ اقدس میں جَوکی روٹی کے ساتھ کدُّو اور خشک گوشت کی بوٹیوں والا سالن  پیش کیا۔ میں نے دیکھا کہ حضورِ اکرم پیالے کے کناروں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کرکے تناول فرما رہے ہیں۔ اس دن کے بعد میں ہمیشہ کدو (مبارک) کو پسند کرنے لگا۔([7])

اکابرین سے محبت کا دَم بھرتے: آپ کہا کرتے تھے کہ میں رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہُ عنہما کے ساتھ محبت رکھتا ہوں، اگرچہ میرا عمل ان نفوسِ قدسیہ جیسا نہیں ہے لیکن مجھے امید ہے کہ ان کی محبت کی وجہ سے ان کا ساتھ ضرور نصیب ہوجائے گا۔([8])

تبرکات:رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک پیالہ مبارکہ بھی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس بحفاظت موجود تھا اس بابرکت پیالے سے آپ نے اپنے محبوب کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بہت مرتبہ خدمت کی تھی کہ کبھی اس پیالے میں دودھ تو کبھی شہدتو کبھی ستو اور کبھی نبیذ یا ٹھنڈا پانی ڈال کر بارگاہِ رسالت میں پیش کردیتے تھے۔([9]) آپ کے پاس رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بابرکت بال، عصا مبارکہ اور پاکیزہ و خوشبودار پسینہ بھی محفوظ تھا۔

عام معمولات: آپ رضی اللہُ عنہ اپنی داڑھی مبارکہ میں مہندی کا خضاب استعمال فرماتے،جسم پر حسین جوڑا زیب تن کرتے جبکہ سرِاقدس پر عمامہ کا تاج سجاکر رکھتے جس کا شملہ پیچھے کمر کی جانب ہوتا تھا۔([10]) آپ روزانہ مغرب کی نماز کے بعد کپڑے تبدیل کرتے اور عشا تک نوافل ادا کرتے رہتے۔([11]) جب ختم ِقراٰن کی سعادت حاصل کرتے تو اپنے بال بچوں کو جمع کرلیتے اور ان سب کے لئے دعا کرتے تھے۔ نیز آپ کی گفتگو بہت کم الفاظ پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔([12])

بیماری پر صبر: ایک مرتبہ آپ بیمار ہوگئے، کچھ لوگ عیادت کے لئے آئے اور عرض گزار ہوئے کہ آپ کے لئے کسی طبیب کا انتظام کردیتے ہیں؟ لیکن آپ نے فرمایا: مجھے طبیب حقیقی یعنی اللہ پاک ہی کی طرف سے بیماری پہنچی ہے۔([13])

فاروقِ اعظم کی خلافت میں: آپ کچھ عرصہ مدینۂ منورہ میں گزار کر حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے دورِ خلافت میں بَصْرَہ تشریف لے گئے اور لوگوں کو علم ِدین کے جام بھر بھر کر پلانے لگے۔([14]) آپ رضی اللہُ عنہ نے بار ہا شام کا سفر اختیار فرمایاجبکہ آخری دنوں میں بصرہ کو مستقل قیام گاہ ہونے کا اعزاز بخشا۔([15])

روایتوں کی تعداد: بےشمار افراد نے آپ کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل کیا ہے۔ آپ رضی اللہُ عنہ سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 2286ہے۔([16])

وصیت مبارکہ: آخری لمحات میں حضرت انس بن مالک نے حضرت ثابت بنانی رحمۃُ اللہِ علیہ کو وصیت کی: اے ثابت! یہ میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مقدس بال ہیں انہیں لے لو اور وصال کے بعد انہیں میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔([17])یہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا عصا مبارک ہے، اسے میرے پہلو اور کُرتے کے درمیان رکھ دینا،([18]) پھر جب میرے کفن اور جسم کو خوشبو لگاؤ تو اس میں میرے محبوب کریم آقا کے مبارک پسینے کو ضرور شامل کرلینا۔([19])

آخری کلمات: اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی زبان پر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا ورد جاری ہوگیا حتّٰی کہ اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔([20]) اکثر کے نزدیک 93 ہجری میں آپ نے اس جہانِ فانی سے کوچ کیا بوقتِ انتقال آپ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک 100 سال سے زیادہ تھی۔([21]) آپ بَصْرَہ میں وفات پانے والے آخری صحابی ہیں۔([22])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی



([1])شواہد النبوۃ،ص181،خصائص کبریٰ،2/134

([2])معجم کبیر،1/238

([3])طبقات ابن سعد،7/12 تا14، 282

([4])تہذیب الاسماء واللغات، 1/137

([5])مسند ابی یعلی، 3/277، حدیث:3612

([6])ابو داود، 3/494، حدیث:3791

([7])مسلم،ص869،حدیث:5325

([8])بخاری، 2/527، حدیث:3688

([9])بخاری، 3/595، حدیث:5638 ملتقطاً-اخلاق النبی للاصبہانی، ص1324، حدیث:624

([10])طبقات ابن سعد،7/18

([11])تاریخ ابن عساکر،9/363

([12])دارمی،6/560،رقم:3474-صفۃ الصفوہ، 1/362

([13])تاریخ ابن عساکر، 9/368

([14])جامع الاصول، 12/200، رقم:34

([15])تاریخ ابن عساکر، 9/339

([16])تہذیب الاسماء واللغات، 1/137

([17])الاصابۃ،1/276

([18])اسد الغابۃ،1/194

([19])بخاری، 4/182،حدیث:6281

([20])تاریخ ابن عساکر،9/378

([21])تہذیب الاسماء واللغات، 1/137

([22])تاریخ ابن عساکر،9/378


Share