محاسنِ اسلام
اسلام اور تعلیم (قسط:01)
*مولانا عبدالعزیز عطاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2024
تعلیم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ریاستوں، ملکوں، قوموں، خاندانوں اور آنے والی نسلوں کو سدھارنے اور کامیابی کے سنہری خوابوں کو عملی جامہ پہننانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
دینِ اسلام کی ہزاروں ایسی خوبیاں ہیں کہ دنیا کا کوئی نظام، دستور، آئین، دستاویزات اور مذہب اس کی خوبیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ان اعلیٰ خوبیوں میں سے ایک خوبی اور حُسن ”تعلیم“ بھی ہے۔ اس مذہبِ حق کا تو ابتدائی پیغام ہی لفظ ”اقرء“ سے ہوتاہے۔
دینِ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو انسانیت کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کی تعلیمات انسانیت کے تمام شعبہ ہائے زندگی کو محیط ہیں۔
اسلام صرف رسمی تعلیم کا قائل نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تعمیر شخصیت، افکار و خیالات اور تصورات کو پروان چڑھانے کا بھی خواہاں ہے یہ صلاحیتوں کو نکھارتا اور کامیابی کی راہیں ہموار کرتا ہے اس کا تعلق کسی ذات اور علاقے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تعلیم سب کا بنیادی حق ہے اور یہ سب کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں بخیل نہیں۔
اہلِ اسلام نے ِ تعلیم کی بہتری اور علم کی اشاعت کے لئے جو اقدامات کیے ہیں آج سینکڑوں سال بعد تعلیمی ادارے انہیں اپنا کر انفرادیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم یہاں اسلام کے ابتدائی دور میں تعلیم کے لیے کیے جانے والے اہم اقدامات کو 18 حصوں میں تقسیم کرکے بیان کرتے ہیں:
(1)علم کی فضیلت بیان کرکے اہمیت اجاگر کرنا۔
(2)حصولِ علم کی ترغیب اور ترک پر تنبیہ۔
(3)تعلیم عام کرنے کی ترغیب۔
(4)حصولِ علم کے مواقع و ذرائع کا انتظام۔
(5)تعلیم سب کے لئے۔
(6)تعلیم مفت بلکہ وظائف بھی ۔
(7)صلاحیت کے موافق سیکھنے کی ترغیب۔
(8)نظامِ تعلیم کی بہتری و مضبوطی کے اقدامات۔
(9)منہج تدریس۔
(10)کلاس کا بہترین نظم و ضبط۔
(11)تعلیمی اوقات میں وسعت و گنجائش۔
(12)تعلیم میں مختلف دورانیے کی گنجائش۔
(13)ہنر مند افراد پیدا کیجیے۔
(14)اہل فن سے رجوع اور کسی ایک فن میں مہارت ۔
(15)علم کے حصول اور پختگی میں معاون انداز۔
(16)فکرِ معاش سے آزاد رہ کر حصولِ علم۔
(17)اشاعت علم کے لے نصنیفی خدمات۔
(18)مسائل عوام کی رہنمائی کا اہتمام۔
(1)علم کی فضیلت بیان کرکے اہمیت اجاگر کرنا
علم کی اہمیت و فضیلت:علم ایک ایسا وصف ہے کہ جس سے باصلاحیت اور باشعور افراد پیدا ہوتے ہیں فہم و فراست، شعور و آگہی اور فکر و دانش میں اضافہ ہوتا ہے افکار و نظریات مضبوط ہوتے ہیں صحیح اور درست فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے قومیں ترقی کرتی ہیں بہترین معاشرہ معرض وجود میں آتا ہے اور لوگوں کو بہترین اور پرسکون ماحول فراہم ہوتا ہے اسی لئے علم حاصل کرنے اور اس کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہنے کی ترغیب د لائی گئی ہے۔
علم کی فضیلت:
(1) یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ (پ28، المجادلۃ: 11)
ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔
(2)قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(9) (پ23، الزمر: 9)
ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
(3)علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (ابن ماجہ،1/146، حدیث: 224)
علم سیکھنے کی فضیلت: (1) تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہترہے۔(معجم اوسط،6/257،حدیث:8698) (2)فرشتے طالب علم کے پاؤں کے نیچے پر بچھاتے ہیں۔ (ترمذی، 5 / 315، حدیث: 3546 ملخصاً) (3)جو شخص علم حاصل کرنے کے لئے کسی راستے پر چلتا ہے اللہ پاک اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دے گا۔ (مسلم، ص1110،حدیث: 6853ملخصاً)
علم سکھانے کی فضیلت: (1)حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ پاک اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی اس کو یاد کیا اور دوسروں تک پہنچایا۔(ترمذی، 4 / 298، حدیث:2665) (2)علم میں غور و فکر کرنا روزے کے برابر اور پڑھانا رات کی عبادت کے برابر ہے۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، ص77، حدیث: 240 ملخصاً) (3)تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قران مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (مسند احمد،1/151، حدیث: 500)
علمی مجالس کا قیام: مجالس علم کو حضور علیہ السّلام نے جنت کی کیاریوں سے تشبیہ دی۔(ترغیب وترہیب،1/63 ماخوذاً) رات میں ایک گھڑی علم دین کا پڑھنا پڑھانارات بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔ (دارمی، 1/94،حدیث: 264 ملخصاً)
(2)حصولِ علم کی ترغیب اور ترک پر تنبیہ
علم کے ساتھ وابستہ رہیں:عالم بنو یا طالب علم بنو یا (علمی باتیں) سننے والے بنو، ان کے علاوہ چوتھا نہ بننا ہلاک ہوجاؤ گے۔
(دارمی،1/91،حدیث: 248)
تعلیمی معاملات میں سختی:حضور علیہ السّلام نے فرمایا:ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اپنے ہمسایوں کو دین میں سمجھ بوجھ سے آشنا نہیں کرتے، ان کو تعلیم نہیں دیتے، وعظ و نصیحت نہیں کرتے، نیکی کا حکم نہیں دیتے اور برائیوں سے نہیں ر وکتے اور ان لو گوں کا کیا حال ہے جو اپنے ہمسایوں سے نہیں سیکھتے، ان سے سمجھ بوجھ حاصل نہیں کرتے، ان سے نصیحت حاصل نہیں کرتے ،اللہ کی قسم! یا تو وہ اپنے ہمسایوں کو ضرور تعلیم دیں انہیں سمجھ بوجھ دیں نصیحت کریں نیکی کا حکم دیں برائیوں سے روکیں نیز لوگ اپنے ہمسایوں سے ضرور تعلیم حاصل کریں ،دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اور نصیحت لیں یا پھر میں ان کو جلد سزا دوں گا۔
(مجمع الزوائد،1/402،حدیث: 748)
حصول علم کے مقاصد:جو بھی شخص کوئی کام کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی مقصد اس کے پیشِ نظر ضرور ہوتا ہے جس کے حصول کے لئے وہ تگ و دو کرتا ہے، علم تو اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے تو اس کے مقاصد اور فوائد بھی مد نظر ہونے چاہئیں تاکہ اسے یکسوئی سے حاصل کئے جاسکے چنانچہ حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا:علم حاصل کرو کیونکہ اس کا حاصل کرنا اللہ پاک کی خشیت، اسے طلب کرنا عبادت، علمی مذاکرات کرنا تسبیح، علمی تحقیق کرنا جہاد، بے علم کو علم سکھانا صدقہ اور اہل لوگوں تک پہنچانے سے اللہ پاک کا قرب ملتا ہے۔ یہ تنہائی میں غمخوار، خلوت کا ساتھی اور راہ جنت کا مینار ہے۔ اللہ پاک اس کے باعث قوموں کو بلندیوں سے نوازتا ہے اور انہیں نیکی و بھلائی کے کاموں میں ایسا راہنما اور پیشوا بنا دیتا ہے کہ ان کی پیروی کی جاتی ہے، ہر خیر و بھلائی کے کام میں ان سے راہنمائی لی جاتی ہے، ان کے نقش قدم پر چلا جاتا ہے، ان کے اعمال و افعال کی اقتدا کی جاتی ہے، ان کی رائے حرف آخر ہوتی ہے، فرشتے ان کی دوستی کو پسند کرتے ہیں اور انہیں اپنے پروں سے چھوتے ہیں، ہر خشک و تر شے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، خشکی کے درندے اور جانور سب ان کی مغفرت چاہتے ہیں۔ اس لئے کہ علم اندھے دلوں کی زندگی اور تاریک آنکھوں کا نور ہے۔ بندہ اس کے سبب دنیا و آخرت میں نیک لوگوں کے مراتب اور بلند درجات تک جا پہنچتا ہے۔ علم میں غوروفکر کرنا روزے رکھنے کے برابر اور اسے پڑھانا رات کے قیام کے مساوی ہے۔ اسی کے سبب صلہ رحمی کی جاتی ہے، علم امام ہے اور عمل اس کا تابع۔ علم نیک بخت لوگوں کے دلوں میں ڈالا جاتا ہے جبکہ بدبختوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، ص77، حدیث: 240 ملتقطاً) بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments