دیہات والوں کے سوالات اور رسولُ اللہ کے جوابات (قسط:02)

علم کی چابی

دیہات والوں کے سوالات اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جوابات(قسط :2)

*مولانا محمد عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2024ء

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں گاؤں دیہات سے حاضر ہونے والے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان جو سوالات کیا کرتے تھے، ان میں سے تین پچھلی قسط میں بیان ہوئے، مزید5 سولات اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جوابات ملاحظہ کیجئے۔

(1)جنّت کے بالا خانے کس کو ملیں گے؟مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَغُرَفًا تُرٰى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا یعنی جنّت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا باہر والا حصہ اندر سے اور اندر والا حصہ باہر سے نظر آتا ہے۔اتنے میں ایک دیہات والا آدمی کھڑا ہوا اور عرض کی :لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ الله؟یعنی یا رسولَ الله! وہ بالا خانے کس کے لئے ہیں؟رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: هِيَ لِمَنْ اَطَابَ الْكَلَامَ، وَاَطْعَمَ الطَّعَامَ،وَاَدَامَ الصِّيَامَ،وَصَلَّى لله بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ یعنی وہ اس کے لئے ہیں جس نے اچھی گفتگو کی،کھانا کھلایا،ہمیشہ روزہ رکھا اور رات کے وقت جبکہ لوگ سو رہے ہوں، الله پاک کے لئے نماز پڑھی۔([1])

(2)موتیوں کے منبروں پر کون بیٹھیں گے؟ حضرت ابودرداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ اَقْوَامًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي وُجُوهِهِمُ النُّورُ عَلَى مَنَابِرِ اللُّؤْلُؤِ يَغْبِطُهُمُ النَّاسُ لَيْسُوا بِاَنْبِيَاءَ وَلَا شُهَدَاءَ یعنی قیامت کے دن اللہ پاک ایک ایسی قوم کو ضرور اٹھائے گا جس کے چہرے نورانی ہوں گے، وہ موتیوں کے منبروں پر ہوں گے، لوگ اُن پر رَشک کریں گے، وہ نہ تو انبیاء ہوں گے اور نہ ہی شہداء۔ اتنے میں ایک دیہات والا آدمی اپنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہوا اور یوں عرض کی:يَا رَسُولَ اللَّهِ حَلِّهِمْ لَنَا نَعْرِفْهُمْ یعنی یا رسولَ اللہ ! ہمیں ان کے اوصاف بیان فرما دیجئے تاکہ (دنیا میں)ہم انہیں پہچان سکیں۔ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:هُمُ الْمُتَحَابُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ قَبَائِلَ شَتّٰى وَبِلَادٍ شَتّٰى يَجْتَمِعُونَ عَلَى ذِكْرِ اللَّهِ يَذْكُرُونَهٗ یعنی وہ لوگ مختلف قبیلوں اور شہروں  والے ہوں گے، اللہ کے لئے آپس میں محبت کرتے ہوں گے، اللہ کا ذکر کرنے کے لئے ایک جگہ جمع ہوں گے اور اُس کا ذکر کریں گے۔([2])

(3)کس عمل کے کرنے سے فائدہ ہو گا؟حضرت ابوجُرٰی جابر بن سُلیم ہُجَیْمِی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! اِنَّا قَوْمٌ مِنْ اَهْلِ الْبَادِيَةِ فَعَلِّمْنَا شَيْئًا يَنْفَعُنَا اللهُ بِهٖ یعنی ہم دیہات میں رہنے والی قوم ہیں،آپ ہمیں کوئی ایسی چیز سکھا دیں جس کے ذریعے اللہ پاک ہمیں فائدہ عطا فرمائے۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یعنی کسی نیکی کو ہرگز معمولی نہ سمجھو اگرچہ وہ تمہارا اپنے بھائی کے برتن میں اپنے ڈول سے پانی ڈالنا ہو یا اپنے بھائی سے گفتگو کرتے ہوئے مسکراناہی کیوں نہ ہو، اِيَّاكَ وَتَسْبِيلَ الْاِزَارِ فَاِنَّهٗ مِنَ الْخُيَلَاءِ وَالْخُيَلَاءُ لَا يُحِبُّهَا اللَّهُ یعنی تہبند لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ تکبر (کی نشانی) ہےاور([3]) اللہ پاک تکبر کو پسند نہیں فرماتا، وَاِنِ امْرُؤٌ سَبَّكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ اور اگر کوئی آدمی تمہیں تمہارے کسی عیب پر طعنہ دے تو تم اُسے اُس کے عیب پر ہرگز طعنہ نہ دو اس لئے کہ تمہیں اِس کا(طعنہ نہ دینے کا) ثواب ملے گا اور طعنہ دینے والے پر طعنہ دینے کا وبال ہوگا۔([4])

(4)قیامت کب آئے گی؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ایک مجلس میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں سے گفتگو فرما رہے تھے،اتنے میں ایک دیہات والا آدمی آیا اور بولا: مَتَى السَّاعَةُ؟یعنی قیامت کب آئے گی؟ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےگفتگو جاری رکھی تو بعض لوگ کہنے لگے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاِن کا سوال سنا اور اسے ناپسند کیا، کچھ نے کہا:آپ نے سوال سُنا ہی نہیں۔ جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی بات پوری فرما چکے تو فرمایا: اَيْنَ اُرَاهُ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ؟ یعنی قیامت کےمتعلق سوال کرنے والاآدمی کہاں ہے؟ انہوں نے کہا:یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میں یہاں ہوں۔آپ نے فرمایا: فَاِذَا ضُيِّعَتِ الْاَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ یعنی جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ انہوں نےسوال کیا:كَيْفَ اِضَاعَتُهَا؟ یعنی امانت کیسے ضائع ہوگی؟ آپ نے فرمایا: اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلَى غَيْرِ اَهْلِهٖ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ یعنی جب منصب نااہل کوسونپ دیا جائے تو تم قیامت کا انتظار کرو۔([5])حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ (مَتَى السَّاعَةُ؟) کے تحت فرماتے ہیں: قیامت کی تاریخ مہینہ دن بتائیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کو علمِ غیب کلی بخشا اور یہ بھی عقیدہ تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کو قیامت کا علم دیا گیا اس لئے تو آپ سے یہ سوال کرتے تھے، حضور انورنے بھی انہیں اس سوال پر کافر یا مشرک نہ کہا بلکہ قیامت کی علامات بیان فرمادیں اور علامتیں وہ بیان کرتا ہے جسے ہر شے کا پتہ ہو۔ (ضُيِّعَتِ الْاَمَانَةُ) کے تحت لکھتے ہیں: یہاں امانت سے مراد امامت حکومت سلطنت وغیرہ ہے جو رب تعالیٰ کے امانتیں ہیں جو اس نے چند روز کے لئے بندوں کو سپرد فرمائی ہیں جیسا کہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے۔(اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلَى غَيْرِ اَهْلِهٖ) کے تحت لکھتے ہیں:اس طرح کہ حکومت فاسقوں یا عورتوں کو ملے، قاضی فقیر جاہل لوگ بنیں اور بےوقوف لوگ بادشاہ بنیں۔ تَوسِید بنا ہے وِسادۃ سے اس کے معنی ہیں تکیہ کسی کے نیچے رکھنا یعنی نااہلوں کے سر تلے ان امانتوں کا تکیہ رکھ دیا جائے۔([6])

(5)کیا جنّت میں گھوڑے ہوں گے؟ حضرت بُرَیدہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہات کے آدمی نے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا: يَا رَسُولَ اللهِ اِنِّي اُحِبُّ الْخَيْلَ اَفِي الْجَنَّةِ خَيْلٌ؟یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے گھوڑے پسند ہیں، کیا جنت میں گھوڑے ہوں گے؟رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اِنْ اُدْخِلْتَ الْجَنَّةَ اُتِيتَ بِفَرَسٍ مِنْ يَاقُوتَةٍ لَهٗ جَنَاحَانِ فَحُمِلْتَ عَلَيْهِ ثُمَّ طَارَ بِكَ حَيْثُ شِئْتَ یعنی اگر تو جنت میں داخل کیا گیا تو تیرے پاس ایک یاقوت کا گھوڑا لایا جائے گا جس کے دو پر ہوں گے تو اس پر سوار کیا جائے گا پھر وہ تجھے وہاں اڑا کر لے جائے گا جہاں تو چاہے گا۔([7]) حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: خیال رہے کہ وہاں یہ دنیا کے اونٹ یا پرندے نہ ہوں گے بلکہ خود جنت کی مخلوق ہوں گے جیسے حو ر وغلمان کہ جنّت تو صرف انسانوں کے لیے ہے ہاں چند جانور وہاں جائیں گے،حضور کی اونٹنی قصوا، اصحابِ کہف کا کتا،صالح علیہ السّلام کی اونٹنی، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا دراز گوش جیساکہ بعض روایات میں ہے۔([8])        جاری ہے۔۔۔


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])ترمذی، 4/236،حدیث:2535-التیسیر بشرح الجامع الصغیر، 1/325

([2])مجمع الزوائد،10/77،حدیث:16770

([3])مرد کے لیے لاپرواہی کی وجہ سے پاجامہ یا تہبند ٹخنوں سے نیچے رکھنا خلافِ اولیٰ ہے اور تکبر کی وجہ سے حرام ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 3/109 مفہوماً)

([4])مسند احمد،34/236،حدیث:20633

([5])بخاری،1/36،حدیث:59

([6])مراٰۃ المناجیح،7/255

([7])ترمذی،4/244، حدیث:2553

([8])مراٰۃ المناجیح،7/501۔


Share