کھانے پینے کی چیزیں ضائع نہ کیجئے

فریاد

کھانے پینے کی چیزیں ضائع  نہ کیجئے!

* مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2024ء

اے عاشقانِ رسول!کھانے پینے کی چیزوں کو ضائع کرنا ایک International Problem ین الاَقوامی مَسئلہ) ہے۔ لوگوں کی ایک تعداد ہے کہ جو  استعمال کے قابل ہونے کے باوجود کھانے پینے کی بہت سی چیزوں کو ضائع کردیتی ہے، شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات، رمضانُ المبارک میں عام لوگوں کے افطار کے لئے مختلف مقامات پر بچھائے گئے دسترخوان یا پھر بڑے لوگوں کی افطار پارٹیاں، ہوٹلز اور گھر، الغرض بہت سی  جگہوں پر کھانے پینے کی چیزیں  ضائع ہوتی ہوئی  نظر آتی ہیں۔ وطنِ عزىز پاکستان کے ساتھ ساتھ کئی ممالک مىں روزانہ لاکھوں کروڑوں روپے کی کھانے پینے کی چیزیں  پھىنک دى جاتی ہیں  جو کہ  کسى انسان کے پىٹ مىں نہىں جاتیں۔

کئی امیر ممالک تو ایسے ہیں کہ جن مىں استعمال کے قابل  ہونے کے باوجود کھانے کی  چیز کو ضائع کرنے کے باقاعدہ قوانین بنے ہوئے ہىں۔ جیساکہ ایک امیر ملک کے بارے میں پتا چلا کہ وہاں ہوٹل والے قانونی لحاظ سے اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ بچا ہوا کھانا شام کو پھینک دیں، مثلاً اگر کوئی ہوٹل والا مچھلىاں پکا کر ىا تَل کر ىا ڈىپ فرائى کر کے بىچتا ہو، تو شام میں جتنی مچھلیاں بچی ہوں گی چاہے پکی ہوئی ہوں یا پھرکچی جو کہ فریزر میں موجود ہوں،ساری ہی پھىنک دىنا ضَروری ہے۔ اب چاہے وہ ایک ہزار روپے کى ہوں یا پھر ایک لاکھ روپے کى، انہیں دوسرے دِن نہىں کھلا سکتے۔آپ اسی سے اندازہ لگالیں کہ جب فرىزر مىں رکھی کچى مچھلىاں دوسرے دِن نہیں چلا سکتے تو پھر پکا ہوا کھانا اگلے دن کے لئے کس نے فرىج مىں رکھنے دىنا ہے؟ ىہ بھى لازمی طور پر پھىنکنا ہى ہوگا۔

دعوتوں میں کھانا کھاتے ہوئے ٹیبلز، دسترخوانوں اور دریوں پر کھانا گِرایا جاتا ہے،جن ہڈیوں کے ساتھ گوشت لگا ہوتا ہے انہیں برابر صاف نہیں کیا جاتا، برتن سے گرم مصالحے اور نہ کھائی جانے والی چیزوں کو نکالنے کے ساتھ کھانے کے بہت سے ذرات بھی ساتھ ہی چلے جاتے اور ضائع ہوجاتے ہیں، کھانے کے بعدبرتنوں اور دیگوں میں بچا ہوا تھوڑا سا کھانا دوبارہ استِعمال کرنے کا بہت سے لوگوں کا ذِہن نہیں ہوتا، بچی ہوئی روٹىاں یا پھر ان کے ٹکڑے اور بچے ہوئے چاول بھی پھینک دیئے جاتے ہیں ۔

اعداد و شمار کی عالمی ویب سائٹ ” theworldcounts.com کے مطابق   دنیا کی خوراک کا تقریباً ایک تہائی حصہ ضائع ہو جاتا ہے جو تقریباً 1.3 بلین ٹَن  یعنی 13کھرب کلوگرام سالانہ ہے۔

جہالت اور دینی تعلیمات سے دوری کے سبب کچھ لوگوں کے دماغ بہک جاتے ہیں، پھر انہیں مسلمانوں کے جُوٹھے میں بھی جَراثیم اور بیکٹیریا نظر آتے ہیں اور وہ اپنے مسلمان بھائى کا جُوٹھا کھانے پینے سےگِھن کھاتے اور کتراتے ہىں، اس طرح بھی کھانے پینے کی چیزوں کے ضائع ہونے کی مقدار بڑھ جاتی ہے، حالانکہ مسلمان کا جُوٹھا کھانا پىنا ایک تو عاجزى والا کام ہے۔ ([1])اور دوسرا یہ کہ ”مؤمن کے جوٹھے میں شفا“ کی خوش خبری ہے۔([2])

آج ہر ایک بے بَرَکتی اور تنگدستی کے سبب پریشان ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ پریشانی کھانے پینے کی چیزوں  کا اِحتِرام نہ کرنے اور رزق کی بے حرمتی کرنے کے سبب ہو۔ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مکانِ عالی شان میں تشریف لائے،روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھاتو اُسے اٹھا  کر پُونچھا پھر کھالیا اور فرمایا ”اے عائشہ! اچّھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تَو لوٹ کر نہیں آئی۔“([3])ہمارا دینِ اسلام تو ہمیں دسترخوان پر گرے ہوئے کھانے کے ذرات بھی اُٹھاکر کھالینے اور انہیں ضائع نہ کرنے کا درس دیتا ہے،چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص دسترخوان سے کھانے کے گرے ہوئے ٹکڑوں کو اٹھا کر کھائے وہ خوش حالی کی زندَگی گزارتا ہے اور اس کی اولاد اور اولاد کی اولاد کم عقلی سے محفوظ رہتی ہے۔([4])

یاد رکھئے! جان بوجھ کر جس نے پانی کا ایک قطرہ اور اناج کا ایک دانہ بھی ضائع کىا تو وہ آخرت مىں پھنس سکتا ہے، مال ضائع کرنا ناجائز وگناہ اور جہنم مىں لے جانے والا کام ہے۔نیز اگر ہم کھانے پینے کی چیزوں کو ضائع کرىں گے تو قیامت کے دن اس پر حِساب نہىں بلکہ عذا ب ہے، حِساب تو اس حلال مال پر ہے جو ہم نے کھاىا پیا اور استعمال کیا، باقی جو ہم نے ضائع کر دىا اس پر تو عذاب ہے۔

اَلحمدُ لِلّٰہ شیخِ طریقت،امیر اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ پانی پیتے ہوئے  ایک ایک قطرہ ضائع ہونے سے بچانے کا اِہتمام کرتے ہیں چنانچہ پانی پی چکنے کے بعد مٹی کے پىالے  کے بیچ میں جو   دو تىن قطرے جمع ہو جاتے ہیں،  انہیں بھى پى لىتے ہیں۔ مَدَنى چىنل کے ناظرین نے بھی  یہ منظر بار ہا دیکھا ہو گا۔

اگر ہم سب بھی اپنا یہ ذہن بنالیں کہ کھانے پینے کی چیزوں  کا ایک ذرہ اور ایک قطرہ بھی ہم ضائع نہیں کریں گے اور نہ ہی ضائع ہونے دیں گے،نیز دوسرے مسلمان بھائی کا جُوٹھا بھی کھا پی لیں گے تو اس سے جہاں کھانے پینے کی چیزیں  ضائع ہونے سے بچیں گی  وہیں تنگ دستى اور غُربت میں بھی اچھی خاصی کمی آسکتی ہے، مہنگائى پر بھی کنٹرول ہوسکتا ہے، کیونکہ عام طور پر مہنگائی اُس وقت ہوتی ہے جب خرىداری زیادہ کی جاتی ہے، اگر لوگ خرىدارى کم کریں گے تو دُکانوں، کارخانوں اور فیکٹریوں میں مال اسٹاک پڑا رہے گا، بکے گا نہىں تو پھر بیچنے والے سستا کرىں گے۔ حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے مُریدوں سے کھانے کی اَشیا کی قیمتیں پوچھتے تو آپ سے کہا جاتا:ان کی قیمتیں حَد سے بڑھ گئی ہیں۔ اِرشاد فرماتے:انہیں خریدنا چھوڑ دو، سستی ہوجائیں گی۔([5])

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کا احترام کیجئے،انہیں ضائع ہونے سے بچائیے اور دوسروں کو بھی اس بات  کا ذہن دیجئے، روٹى، سالن، چاول اور اسی طرح دیگر کھانے پینے کی چیزیں اگر بچ جائیں اور کھانے پینے کے قابل ہوں تو دوبارہ استعمال کرنے کے لئے فریج میں رکھ دیجئے یا پھر کسى ایسے کو دے دیجئے کہ جو انہیں استعمال کرلے یا پھر گائے، بکریوں، چِڑیوں، مُرغيوں یا بلّیوں کوکِھلا پِلا کران چیزوں کی بےادبی اور اِسراف کے جُرم سے بچئے۔اللہ پاک ہمیں اپنی نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([1])کنزالعمال، جزء:3، 2/51، حدیث: 5745

([2])الفتاوی الكبری الفقھیۃ لابن حجر الهيتمی، 4/117

([3])ابن ماجہ،4/50، حدیث: 3353

([4])جامع الاحادیث،7/144، حدیث:21480

([5])احیاء العلوم،3/108


Share