خواتین کی وراثت

اسلام اور عورت

خواتین کی وراثت

*اُمِّ میلاد عطّاریہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2024ء

اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تشریف لانے سے جہاں دنیا کے بہت سے حصے سے کفر و شرک کا خاتمہ ہوا، باطل رسمیں ختم ہوئیں وہیں یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوقِ میراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات نازل ہوئے۔حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی  تشریف آوری کے نتیجے میں عورتوں پر ہونے والے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ خواتین کو بھی وراثت کا حق دار قرار دیا گیا۔

اسلام سے پہلے عورت  میراث  کے حق سے نہ صرف محروم تھی بلکہ خود ہی سامانِ میراث بنی ہوئی تھی۔اس کے برعکس اسلام نے مَردوں  اور عورتوں دونوں کو وراثت کے مال میں حصّے دار ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ پارہ4،سورۃ النسآء،آیت نمبر 7میں    اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

(لِلرِّجَالِ  نَصِیْبٌ  مِّمَّا  تَرَكَ  الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ۪- وَ لِلنِّسَآءِ  نَصِیْبٌ  مِّمَّا  تَرَكَ  الْوَالِدٰنِ  وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا  قَلَّ  مِنْهُ  اَوْ  كَثُرَؕ-نَصِیْبًا  مَّفْرُوْضًا(۷))

ترجَمۂ کنزُالعِرفان: مردوں کے لئے اس (مال) میں سے (وراثت کا) حصہ ہے جوماں باپ اور رشتے دار چھوڑ گئے اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ گئے، مال وراثت تھوڑا ہو یازیادہ۔ (اللہ نے یہ) مقرر حصہ (بنایاہے۔) ([1])(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے: زمانۂ جاہلیت میں عورتوں اور بچّوں کو وراثت سے حصہ نہ دیتے تھے، اِس آیت میں اُس رسم کو باطل کیا گیا۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ بیٹے کو میراث دینا اور بیٹی کو نہ دینا صریح ظلم اور قراٰن کے خلاف ہے دونوں میراث کے حقدار ہیں اور اس سے اسلام میں عورتوں کے حقوق کی اہمیت کا بھی پتا چلا۔([2])

کہتے ہیں کہ یہ ترقی یافتہ دور ہے  مگر   افسوس  کی بات ہے کہ  آج کے ترقی یافتہ کہلانے والے اس  دور میں بھی عموماً خواتین کو ان کے حق کے مطابق وراثت میں حصہ نہیں ملتا۔کئی جگہ  جہالت کی وجہ سے اورکئی جگہ غفلت کی وجہ سے اور کئی جگہ ظلم کی وجہ سے مستحق وارث کو اس کا حصہ نہیں دیا جاتا۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارے طرزِ زندگی (Lifestyle) کا محور اسلامی تعلیمات کے بجائے رسم و رواج کی پابندی بنتا جارہا ہے۔ جہیز رواج ہے شاید اس لئے ضرور دیتے ہیں، غریب سے غریب لڑکی کی شادی بھی بغیر جہیز کے ہوگئی ہو ایسا سننے میں بہت ہی کم آتا ہے لیکن وراثت فرض ہونے کے باوجود اس میں سستی اور کاہلی سے کام لینا عام ہوتا جارہا ہے۔

کبھی یہ عذر بيان كیا جاتا ہے کہ لڑکی کی شادی دھوم دھام سے کردی تھی،اس لئے وہ میراث کی حق دار نہیں ہے تو کبھی دوسری شادی کر لینے کی وجہ سے بیوہ کو اس   کے پہلے شوہر کے ترکے سے حصہ نہیں دیاجاتا جبکہ جو عورت شوہر کے انتقال کے وقت اس کے نکاح میں ہو اسے شرعی اعتبار سے اپنے شوہر کی وراثت سے حصہ ملے گا، اگرچہ وہ عدت پوری ہونے کے بعد دوسری شادی کرلے جب بھی اس کا حقِ وراثت باقی رہتا ہے، ختم نہیں ہوجاتا۔([3])بعض اوقات وراثت کی حق دار عورتوں جیسے بیٹیاں اور بہنوں کو دیگر رشتہ دار اپنا حصہ نہ لینے اور لئے بغیر معاف کر دینے کا کہتے اور اس پر زور دیتے ہیں۔ جبکہ معاف کرنے یا کروانے سے ان کا حصہ ختم نہیں ہوگا، مردوں پر لازم ہے کہ وہ حق دار عورتوں کو ان کا حصہ دیں اور خاندان کی عورتیں بھی اس میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔  نیز اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ فرمان بھی ضرور اپنے پیش نظر رکھیں،چنا نچہ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: ”مَنْ قَطَعَ مِیْرَاثَ وَارِثِہٖ قَطَعَ اللہُ مِیْرَاثَہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ‘‘ یعنی جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ پاک قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کو کاٹ دے گا۔([4])

بحیثیتِ عورت میں خواتین سے گزارش کروں گی کہ وہ اپنی ہم صِنف کو ملنے والے شرعی حق کی وصولی میں معاون و مددگار بنیں۔ اگر آپ ماں ہیں اور بیٹے غیر منصفانہ تقسیم کا فیصلہ کر رہے ہوں تو غیر جانبداری کے ساتھ اللہ پاک  کے احکامات اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین  پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت و تاکید کرکے نہ صرف اللہ کی رضا کی حقدار بن سکتی ہیں بلکہ اولاد میں انصاف کرنے کی روش اختیار کرکے خاندان کو ٹوٹنے سےبھی بچا سکتی ہیں۔

اگر آپ بھابھی ہیں تو اپنے شوہر کو بہن کا حصہ دبا لینے کی ترغیب دینے کے بجائے اپنی نند کے حقوق کی ادائیگی میں مددگار بنیں۔ اپنے اوپر رکھ کر سوچیں کہ اگر آپ کو اپنے والد یاوالدہ کے ترکہ میں سے حصہ نہ ملے یا آپ کے بعد آپ کی بیٹی کو اس حق سے محروم کردیا جائے تو کیا  یہ آپ کو گوارا ہوگا؟  جب بھی وراثت کی تقسیم کا معاملہ درپیش ہوتو ہمیں چاہئے کہ سب سے پہلے دار الافتاء اہل سنّت سے راہنمائی حاصل کریں، اور پھر جو راہنمائی ملے اسی کے مطابق وراثت کے مال کو تقسیم کریں اور اس  کی تقسیم میں ہرگز ہرگز تاخیرنہ کریں بلکہ جس قدر جلدی ہوسکے ہر شخص کو اس کا حصہ دے دیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اسے استعمال کرسکے، نیز میراث کی تقسیم میں تاخیر کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدگیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں، نسل در نسل ترکہ تقسیم نہ کرنے سے عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ ترکہ کئی کئی پشتوں تک ایسے افراد کے تصرف و استعمال میں رہتا ہے جن کا اس پر کوئی حق نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود وہ اس سے نفع اٹھارہے ہوتے  ہیں جب کہ بہت سے حق دار اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں اور ان کا مال غیر مستحق افراد کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ اسلام کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق جلد از جلد میراث کا مال تقسیم کر دیا جائے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان باتوں  پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن



([1])پ4، النسآء:7

([2])صراط الجنان،2/149

([3])دیکھئے:فتاویٰ فیض الرسول، 2/728

([4])مشکاۃ المصابیح،1/567،حدیث:3078


Share

Articles

Comments


Security Code