قتلِ ناحق کی مذمت احادیث کی روشنی میں

نئے لکھاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2024ء

قتلِ ناحق کی مذمت احادیث کی روشنی میں

*ضمیر احمدعطاری

اسلام دینِ فطرت ہے، مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا خلافِ فطرتِ سلیمہ ہے لہٰذا اسلام نے قتلِ ناحق کی شدید مذمت کی ہے چنانچہ الله پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

(وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳))

ترجمۂ کنزُالایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے تیار رکھا بڑا عذاب۔(پ5، النسآء: 93)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

قراٰنِ مجید کے علاوہ کئی فرامینِ مصطفےٰ قتلِ ناحق کی مذمت پر دلالت کرتے ہیں، ان میں سے 4 ملاحظہ کیجئے:

(1)دنیا کے مٹ جانے سے بڑا سانحہ: اللہ پاک کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔(موسوعہ ابن ابی الدنیا، 6/234، حدیث: 231)

(2)عبادت قبول نہ ہو: جس شخص نے کسی مؤمن کو ظلماً ناحق قتل کیا تو اللہ پاک اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔(ابوداؤد،4/139، حدیث: 4270)

(3)مقتول قاتل کو گریبان سے پکڑے گا: بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُو نے اسے کیوں قتل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔(معجم اوسط،1/ 224، حدیث:766)

(4)سب سے پہلے قتلِ نا حق کا فیصلہ: قیامت کے دن سب سے پہلے خونِ ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور حقوقُ العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔(مراٰۃ المناجیح،2/306، 307)

ہمارا معاشرہ جہاں دیگر بہت سی برائیوں کی لپیٹ میں ہے وہیں قتلِ ناحق بھی معاشرے میں بڑھتا جا رہا ہے۔ ذرا سی بات پر جھگڑا کیا ہوا اور نادان فوراً ہی قتل پر اُتر آتے ہیں، وراثت کی تقسیم پر جھگڑا، بچوں کی لڑائی پر جھگڑا، جانور دوسرے کی زمین میں کچھ نقصان کر دے تو جھگڑا، کسی کی کار یا موٹرسائیکل سے ٹکر ہو جائے اگرچہ نقصان کچھ بھی نہ ہو پھر بھی جھگڑا، بعض اوقات اس جھگڑے کی انتہا قتل ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت واپس آ چکا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، اپنے اندر صبر، حوصلہ اور برداشت کا جذبہ پیدا کریں، خوفِ خدا، عشقِ مصطفےٰ اور جہنم کا ڈر اگر ہر دل میں پیدا ہوجائے تو معاشرے کو اس بُرے مرض سے نکلنے میں دیر نہیں لگے گی۔

اللہ پاک ہمارے معاشرے سے اس کبیرہ گناہ کا خاتمہ فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور)


Share