ذمہ داری نبھائیے

فریاد

ذمہ داری نبھائیے!

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگرانِ مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2024ء

اسلام کے پہلے مُجدّد، خلیفۂ راشد، حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جو 2سال 5 مہینے خلافت پر فائز رہے اور اس ذمہ داری کے دوران انہوں نے زمین کو عدل و انصاف سے بھردیا اور ظلم کا خاتمہ کردیا، انہیں خلافت کی ذمہ داری بغیر مانگے دی گئی تھی۔([1]) مانگ کر حکومت لینے اور بِن مانگے ملنے والی حکومت کا فرق بیان کرتے ہوئے اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اے عبد الرحمٰن بن سَمُرَہ! تم اِمارت (یعنی حکومت) طلب مت کرنا! کیونکہ اگر وہ تجھے بغیر مانگے دی گئی تو اس پر تیری مدد کی جائے گی اور اگر تیری طرف سے مانگنے پر دی گئی تو تجھے اسی کے سِپُرد کر دیا جائے گا (یعنی پھر تیری مدد نہیں کی جائے گی)۔ ([2])

احساسِ ذمہ داری کے سبب رونے لگے: جب آپ کو بن مانگے حکومت ملی تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ رونے لگے، حضرتِ سیِّدُنا حماد رحمۃُ اللہِ علیہ نے رونے کی وجہ پوچھی، تو فرمایا:حماد! مجھے اِس ذمّہ داری سے بڑا خوف آتا ہے۔ انہوں نے پوچھا:آپ کو درہم (یعنی دولت) سے کتنی محبت ہے؟ اِرشاد فرمایا:مجھے درہم سے محبت نہیں ہے۔ تو حضرت سیدنا حماد رحمۃُ اللہِ علیہ نے عَرض کی: پھر آپ مت ڈریں، اللہ پاک آپ کی مدد فرمائے گا۔([3]) آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرت پر لکھی ہوئی مکتبۃُ المدینہ کی کتاب حضرت سیدنا عمربن عبد العزیز کی 425 حکایات“ میں اس واقعے کے تحت صفحہ 119 تا 120 پرلکھا ہے: آپ نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کا طَرزِ عمل ملاحظہ فرمایا کہ بغیر طَلَب کے خلافت کا اعلیٰ ترین منصب ملنے پر خوش ہونے کے بجائے اِحساس ِ ذمّہ داری کی وجہ سے کس قدر پریشان ہوگئے اور ایک ہم ہیں جو عہدہ و منصب کے حُصول کے لئے دوڑ دُھوپ کرتے ہیں اور اپنی خواہش پوری ہوجانے پر پُھولے نہیں سماتے لیکن اگر ہماری تگ ودَو کا مَن پسند نتیجہ نہ نکلے تو ہمارا موڈ آف ہو جاتا ہے۔ صِرف اِسی پر بس نہیں بلکہ (مَعاذَ اللہ) حَسَد و بُغض، چُغلی و غیبت، تُہمت اورعیب جُوئی کا ایک سنگین سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ نیز حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کو تسلی دینے والے کی مَدَنی سوچ بھی مرحبا کہ اگر حرصِ مال دل میں نہیں ہے تو اِن شآءَ اللہ عافیت و سلامتی نصیب ہوگی کیونکہ حِرصِ مال بہت سی تباہیوں کا سبب ہے جیسا کہ اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے رَیوڑ میں چھوڑدیئے جائیں تو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ مال ودولت کی حرص اور حُبِّ جاہ انسا ن کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ([4])

ذمہ داری پوری کرنے اور عدل کرنے والے حاکم کے فضائل: حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ امت کے حق میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے والے ایک عادل حاکم ثابت ہوئے تھے، اور حدیثِ پاک کے مطابق” عدل کرنے والا حاکم قیامت کے دن اللہ پاک کی رحمت یا اس کے عرشِ اعظم کے سائے میں ہوگا۔“([5]) اور عادل حاکم کا ایک دن 60 سال کی عبادت سے بہتر ہوتا ہے۔ ([6]) نیز نیک عادل بادشاہ قیامت کے دن نور کے منبروں پر ہوں گے۔([7])

جبکہ رعایا کے معاملات میں خیانت کرنے اور اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے والے حاکم اور نگران کے متعلق اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین میں بہت ہی عبرت ہے، 6فرامین مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں:

ذمہ داری پوری نہ کرنے والے: (1)اللہ پاک جس بندے کو رعایا کا نگران بنائے اور وہ اپنی رعایا سے خیانت کرتے ہوئے مَر جائے تو اللہ پاک اس پر جنت حرام فرما دیتا ہے۔([8]) (2) جو شخص مسلمانوں کے معاملات کا نگران بنے پھر ان کے لئے کوشش نہ کرے اوران کی خیر خواہی نہ کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہو گا۔([9]) (3) ایک روایت میں ہے کہ جیسی خیرخواہی اور کوشش اپنے لئے کرتا ہےویسی ان کے لئے نہ کرے تو اللہ پاک اسے قیامت کے دن منہ کے بَل جہنم میں ڈال دے گا۔([10]) (4)جو مسلمانوں کے کسی معاملے کا والی بنا اسے قیامت کے دن لایا جائے گا یہاں تک کہ اُسے جہنم کے پل پر کھڑا کیا جائے گا، اگر وہ نیکی کرنے والا ہوا تو پُل کو پار کرلے گا اور اگربرائی کرنے والا ہوا تو اس کی وجہ سے پل پھٹ جائے گا، اور وہ شخص جہنم میں 70 سال کی مسافت پرجا گرے گا۔([11]) (5)جو مسلمانوں کے کسی معاملے کا والی بنا، پھر اس نے مسکین، مظلوم یا حاجت مند پر اپنا دروازہ بند رکھا تو اللہ پاک قیامت کے دن اس کی حاجت کے وقت اپنی رحمت کے دروازے بند رکھے گا جبکہ وہ اس کا زیادہ محتاج ہوگا۔([12]) (6) جو میری امت کے کسی معاملے کا والی بنا اور اس نے ان کو مشقت میں ڈالا تو اس پر اللہ پاک کی بَھْلَہ ہے۔‘‘ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اللہ کی بَھْلَہ سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی لعنت۔([13])

اے عاشقانِ رسول! میں دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں 1991ء میں آیا ہوں اور میں نے سب سے پہلے 1994 یا 1995ء میں حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرتِ مبارکہ پڑھی تھی، اَلحمدُ لِلّٰہ اُس وقت سے مجھے ان سے محبت ہوگئی تھی کہ یہ کیا کمال کی شخصیت ہیں، کسی کو اگر حضور نبی ِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ،خلفائے راشدین اور دیگر بڑے بڑے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کی سیرتوں کا فیضان کسی ایک شخصیت میں جمع دیکھنا ہو تو وہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہکی سیرتِ پاک کو دیکھ لے۔ عِلم دین کے نور سے مالا مال، زُہد، تقویٰ و پرہیزگاری، اہلِ علم سے محبت، ان کو اپنے ساتھ رکھنا اور ان سے مشاورتیں کرنا وغیرہ۔ الغرض کہ خوفِ خدا، تقویٰ وپرہیز گاری اور شریعتِ مطہرہ پر عمل کی بنیاد پر چلائی گئی سلطنت نے تھوڑے ہی عرصے میں اَمْن اور معیشت دونوں کو ہی مضبوط کردیاتھا جوکہ کسی بھی ملک اور ریاست کی 2 اہم چیزیں ہوتی ہیں۔

میری بالعموم تمام عاشقانِ رسول اور بالخصوص امت کے والیان،ذمہ داران اور طبقۂ حکمران سے فریاد ہے! اللہ پاک کا خوف رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیجئے،اپنی موت،قبر اور حشر کے معاملات کو ہردم پیشِ نظر رکھئے،عمل کی نیت کے ساتھ خلیفہ ٔراشد حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرتِ مبارکہ کو ضرور پڑھئے۔اللہ پاک نے چاہا تو آپ اپنے اندر ضرور مثبت تبدیلی محسوس کریں گےاور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کی طرف قدم بڑھائیں گے۔اللہ پاک ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([1])تاریخ الخلفاء، ص185،184

([2])بخاری، 4/311، حدیث:6722-مرقاۃ المفاتیح،6 / 587، تحت الحدیث : 3412

([3])تاریخُ الخلفاء،ص185

([4])ترمذی،4/166، حدیث:2383

([5])بخاری،1 /480، حدیث: 1423- مراٰۃ المناجیح، 1/435

([6])معجم اوسط،3 /334، حدیث: 4765

([7])مسلم، ص783، حدیث:4721

([8])مسلم، ص78،حدیث:363

([9])مسلم،ص78،حدیث:366

([10])معجم صغیر 1/167

([11])معجم کبیر،2/39، حدیث: 1219

([12])مسند احمد،5/315،حدیث:15651

([13])مسند ابی عوانۃ، 4/380،حدیث:7023


Share