حدیث پاک اور اُس کی شرح
عزت میں اضافہ
* مولانا ناصر جمال عطاری مدنی
ماہنامہ مارچ2021
حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ اِلَّا عِزًّا یعنی اللہ پاک مُعاف کر دینے سے بندے کی عزت ہی میں اضافہ فرماتا ہے۔ (مسلم ، ص1071 ، حدیث : 6592)
اِس فرمانِ عالی شان کی وضاحت یہ ہے کہ جو شخص مُعاف و دَرگُزر کرتا ہے تو ایسے شخص کا مقام و مرتبہ لوگوں کے دلوں میں بڑھ جاتا ہے ، ایک معنی اِس کا یہ بھی ہے کہ اِس سے مراد اُخروی اجر اور وہاں کی عزت ہے۔
(دلیل الفالحین ، 4 / 538 ملخصاً)
مذکورہ حدیثِ پاک ہمیں “ معزز بننے کا نسخہ “ عطا کر رہی ہے اور انسانوں کے قائم کردہ معیارِ عزت کی خامیوں کو بھی خوب واضح کررہی ہے کیوں کہ انسان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا بڑے سے بڑا بدلہ لیا جانا چاہئے اور اگر سامنے کمزور ہو تو اُسے کُچل کر اور اُس کا نام و نشان مٹا کر ہی اپنی عزت کی دھاک بٹھانی چاہئے ، اِسی معیارِ عزت کی بقا اور تسکینِ اَنَا کے جھوٹے پیمانے کا نتیجہ ہے کہ جن معاشروں میں یہ وبا پھیلی ہوتی ہے وہاں بے چینی کے ساتھ لڑائی جھگڑے سے لے کر قتل و غارت گری تک عام ہوجاتی ہے۔ جب ہم اِن معاشرتی بُرائیوں کا جائزہ لے کر اسباب تلاش کرتے ہیں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ معافی مانگنا بطورِ رسم تو رائج ہے مگر اِسے بطورِ عزم نہیں اپنایا گیا جس کی وجہ سے زبان سے “ معاف کیجئے ، Sorry “ کے الفاظ تو نکلتے ہیں مگر دل سے دشمنی اور بغض و کینہ کی سیاہی عموماًدور نہیں ہوتی ، انتقامی جذبہ بدستور قائم رہتا ہے جس کے ہوتےہوئے نہ تو ہم کسی کو عزت دے سکتے ہیں اور نہ عزت پاسکتے ہیں۔
حال کی اِس مختصر اور خراب صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد کچھ دیر کے لئے ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں اور چشمِ تصور سے عہدِ نبوت کی ایک جھلک کانظارہ کرتے ہیں چنانچہ حضرت اُمِّ حکیم بنتِ حارث مَخْزومیہ بارگاہِ رسالت میں اِسلام قَبول کرنے کے لئے حاضر ہوئیں تو اپنے شوہر کے بارے میں عَرْض کی ، یارسولَ اللہ! عِکرمہ آپ سے بھاگ كر يمن جارہا ہے ، کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں آپ اسے قَتْل نہ کر ڈالیں ، آپ اسے اَمان دےدیجئے۔ یہ سُن کر رسُول ِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اَمان عطا فرمادی۔ پھراُمِّ حکیم اپنے شوہر کی تلاش میں نکلیں اور انہیں تِہامہ کے ساحِل پر جاملیں اور انہیں سمجھانے لگیں : “ اے چچاکےبیٹے! میں تمہارے پاس لوگوں میں سے سب سے اَفْضَل اور نیک ہستی (یعنی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی طرف سے آئی ہوں ، لہٰذاتم خُود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ “ پھر انہیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امان کے بارے میں بتایا تو عِکرمہ نے پوچھا : کیا تم نے واقعی ایسا کیا ہے؟ حضرت اُمِّ حکیم نے جواب دیا : ہاں! میں نے ان سے عرض کی تو اُنہوں نے امان دے دی۔ “ یہ سُن کر وہ اُمِّ حکیم رضی اللہُ عنہا کے ساتھ واپس لوٹ آئے ، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر حضرت عِکرمہ ایمان لائے اورسب حاضرین کو اپنے مسلمان ہونے پر گواہ بنا لیا۔ اس کے بعدحضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سابقہ کوتاہیوں کی مُعافی طلب کی۔ (کتاب التوابین ، ص123 ملخصاً) ہمارے پیارے نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےمسلمانوں کے خلاف جنگیں کرنے والے اس اُمت کے فرعون ابو جہل کے بیٹے کو بھی معافی سے نوازا جس کانتیجہ یہ نکلا کہ حضرتِ سیّدُنا عِکرمہ مسلمان ہو کر جاں نثار صحابی بنے اور آخرِکار راہِ اسلام میں شہید ہوئے۔
اِس شاندار ماضی کو آج بھی باعمل مسلمان اپناتے ہیں اور رب کی رحمت سے عزت و بہترین مقام پاتے ہیں چنانچہ مشہور ہے کہ ایک بزرگ اپنے دینی ادارے کے لئے چندہ اکٹھا کر رہے تھے ، اسی نیک مقصد کے لئے آپ ایک بڑی دکان پر تشریف لے گئے ، سلام کے بعد اپنی تشریف آوری کا مقصد بیان فرمایا ، دکان کے مالک نے زبانی جواب دینے کے بجائے آپ کے منہ پر تھوک دیا ، بزرگ نے اپنی جیب سے رومال نکالا ، چہرے سے تھوک صاف کیا اور مسکرا کر یوں فرمانے لگے : جناب! یہ تو میرے لئے تھا ، اب بتائیے کہ آپ میرے ادارے کو کیا دیں گے؟ یہ محبت بھرا اندازا ور تحمل سے بھرا جواب اُس پر بجلی بن کر گرا ، شرم سے پانی پانی ہوگیا اور روتے ہوئے آپ کے قدموں میں گرکر یوں عرض کرنے لگا : حُضور! میری غلطی تھی ، مجھے مُعاف کیجئے ، آپ جتنی رقم کہیں گے میں پیش کردوں گا۔
اِن واقعات کو پیشِ نظر رکھ کر غور کیجئے کہ ہمارے معاشرے میں ناگوار بات پر منفی ردِّ عمل کا اظہار کرنے کے بجائے دل سے معاف کرنے کا رواج پڑ جائے تو معاشرے میں باہمی عزت و احترام عام ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے معاف كرنے کی بدولت عزت کا حصول کیسے ہوتا ہے؟ آئیے! اِس کے نتائج و اثرات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں :
(1)بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کردینے سے غلطی کرنے والے کے دل میں “ محبت و اطاعت “ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جبکہ بدلہ لینے سے انتقام کی آگ بھڑک جاتی ہے ، یہی وجہ تھی کہ فتحِ مکہ کے روز عام مُعافی کے اعلان نے جانی دشمنی رکھنے والے کفار ِ مکہ کو حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اطاعت گزار اورجاں نثار بنا دیا۔
(2) “ Do good, Feel good “ (یعنی اچھائی کیجئے ، اچھا محسوس کیجئے) بطورِ مثال مشہور ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ کوئی نیکی اور بھلائی کرنے کے بعد قلبی سکون نصیب ہوتا ہے ، اور معاف کرنے سے ہم میں اچھے احساسات پیدا ہوتے ہیں جو ہمیں مزید اچھے اچھے کام کرنے پر اُبھارتے ہیں نیز دوسرے کے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ چونکہ اِس نے میری بُرائی کا جواب اچھائی سے دیا ہے لہٰذا یہ شخص بڑا اچھا آدمی ہے۔
(3)معافی کی برکت سے بُغض و کینہ کی جڑ کٹ جاتی ہے ، باہمی صلح کی فضا پیدا ہوتی ہے ، آپس کے مسائل حل ہوتے ہیں ، باہمی ناراضیوں کا خاتمہ ہوتا ہے ، آپس میں محبت بڑھتی ہے یوں عزت کو نقصان پہنچانے والے تمام عوامل ختم ہوجاتے ہیں۔
یاد رہے! اپنے ذاتی حُقوق تو مُعاف کرنے میں ہماری عزت ہے لیکن شرعی حقوق پامال کرنے والوں کو رعایت دینے سے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے لہٰذا ایسے لوگوں کو شرعی تقاضوں کے مطابق سزا ہی دی جائے گی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ فیضانِ اولیاو علما ، اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃالعلمیہ ، کراچی
Comments