قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنے کا طریقہ

دارالافتاء اہل سنت

 ماہنامہ مارچ2021

(1) قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنے کا طریقہ

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قسم کے کفارے میں کھانے یعنی دس صدقۂ فطر کی بننے والی قیمت کا حساب لگا کر اتنی رقم کی دینی کتب خرید کر شرعی فقیر طالبِ علم یا عالمِ دین کو پیش کرنے سے قسم کا کفارہ ادا ہو جائے گا یا نہیں ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں ان کتابوں کی قیمت دس صدقۂ فطر کی قیمت کے برابر ہو ، تو شرعی فقیر طالبِ علم یا عالمِ دین کو ان کتابوں کا قسم کے کفارے کی نیت سے مالک بنا دینے سے کفارہ ادا ہو جائے گا ، بشرطیکہ دس افراد کو الگ الگ ایک صدقۂ فطر کی قیمت کی کتابوں کا مالک بنائیں یا ایک ہی فرد کو دیں ، تو ایک ساتھ دینے کی بجائے دس دن تک ایک ایک الگ صدقۂ فطر کی قیمت کی کتابیں دیں ۔

اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ قسم توڑنے والے پر قسم کے کفارے کی نیت سے ایک غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا انہیں دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا لازم ہوتا ہے اور اسے اس بات کا بھی اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو کھانے کے بدلے میں ہر مسکین کو الگ الگ ایک صدقۂ فطر کی مقدار یعنی آدھا صاع (دو کلو میں اَسی گرام کم) گندم یا ایک صاع (چار کلو میں ایک سو ساٹھ گرام کم) جَو یا کھجور یا کشمش دے دے یا ان چاروں میں سے کسی کی قیمت دے دے۔ اگر ان کے علاوہ کوئی دوسری چیز دینا چاہے ، تو اس چیز کی قیمت کا آدھے صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا جَو کی قیمت کے برابر ہونا ضروری ہے۔ نیز ایک ہی مسکین کو دینا چاہے تو ضروری ہے کہ دس دن تک ایک ایک الگ صدقۂ فطر کی بقدر دے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبـــــــــــــــــہ

مفتی محمد قاسم عطّاری

(2)اپنی ذات کے لئےمسجد میں سوال کرنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مسجد میں اپنی ذات کے لئے سوال کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ کیا مسجد میں اپنی ذات کے لئے مانگنے والے کو دینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر کوئی اور شخص یا امام صاحب کسی فقیر کو دینے کی ترغیب دیں اور وہ فقیر مسجد میں ہی ہو تو کیا ان کا کسی کے لئے مسجد میں مانگنا جائز ہے یا نہیں؟ اور ان کے ترغیب دلانے پر حاجتمندکودیناشرعاجائزہے یانہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مسجد میں گڑ گڑا کر یا نمازیوں کے آگے سے گزر کر یا گردنیں پھلانگ کر سوال کرنا اپنے لئے یا دوسرے کے لئے دونوں صورتوں میں ناجائز و حرام ہے اور اگر یہ باتیں نہ ہوں ، تب بھی اپنی ذات کے لئے سوال کرنا مسجد میں منع ہے ، کیونکہ جن کاموں کے لئے مسجدنہیں بنائی جاتی ، وہ کام مسجد میں کرنا ممنوع ہوتے ہیں ، جیسے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے مسجدمیں گمشدہ چیز کا اعلان کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجدیں ان کاموں کے لئے نہیں بنائی گئی اور ایسے سائل کو دینا بھی منع ہے ، کیونکہ ایسے سائل کو دینے میں ایک حرام یا ممنوع کام پر مدد کرنا ہے اور ممنوع کام پر مدد کرنا بھی ممنوع ہے ، ہاں اگر کسی شخص نے اپنی ذات کے لئے نہ مانگا ، بلکہ کسی حاجتمند کی مدد کے لئے ترغیب دلائی ، اگرچہ ایسا مسجد میں ہی ہوا ہو ، جیسے امام صاحب کا کسی حاجتمند کی مدد کے لئے اعلان کرنا ، تو یہ نہ صرف جائز ، بلکہ سنت سے ثابت ہے اور دینا بھی ثواب ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

                                  مجیب                                                                                                                                                                                                                                                                          مصدق

عبدالرب شاکر قادری عطّاری                                                                                   مفتی محمد قاسم عطّاری

(3)قرض کا ایک اہم مسئلہ

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید پر میرا 15لاکھ کا قرض ہے ، زید نے بکر سے میری بات کروا دی کہ مجھے قرض کی رقم بکر ادا کرے گا اور بکر نے اسے قبول کر لیا ، بکر اب تک قرض کی آدھی رقم مجھے دے چکا ہے اور بقیہ کے متعلق کہتا ہے کہ میرے پاس فی الحال رقم کی گنجائش نہیں ہے ، جب ہو گی تب ادا کروں گا۔ یہ معاہدہ کیے ہوئے تقریبا پانچ سال ہو چکے ہیں ، تو کیا میں اپنی بقیہ رقم کا مطالبہ زید سے کر سکتا ہوں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورتِ مسئولہ میں آپ اپنے قرض کا مطالبہ بکر ہی سے کریں گے ، زید سے نہیں کر سکتے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرعاً مقروض کا اپنے اوپر لازم آنےوالے دَین مثلا ًقرض کو اپنے ذمہ سے دوسرے شخص کے ذمہ کی طرف منتقل کرنا حوالہ کہلاتا ہے ، مقروض یعنی حوالہ کرنے والے کو مُحیل اور دائن یعنی قرض خواہ کو مُحتال اور جس پر حوالہ کیا گیا ، اسے مُحتال علیہ یا مُحال علیہ کہتے ہیں۔ جب مقروض اپنے قرض کا دوسرے شخص پر حوالہ کر دے اور قرض خواہ اسے قبول کر لے ، تو مقروض برئ الذمہ ہوجاتا ہے اور اب قرض خواہ اس سے قرض کا مطالبہ نہیں کرسکتا ، سوائے اس کے کہ درج ذیل دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے۔

(1)محتال علیہ یعنی جس پر قرض کا حوالہ کیا گیا تھا ، وہ حوالہ کیے جانے سے انکار کردے اور مقروض و قرض خواہ کے پاس کوئی گواہ نہ ہو اور محتال علیہ حوالے سے انکار پر قسم کھا لے۔

(2)محتال علیہ مفلسی کی حالت میں فوت ہوجائے اور اس نے کوئی نقد مال یا دَین یا کفیل یعنی ضامن نہ چھوڑا ہو کہ جس سے یہ اپنا قرض لے سکے ، ان دو صورتوں میں قرض خواہ اپنے مقروض سے دوبارہ مطالبہ کر سکتا ہے ، ان کے علاوہ نہیں کر سکتا ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبـــــــــــــــــہ

مفتی محمد قاسم عطّاری


Share